سیپا میں جعلی این اوسیز کا ڈراپ سین
شیئر کریں
لاتعدادمنظوریوں کا بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی پر تحقیقات سرد خانے کی نذر
(رپورٹ: علی کیریو)محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا میں ترقیاتی منصوبوں اور ماحول کے لئے نقصان دہ مواد کی درآمدی منظوریوں میں جعلسازی کی تحقیقات کے معاملے کا ڈراپ سین،لاتعداد این او سیز کا بھانڈہ پھوڑنے کی دھمکی پر نان کیڈر ڈی جی سیپا نعیم مغل نے تحقیقات سرد خانے کے حوالے کروادی ،وزیر ماحولیات اسماعیل راہو خاموش تماشائی بن گئے۔تفصیلات کے مطابق سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) میں 8نومبر2021کو چند فائلوں میں مختلف ترقیاتی منصوبوں اور ضرر رساں مواد درآمد کرنے کے لیے جاری کی گئی این او سیز جعلی نکلنے پر سیپا کے نان کیڈر ڈی جی نعیم مغل نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سیپا کے تین سینئر ٹیکنیکل افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کی، کمیٹی کو 15 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی،کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وقار حسین پھپلوٹوہیں جبکہ ڈائریکٹر ٹیکنیکل عاشق حسین لانگاھ اور ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل عمران صابر ممبرکے طور پر شامل تھے،۔ذرائع کے مطابق جعلی این او سیز جاری کرنے والے عناصر نے ڈی جی نعیم مغل اور اُس کے منظور نظر افسران کو واشگاف الفاظ میں پیغام دیاکہ اگر اس معاملے کو اُٹھایا گیا تو وہ بھی ڈی جی سیپا اور اُس کے چہیتے افسران محمد کامران خان اور منیر عباسی کی جانب سے جاری کی گئی لاتعداد ایسی این او سیز کا بھانڈا پھوڑ دیں گے جو سندھ میں جاری مختلف ترقیاتی منصوبوں کو محض آئی ڈبل ای پر دی گئی اور ان کے بدلے سیپا کی کالی بھیڑوں نے مبینا طور پر کروڑوں روپے حاصل کئے ہیں، حالانکہ اُن منصوبوں کا قواعد کی رو سے ای آئی اے کرانا تھا جس میں زیادہ ماحولیاتی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں اور ای آئی اے کی رپورٹ پر عوامی آراء بھی لینی ہوتی ہیں جو عموماً منظوری کڑی شرائط کے ساتھ مشروط کردیتے ہیں۔ذرائع کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران ڈی جی سیپا نعیم مغل کی ایماء پر بے شمار ترقیاتی منصوبوں پر ای آئی اے کی بجائے آئی ڈبل ای کی بنیاد پر ماحولیاتی منظوری دی گئی ہے جو سندھ کے قانون برائے تحفظ ماحول 2014کی سنگین خلاف ورزی ہے،جعلی این او سیز کے معاملے پر وزیر ماحولیات محمد اسماعیل راہو پہلے دن سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرر ہے ہیں او ر نان کیڈر ڈی جی سیپا نعیم مغل نے ان کو اعتماد میں ہی نہیں لیا۔واضح رہے کہ حال ہی میں عدالت عالیہ میں اربن ٹوئن ٹاور پر ای آئی اے کی بجائے آئی ڈبل ای پر ماحولیاتی منظوری دینے کے کیس میں محکمہ ماحولیات، سندھ نے ڈی جی سیپا کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جبکہ شاذ ریذیڈنسی کی ماحولیاتی منظوری کے اجراء میں بھی اسی نوعیت کی منظوری دینے پر ڈی جی سیپا سمیت سابق ڈی جی سیپا بقاء اللہ انڑ اور ادارے کے دیگر دو افسران پر سندھ ماحولیاتی ٹریبونل بھی فرد جرم عائد کرچکا ہے۔