عمران خان کو سزا؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
اتوار 28جنوری کو پی ٹی آئی کی ملک بھر میں جگہ جگہ بڑے پیمانے پر ریلیوں کے بعد 8فروری کے انتخابات پر ایک مرتبہ پھر بے یقینی کی کیفیت ہے۔ عامل صحافیوں اور مبصّرین کی اکثریت آنے والے انتخابات کو تاریخ کا سب سے زیادہ متنازع اور دھاندلی زدہ انتخاب قرار دے رہی ہے جس میں ملک کی سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کردیا گیا ہے۔ اس کا انتخابی نشان بلّا اس سے لے لیا گیا جس سے اس کے کروڑوں حامیوں کو شدید دکھ پہنچاہے۔ سیاسی جماعت سے اگر اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا جائے تو وہ انتخابی عمل سے باہر ہوجاتی ہے۔ اس کے امیدوار پارٹی کے بجائے آزاد تصّور کیے جاتے ہیں اور عملی طور پر وہ تحلیل ہوجاتی ہے۔ اس طرح پارٹی کے کروڑوں حامیوں کا اجتماع کا حق اور اجتماعی سیاسی سوچ کاحق ختم کردیا گیا جس کے سیاسی نتائج کا مطلب یہ ہوگا پاکستانی عوام کے ایک بہت بڑے حصے کو ملکی امو ر سے علیحدہ کر دیا گیا عوام کا ایک بڑا حصہ سیاسی عمل یاانتخابی عمل سے ملک میں تبدیلی نہیں لا سکتا ہے ۔ پاکستان کے آئین کا بنیادی تصور یہ ہے کہ حاکمیت خدا کی ذات ہے اختیار عوام کے پاس ہے جو وہ آزادانہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کر تے ہیں ۔کئی ماہرین کے خیال میں اس طرح پاکستان کے آئین میں دیے جانے والے رہنما اصولوںکی خلاف ورزی ہورہی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا ۔
پاکستان تحریک انصاف کو 9اپریل 2022 سے مسلسل رکاوٹوں کا سامناہے ۔پہلے مرحلے میں25 مئی 2022 کی ریلی کو روکنے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات اور گرفتاریاں کی گئیں۔ اسی طرح 3نومبر 2022 میں عمران خان پر ایک جلوس کی قیادت کرتے وقت فائرنگ کی گئی اور وہ اس قاتلانہ حملے میںزخمی ہوگئے جس کے اثرات ابھی تک ان کی ٹانگ میں موجود ہیں۔9مئی 2023میں ان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہنگاموں میںان کی جماعت زیر عتاب آگئی اور قریباً دس ہزار کے قریب گرفتاریا ں ہوئیں جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس میں سے بعض اہم رہنما اب بھی گرفتا ر ہیں۔عمران خان پر تقریباً دو سو مقدمات قائم ہیں ۔ان میں سے ایک اہم مقدمہ سائفر کا ہے ۔یہ وہ مراسلہ ہے جو 7مارچ کو امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر نے بھیجا تھا۔
سزا سے پہلے ہی تحریک انصاف اور مختلف صحافیوں اور اہل خانہ کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا کہ عمران خان کواس خفیہ مراسلے کے مندرجات کو عوام میںظاہر کرنے اور پاکستان کے خارجہ تعلقات ایک اہم ملک سے خراب کرنے کے الزامات پر مشتمل سائفر مقدمے میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا دے دی جائے گی ۔خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ سزا 5فروری تک سنائی جائے گی اور یوں تحریک انصاف کے ووٹرز کو انتخابات سے دو روز قبل مکمل مایوسی سے دوچار کردیا جائے گا۔ یہ منصوبہ ظاہر ہونے کے بعد حیرت انگیز طور پر خصوصی عدالت کی کارکردگی کو پر لگ گئے اور عدالت نے بہت تیز رفتاری سے مقدمہ کو بھگتاتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنادی گئی ہے۔تحریک انصاف کے موجودہ چیئرمین بیر سٹر گوہر نے اس سزا کے سنائے جانے کے بعد برملا کہا ہے کہ اگر سزائے موت بھی سنائی جاتی تو وہ اس کے لیے تیار تھے۔ اُنہوں نے کارکنان کو کہا ہے کہ وہ فیصلے پر مشتعل نہ ہوں اور قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔
