میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ آخری قسط

سفر یاد۔۔۔ آخری قسط

منتظم
منگل, ۳۱ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لیے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھا۔ ہم نے خلوص دل کے ساتھ کام سمجھنے میں اس کی مدد کی جیسے جیسے شنکر کی گرفت کام پر بڑھتی گئی اس کا رویہ ہمارے ساتھ خراب سے خراب ہوتا چلا گیا۔ اس نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا۔ بات بے بات ڈانٹ ڈپٹ اور خراب زبان کا استعمال اس کا وتیرہ تھا۔ ہم نے مصری منیجر سے شکایت بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شنکر کا رویہ جلال صاحب کے ساتھ بھی برا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کا رویہ سب کے ساتھ برا ہو، بھارتیوں اور دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ عام طور پر نرم رہتا تھا لیکن ہم اور جلال صاحب اس کی بد اخلاقی کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ہم نے جلال صاحب سے کہا ایسا لگتا ہے شنکر کو پاکستان اور پاکستانیوں سے خاص پرخاش ہے، جلال صاحب نے ہماری بات سے اتفاق کیا ہم نے کہا ہم دونوں کو مصری منیجر سے بات کرنی چاہیے۔ اس روز لنچ ٹائم میں ہم اور جلال صاحب مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے۔ جلال صاحب کی عربی بہت اچھی تھی انہوں نے مصری منیجر سے عربی میں بات چیت شروع کردی۔ ہماری سمجھ میں زیادہ تو نہیں آرہا تھا لیکن ان دونوں کی گفتگو کے دوران شنکر کا نام بھی ایک دو بار آیا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ اصل بات چیت کچھ اور ہو رہی تھی اور شنکر کا تذکرہ بھی بیچ میں ایک دو بار آگیا تھا۔ ہم چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے، کچھ دیر بعد جلال صاحب مصری منیجر کو سلام کرکے کھڑے ہو گئے، ہم بھی ان کے ساتھ باہر نکل آئے۔ ہم نے پوچھا: کیا بات ہوئی؟ جلال صاحب نے بتایا مصری منیجر کا کہنا تھاکہ صرف آپ دونوں کو اس سے شکایت ہے، ورنہ باقی سب تو اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔اس لیے جلال صاحب نے اس سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں۔ اگلے روز شنکر نے کسی بات پر کہا تم پاکستانی ہوتے ہی سست ہو ہم اس بات پر بھڑک گئے، ہم نے سخت الفاظ میں اسے تنبیہ کی کہ ہم کو وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے لیکن پاکستان کے خلاف ہم ایک لفظ برداشت نہیں کریں گے۔ تُو تُو میں میں بڑھی شنکر نے پاکستان کو گالی دے دی، بس پھر کیا تھا ہمارا ضبط کا بند ٹوٹ گیا ہم نے شنکر کے گال پرایک بھرپور تھپڑ مارا جس کی آواز دفتر میں گونج گئی، دفتر میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ شنکر کچھ دیر سناٹے میں رہا، پھر اس نے مغلظات بکنا شروع کردیں، ہم اسے مارنے کے لیے آگے بڑھے تو دیگر لوگوں نے ہمیں روک لیا اور کھینچ کر دفتر سے باہر لے گئے۔ شنکر کے منہ پر ہمارے طمانچے کی گونج پورے کالج میں سنی گئی، مصری منیجر نے ہمیں اپنے دفتر میں طلب کرلیا جہاں کالج انتظامیہ کی جانب سے محمد رویلی اور ایک دوسرا افسر موجود تھا۔ رویلی کو ہم شنکر کے رویے کے بارے میں پہلے بھی بتا چکے تھے، مصری منیجر سے بھی کئی بات شکایت کر چکے تھے سب کو معلوم تھا کہ قصور ہمارے انچارج شنکر کا تھا۔ ہم نے تسلیم کیا کہ ہم نے شنکر کو تھپڑ مارا ہے۔ ان سب کا کہنا تھا گرما گرمی کو زبان تک محدود رکھنا چاہیے تھا، ہاتھ اٹھانے سے معاملہ خراب ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے شنکر کو بھی طلب کیا اور ہم سے کہا گیا کہ اس سے معافی مانگیں، ہم نے کہا اس شخص نے پاکستان کو گالی دی ہے، اس لیے اس سے معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مصری منیجر نے ہمیں چارروز کے لیے معطل کردیا۔ ہمارے تھپڑ کی بات ولا تک پہنچ چکی تھی، وہاں منیب اور علی سمیت دیگر پاکستانیوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا، دوسری جانب بھارتیوں کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا۔ ہم نے چار دن ولا میں گزارے۔ یہاں سب لوگ صبح اپنے کاموں پر نکل جاتے تھے اورولا میں ویرانی کا راج ہوتا تھا۔ ہم صبح ناشتے کے بعد ولا کے چھوٹے سے لان کے پاس جا کر بیٹھ جاتے تھے، پودوں کو پانی دیتے، کانٹ چھانٹ کرتے،دسمبر شروع ہو چکا تھا، موسم کی سختی کم ہو چکی تھی، اس لیے پودوں نے رنگ روپ نکالنا شروع کردیا تھا۔چار دن تک ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ بات بڑھی تو ہم پاکستان واپس جانے کی درخواست کردیں گے۔
ان چار دنوں کے دوران ہمارے خلاف انکوائری چلتی رہی۔ چار دن بعد کالج پہنچے تو ہمیں مصری منیجر نے طلب کرلیا۔ اس نے کہا آپ ابھی اپنے دفتر نہ جائیں شنکر نے آپ کے خلاف فضا بنا دی ہے، وہاں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ اتنے میں جلال صاحب بھی وہاں پہنچ گئے، ان کے اور مصری منیجر کے درمیان عربی میں بات چیت ہونے لگی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اس گفتگو کا محور ہم ہی تھے۔ کچھ دیر بعد مصری منیجر نے کہا کمپنی کی منیجمنٹ تم کو کسی اورسائٹ پر بھیجنا چاہتی ہے جبکہ کالج کی مینجمنٹ تم کو یہیں رکھنا چاہتی ہے، ایسے میں میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ہم نے کہا ہمیں واپس پاکستان بھیج دیں۔ مصری منیجر نے کہا مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ میں کمپنی اور کالج انتظامیہ سے بات کرتا ہوں ،اس وقت تک تم کالج آو¿ گے لیکن اپنے دفتر میں نہیں بلکہ جلال صاحب کے ساتھ بیٹھو گے۔ اسی روز ہم محمد رویلی سے ملے اور اس سے درخواست کی کہ ہم پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں ،اس لیے وہ کمپنی سے ہمیں واپس بھیجنے کے لیے کہے۔ رویلی نے کمپنی انتظامیہ سے ہمیں واپس پاکستان بھیجنے کے لیے کہا ۔اب کمپنی کے پاس ہمیں واپس بھجوانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا وہ ہمیں کسی اور سائٹ پر بھی نہیں بھیج سکتے تھے۔ دو دن بعد ہمیں ہیڈ آفس بلایا گیا جہاں ہم سے کچھ کاغذات پر دستخط لیے گئے اور اگلے روز صبح دس بجے تیار رہنے کے لیے کہا گیا۔ ولا پہنچ کر ہم نے علی اور منیب وغیرہ کو بتایا کہ صبح دس بجے ہمیں شائد دوبارہ ہیڈ آفس جانا پڑے، انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اوراچھی امیدرکھنے کی صلاح دی۔ اگلی صبح دس بجے کمپنی کی گاڑی ہمیں لینے کے لیے پہنچی، ڈرائیور نے کہا اپنا سامان پیک کرلیں آپ کا ٹکٹ اور پاسپورٹ میرے پاس ہے مجھے آپ کو ایئرپورٹ چھوڑنا ہے۔ ہمیں ایسے اچانک واپسی کی امید نہیں تھی۔ خیر جلدی جلدی سوٹ کیس میں کپڑے اور دیگر سامان بھرا، نہا دھو کر کپڑے تبدیل کیے اور گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گاڑی ریاض ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھی۔ ہم سوچ رہے تھے ،کہاں ہم وطن واپس جانے کے لیے اتنے بے تاب تھے اور کہاں اس طرح اچانک اڑان کا پروانہ مل گیا تھا۔ ہم نے ڈرائیور سے کہا ہمیں کچھ دیر کے لیے کالج لے جائے تاکہ ہم اپنے دوستوں سے الوداعی ملاقات کرسکیں لیکن ڈرائیور نے کہا کالج ایئرپورٹ کے راستے میں نہیں پڑتا اس لیے وہ ہمیں وہاں نہیں لے جا سکتا، راستے میں ایک پبلک کال آفس سے ہم نے گھر فون کیا اور والد کو اپنی واپسی کی اطلاع دی۔ وہ بھی ہمارے اس طرح اچانک واپسی پر حیران تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ریاض ایئرپورٹ کے لاونج میں بیٹھے تھے، کالج ، جنادریہ ، نسیم ولا، اس کے لان کے پودے،جلال صاحب، گلزار، ولا کے ساتھی، سب کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ کسی نے سچ ہی تو کہا ہے آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے، آتے جاتے راستے میں کہانی چھوڑ جاتا ہے۔۔۔ختم شد
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں