غنڈوں کی تاریخ
شیئر کریں
ٹرمپ مختلف نہیں، یہی امریکا کی تاریخ ہے۔ افسوس رجحانات تشکیل دینے والے آلوں اور اداروں پر بھی امریکی قبضہ ہے۔ اس لیے حقائق بھی امریکا کے زیرتسلط ہیں۔ آغاز سے انجام تک امریکا کی جو بھی تاریخ تحریر ہو گی وہ ”غنڈوں“ کی تاریخ ہوگی۔ جی ہاں! یہی وہ لفظ ہے جو اینڈریو جیکسن کے لیے استعمال ہوا۔ امریکی تاریخ کا ساتواں صدر جس کا عرصہ صدارت 1829 سے 1837 تک کے عرصے پر محیط ہے۔ خود اینڈریو جیکسن نے کہا کہ ©”واشنگٹن کو کچھ خوش لباس، تعلیم یافتہ بدمعاشوں کا ٹولہ چلا رہا ہے۔“ یہی وہ شخص تھا جس نے جیفرسن کی ریپبلکن پارٹی کو ساتھ لے کر ایک نئی پارٹی بنائی جس کا نام ”ڈیموکریٹک پارٹی “ رکھا۔ امریکا کے بیس ڈالر کے نوٹ پر اُس کی تصویر موجود ہے۔ مگر اُسے وہائٹ ہاو¿س میں داخل ہونے والا اپنی قسم کا پہلا پاگل اور جنونی شخص کہا جاتا ہے۔ خاطر جمع رکھیں! ٹرمپ دوسرا بھی نہیں ۔ اینڈریوجیکسن اور ٹرمپ کے درمیان بیسیوں صدور اسی نوع کے موجود ہیں جو ٹرمپ کی مانند ہی پاگل اور جنونی کہلائے۔
ٹرمپ ڈبلیو ڈبلیو ای کی ریسلنگ میں اپنے لڑاکا اُتارتا اور پھر لذت کشید کرتا۔ اینڈریو جیکسن نے کوئی ایک سو سے زیادہ ڈوئیل لڑائیاں لڑیں۔ کارمک اوبرائن نے اپنی کتاب میں جیکسن کے ایک خط کے الفاظ نقل کیے ہیں جس میں وہ اپنے ایک حریف کو ”دعوتِ مبارزت“ دیتا ہے۔ الفاظ ملاحظہ کریں: جناب، جب کسی کے جذبات اور شہرت کو مجروح کیا جاتا ہے تو وہ اس کی فوراً تلافی چاہتا ہے۔ میری شہرت کو آپ نے دھچکا پہنچایا ہے اور ایک عدالت اور بڑے اجتماع میں میری توہین کی ہے۔ میں آپ کو ایک معزز آدمی کی حیثیت سے اس کے لیے دعوت مبارزت دیتا ہوں۔ علاوہ ازیں میں آپ کو تاکید کرتا ہوں کہ کسی ابہام کے بغیر مجھے اس خط کا فوراً دوٹوک جواب دیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ رات کا کھانا اُس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک یہ کام نہیں ہوجاتا۔ “اوبرائن نے امریکی صدر کے اس خط کے الفاظ سے جو نتائج اخذ کیے ، وہ بھی کمال کے ہیں۔ ”جیکسن ایک غضب ناک اور حجت پسند آدمی تھا۔ اُس کے نزدیک عزت ووقار کے معاملات مبارزت (ڈوئیل) کے ذریعے طے کرنے سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں تھااور اس کے لیے وہ زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ “ایک غنڈے کی شہرت رکھنے والا یہ شخص بھی امریکا کے صدارتی منصب پر پہنچا۔
امریکا کے باب میں ہم نہایت مودّب ہوجاتے ہیں۔ مگر جیکسن ہمیں امریکا کا اصل چہرہ دکھا تا ہے۔ایک مقامی ڈانسنگ اسکول میں کرسمس کے موقع پر رقص کی ایک تقریب کا اہتمام کرنے کا فیصلہ ہوا تو جیکسن نے اس کی آڑ میں دوبدنام ترین طوائفوں کو مدعو کرلیا۔ ایک اسکینڈل کھڑا ہوا۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ اُس کے بعد اور اِ س کے باوجود صدر بنا۔ ایک اور واقعہ میں اُس نے اپنے دوگماشتوں کو ساتھ لیا اور شراب کے نشے میں دُھت ایک شراب خانے میں گھس کر پہلے اُس کے شیشے توڑے، پھر فرنیچر توڑا اور پھر عمارت کو نذرِ آتش کردیا۔ جیکسن کی راتیں وحشیانہ ہوتیں۔ اُس کی پسندیدہ شرارت لوگوں کے جانوروں کو ایسی جگہ چھوڑ آنا تھا جہاں سے وہ اُنہیں آسانی سے نہ مل سکیں۔اس مزاج کے ساتھ بھی وہ صدر بنا۔ایک بندوق بردار شخص جسے امریکی صدارت نے بھی نہیں بدلا۔ اُس کا پسندیدہ مشغلہ لوگوں پر گولیاں چلانا تھیں جس سے وہ مطمئن ہوتا۔ امریکا غنڈوں کی دریافت تھا۔ اور غنڈوں نے ہی اِسے قائم رکھا ہوا ہے۔ ٹرمپ مختلف نہیں۔ چنداں مختلف نہیں۔
امریکی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ فرق واقع ہوا کہ امریکا کے ان غنڈوں نے اپنا شوق ملک میں آزمانے کے بجائے دوسرے ملکوں پر پورا کرنا شروع کردیا۔ جیکسن سے امریکا کو خود خطرہ تھا مگر بعد کے صدور نے یہ خطرہ پوری دنیا پر محیط کردیا۔ اُن کی ایک نئی لغت اور ایک نیا رویہ تھا۔ بھارت کی باضمیر دانشور ارون دھتی رائے جسے ”چیک بُک کے ساتھ کروز میزائل “ سے تعبیر کرتی ہیں۔ اُس نے ایک اور جنونی بُش کے الفاظ تحریر کیے: آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا پھر دہشت گردوں کے ساتھ۔“ارون دھتی رائے کہتی ہیں ، کیا مطلب یعنی” غیرجانب داری کوئی آپشن ہی نہیں“۔ دوانتہاو¿ں میں سے ایک انتہاہی ہمار ا مقدر ہے۔ جی ہاں امریکا نے ایک ایسی ہی دنیا بنائی ہے جس میں وہ اپنا عالمی فرمان (ورلڈ آرڈر) یعنی غنڈہ گردی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ بش نے ایک موقع پر کہا کہ ”ہم ایک پُرامن قوم ہے“۔ ارون دھتی رائے کا غصہ جائز تھا۔ اُس نے کہاکہ ”سﺅر گھوڑے بن گئے اور لڑکیا ں لڑکوں میں تبدیل ہوگئیں، لہذا جنگ کو امن کا نام دے دیا گیا“۔بش نے کہا کہ ” عراق پر حملہ ایک درست اور منصفانہ اقدام تھا، کیونکہ ہم نے صدام حسین کو پکڑ لیا“۔ بھارتی دانشور کہتی ہیں کہ ”یہ ایسے ہی ہے جیسے جیک نامی بے رحم اور سفاک قاتل کی پرستش اس لیے کی جائے کہ اُس نے نیزے کی انی سے بوسٹن کے جلاّد کی آنتیں نکال دیں“۔یہ ہے امریکا کی لغت اور رویہ، جسے ارون دھتی رائے نے سمجھا۔ افسوس ہمارے سات ، آٹھ ، دس اور گیارہ بجے کے ایک گھنٹے گھنٹے کے بالشتیے دانشور نہیں سمجھتے۔
ٹرمپ کیا مختلف ثابت ہوں گے۔ وہ امریکا کی اندرونی عریانیت کا محض ایک ظاہر ہے، اس لیے زیادہ مفید بھی۔وہ بش، کلنٹن اور اوباما سے زیادہ خطرناک نہیں۔ مگر اُن کا ایک فائدہ ہے کہ وہ امریکا کے اندرون کو باہر لارہا ہے۔ امریکا کی جعلی روایات کی قے کررہا ہے۔ جیکسن امریکیوں کومبارزت( ڈوئیل ) کی دعوت دیتا تھا۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کودی۔ جیکسن امریکیوں پر گولی چلانے کا مشغلہ رکھتا تھا۔ بعد کے صدور نے مسلمانوں پر گولیاں چلانے کو مشغلہ بنایا مگر اِسے امریکا کی جعلی روایتوں میں چھپایا۔ ٹرمپ کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس مشغلے کو ایک مرض کی طرح جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اور اس کے لیے کسی جعلی جمہوریت کی کوئی کمتر وکہتر روایت کا بھی سہارا نہیں لے رہا۔ مسلمانوں کے لیے نہیں ٹرمپ امریکی دفاع کے خبط میں مبتلا پاکستان کے اُن لبرل اور جدیدیت پرستوں کے لیے ایک مسئلہ بن چکا ہے جو امریکاکے دفاع میں اب نئے نئے حیلوں کی تلاش میں ہیں۔ ٹرمپ سراپا شر ہے مگر اُس کے شر میں مسلمانوں کے لیے یہی ایک خیر ہے اور یہ خیر کوئی معمولی نہیں کیونکہ یہ نتائج پیدا کرنے والا خیر ہے۔
٭٭