انتخابی عمل پہلے ہی متنازع ہے مسلم لیگ کی موجودہ انتخابات میں کا میابی ہوجا تی ہے تو اس کے نتیجے میں آنے والی حکومت کی قانونی حیثیت بھی متنازع ہی رہے گی۔ ملک مزید عدم استحکام کی جانب گامزن ہوگا ۔سیاسی استحکام کیسے ممکن ہے ؟اس بارے میں امریکا کے اہم ادارے یونائٹڈاسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس نے مستحکم حکمرانی کا تحقیقی جائزہ لیا ہے، اس ادارے کو امریکی کانگریس نے تشکیل دیاتھا ۔اس ادارے کے مقاصد میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تنازعات کا خاتمہ ،عالمی امن کاقیام، تحقیق اور پالیسی سازی کی تجاویز کی تیاری ہے۔ ادارے نے مستحکم حکمرانی کے بارے میں جو مسلمّہ اصول طے کیے ہیں ان میںبتایاگیا ہے کہ ریاست کی جانب سے عوام کی جان و مال کاتحفظ،قانون کی حکمرانی،معاشی سرگرمیوں کی نگرانی اور ضروریات زندگی کے لوازمات کی بلا امتیاز ہر خاص و عام کے لیے فراہمی شامل ہے۔ جبکہ تمام تنازعات کا بات چیت سے حل کیے جانے کا طریقہ کار وضع ہو، اختیارات کی مناسب تقسیم ہو،انتخابی عمل شفاف ہو،مقنّنہ عوامی مفادات کی ترجمانی کرے(یعنی قومی اسمبلی،سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ایسے قوانین بنائیں جس کا براہ راست عوام کے ہر طبقے کو فائدہ ہو) یہ کوئی خفیہ دستاویز نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پر مستحکم حکومت(STABLE GOVRNMENT) تحریر کرکے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس میں اسے مزید تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دیگر اہم مندرجات میںریاستی وسائل کی نگرانی کے لیے اداروں کاقیام ،اس کے لیے تربیت یافتہ پیشہ ورانہ افرادی قوت ، مطلوبہ وسائل اوررقوم کی فراہمی کے علاوہ اس کے متعلقہ ذمہ داران کا احتساب شامل ہے ۔اسی میں میڈیا کی آزادی اور سول اداروں کی بالادستی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان تمام لوازمات پر مشتمل مستحکم حکمرانی اس لیے ضروری ہے کہ ریاست پر جرائم پیشہ گروہ یامسلح دہشت گرد حاوی نہ ہوجائیں ۔اس ساری تحقیق کا نچوڑ اس بات میں ہے کہ کسی بھی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کے عوام خوشحال اور بااختیار ہوں۔ امور مملکت میں ان کی بلا امتیاز بھر پور شراکت ہو۔ لوگوں کو سستا انصاف ملے ۔ان کے جان ومال کو مکمل تحفظ حاصل ہو ۔انہیں عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی ریاست کاسفر اس مثبت سمت میں نہیں ہے۔ خصوصاً گزشتہ پونے دو سالوں میں جس تیز رفتاری سے ملکی ادارے زوال پزیر ہیں، ظاہر کر تا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی خراب دور ہے ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ان حقائق سے چشم پوشی کی جارہی ہے ۔بلکہ بعض حلقے اس پر اطمینان اور خوشی کابھی اظہار کر رہے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ دولت مند اور مراعات یافتہ طبقے کے علاوہ ہر خاص وعام سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ پیٹرول،بجلی ،آٹا ،دال، چاول،گوشت اور دیگر ضروری اشیاء اس قد ر مہنگی ہیں کہ غریب آدمی کو اپنی ایک وقت کی روٹی کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے کیسے مان لیا جائے کہ سب اچھاہے ، عدلیہ کی ساکھ خراب ہورہی ہے، انتظامیہ ،پولیس اور دیگر ادرے کمزور ہورہے ہیں۔ سیاسی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے انتخابی عمل متنازع ہے۔ الیکشن کمیشن اپنا اعتبار کھوچکا ہے۔ دفاعی اداروں اور عوام میں دوری بڑھ رہی ہے۔ میڈیا دبائو کی وجہ سے آزاد نہیں ہے۔ ان حالات میں عمران خان کو سزائے موت یا عمر قید کی سز ا سے سیاسی استحکام کی امید کس طرح ممکن ہوگی۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ خزاں کو بہار کانام دینے پر مامور ہوں لیکن اسے سچ بناکر پیش کرنا اور توقع کرنا کہ لوگ اسے قبول کرلیںکیسے ممکن ہے ۔ مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہا۔۔۔
پھول شاخوں پر کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کوملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا