میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہرشاخ پہ الو بیٹھا ہے ،انجام گلستاں کیا ہوگا

ہرشاخ پہ الو بیٹھا ہے ،انجام گلستاں کیا ہوگا

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۱ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی میں محکمہ تعلیم میں 75 فیصد ملازمین جعلسازیوں میں ملوث
٭ہزاروں ملازمین کی ڈگریاں مشکوک ، اپوائنٹمنٹ آرڈر جعلی ، سینکڑوں ملازمین کے تبادلے ، پروموشن جعلی ہزاروں ملازمین حاضری کے بغیر تنخواہیں وصول کررہے ہیں٭ تحقیقات کرنے والا افسربطور ’سزا‘ فارغ،اسے مختلف مقدمات میں الجھادیا گیا ،پوری صورتحال پر کسی بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیم نے کوئی آواز نہیں اٹھائی الیاس احمد
تعلیم ہر قوم کا زیور ہے لیکن جب زیور ہی نقلی ہو تو پھرسوچیے، قوم کا کیا حشر ہوگا؟ یوں تو کراچی میں مہنگے اور جدید تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن سرکاری تعلیمی ادارے اب تو خیر سے ناپید ہوچکے ہیں اور پھر محکمہ تعلیم کراچی کا جو حشر نشر ہوا ہے اس کا ذکر کیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اس اہم ترین مسئلے پر سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں؟ یہ ایک المیہ ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق کراچی میں اس وقت 42 ہزار ملازمین محکمہ اسکول ایجوکیشن میں کام کررہے ہیں جس میں سے31 ہزار ملازمین جعلی ہیں، جرا¿ت کی خصوصی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک اعلیٰ افسر نے جب اس کی چھان بین کی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اس افسر نے تین ماہ تک تمام ملازمین کے کوائف کو چیک کیا تو اس کے سامنے ہوش اُڑادینے والے انکشافات آتے گئے، ہزاروں ملازمین کی ڈگریاں مشکوک ہیں، سینکڑوں ملازمین کے ملازمت ملنے کے (اپوائنٹمنٹ) آرڈر جعلی ہیں، سینکڑوں ملازمین کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع (انٹر ڈسٹرکٹ) تبادلے جعلی ہیں، سینکڑوں ملازمین کے پروموشن جعلی ہیں اورہزاروں ملازمین گھر بیٹھے یا بیرون ممالک بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ جب اتنے بڑے شہر میں تعلیم کا یہ حال ہوگا تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ یہ سب کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ مقاصد کیا تھے؟ ان سب سوالوں کے جوابات ڈھونڈے جانے چاہییں۔ ایم اے جلیل سے لے کر قاضی خالد تک جتنے بھی صوبائی وزیر رہے ،ان کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا، ان کو بھرتیوں کے لیے نائن زیرو سے فہرست ملتی تھی اور وہ اس کے مطابق بھرتیاں کرتے تھے اور کوئی چھان بین بھی نہیں کرتے تھے ۔پھر جب پی پی پی کی حکومت آئی تو وہ لیاری اور ملیر کے لوگوں کی اسی طرح کی بھرتیاں کرتی ،اور رہی سہی کسر سابق صدر آصف علی زرداری کے بہنوئی سابق سیکریٹری محکمہ تعلیم فضل اللہ پیچوہو نے پوری کردی، انہوں نے دل کھول کر اس طرح کی بھرتیاں کرائیں۔ یوں کراچی میں محکمہ تعلیم یا اسکول ایجوکیشن کا بیڑا غرق کردیاگیا۔
ہم اپنے قارئین کو پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ اس وقت کراچی میں صرف 83 سرکاری اسکول چل رہے ہیں۔ 600 اسکول گود میں دیے گئے ہیں جہاں زیادہ تر دوسرے کاروبار ہورہے ہیں، اور 2650 سرکاری اسکول ڈی نیشنلائز کے نام پر فروخت کردیے گئے ہیں۔ اس پوری صورتحال پر کسی بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیم نے کوئی آواز نہیں اٹھائی، اب جعلی ملازمین کے خلاف بھی کوئی آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔کراچی میں جب تعلیمی ادارے ہی باقی نہیں رہے تو پھر ان 42 ہزار ملازمین کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ اس کا سب کو پتہ ہے کہ ہر کوئی مفت میں تنخواہ وصول کررہا ہے۔ یوں ہر کوئی ایک دوسرے کے مفاد کا تحفظ کررہا ہے اور ہر ایک کو اپنے حصے کا مال مل رہا ہے تو پھر وہ کیوں آواز اٹھائے گا؟ اس پورے معاملے کی تحقیقات کرنے والے افسرکو فوری طور پر گھر بھیج دیا گیا، اور ان کو مختلف مقدمات میں الجھادیا گیا اور یوں یہ قصہ ایک طرح سے ختم کردیا گیا۔ اب اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے کہ کراچی میں سرکاری اسکول کیوں ختم کردیے گئے ہیں؟ تو پھر ان ملازمین کا کیا بنے گا جو گھر بیٹھے یا بیرون ممالک بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں؟ اس طرح سیاسی جماعتیں بھی خاموش ہیں کیوںکہ ان کے حامیوں کو بغیر محنت کے تنخواہ مل رہی ہے اور وہ ملازمین اب دوسرے روزگار اور کاروبار کررہے ہیں؟ بس یہی وہ مجبوریاں ہیں جس کے باعث کراچی میں سرکاری تعلیمی اداروں کا جنازہ نکال دیا گیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب کراچی میں نجی تعلیمی اداروں کا جال بچھادیا گیا ہے، جگہ جگہ تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں اور جس مافیا نے کراچی کے تعلیمی ادارے فروخت کیے یا گود دے دیے، ان کے پیچھے بھی نجی اسکول مافیا تھی۔ اب غریب لوگ کہاں جائیں؟ سرکاری اسکولوں میں تو ان کے بچے تعلیم حاصل کرلیتے تھے لیکن نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس طرح کراچی کے متوسط طبقہ اور غریب عوام کے لیے تعلیمی دروازے بند کردیے گئے ہیں اور اس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کا بھی کردار ہے اور وہ خاموش بھی اس لیے ہیں کہ کہیں ووٹر ان سے ناراض نہ ہوجائیں؟ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سینکڑوں سرکاری اسکول فروخت کرکے بند کردیے گئے ہیں تو دوسری جانب ان اسکولوں کے ملازمین کو تنخواہیں دے کر ان کے منہ بند کردیے گئے ہیں باقی رہی عوام تو عوام کا کیا ہے؟ وہ تو کسی بھی سیاسی، مذہبی پارٹی کے خوبصورت نعرے کے پیچھے لگ کر یہ معاملہ بھول جائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں