میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاگل پن

پاگل پن

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۰ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

دوستو،مہنگائی نے افریقی ملک یوگنڈا کے 12بیویوں سے 102بچے پیدا کرنے کے والے شہری کو بھی پریشان کر دیا، جس نے بالآخر مزید اولاد کی خواہش ترک کر دی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 67سالہ موسیٰ حسایا نامی اس شخص کے متعدد بچے جوان اور شادی شدہ ہیں۔ ان بچوں سے موسیٰ حسایا کے 568پوتے پوتیاں بھی ہیں۔مہنگائی کے ستائے موسیٰ حسایا نے اپنی بیگمات کو مانع حمل ادویات استعمال کرنے کو کہہ دیا ہے کیونکہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور اتنے سارے بچوں کے کھانے پینے کے اخراجات برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ موسیٰ حسایا یوگنڈا کے شہر لوساکا کے قریب مٹی اور گھاس پھوس سے بنے کٹیا نما روایتی گھروں میں رہتا ہے۔موسیٰ کا کہنا ہے کہ ’’میری آمدنی کم ہو گئی ہے اور مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس پر میری فیملی بھی پہلے کی نسبت کافی بڑی ہو گئی ہے۔‘‘ زیادہ شادیوں کے حوالے سے موسیٰ نے کہا کہ ’’میں نے ایک کے بعد ایک خواتین سے شادیاں کیں۔ ایک عورت کس طرح آدمی کو مطمئن کر سکتی ہے۔‘‘رپورٹ کے مطابق یوگنڈا میں متعدد بیویاں رکھنا قانونی ہے۔ موسیٰ کی تمام بیویاں اور بچے اکٹھے رہتے ہیں۔ اس کی سب سے چھوٹی بیوی زلیخا 11بچوں کی ماں ہے۔ موسیٰ کے ایک تہائی بچوں کی عمریں 6سال سے 51سال کے درمیان ہیں اور یہ سب بچے اور ان کے بچے بھی ماؤں اور باپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ موسیٰ کی سب سے چھوٹی بیوی عمر میں موسیٰ کے سب سے بڑے بچے سے 21سال چھوٹی ہے۔
اب اتنے بچے اور سینکڑوں پوتے پوتیاں، اسے پاگل پن نہیں کہیں گے تو اور کیا بولیں گے۔ ہمارے ملک میں تو نوجوانوں نے خود ہی پلاننگ شروع کردی ہے، شہروں میں نوجوان شادی کے بعد زیادہ بچے پسند نہیں کرتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاگل پن بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ۔اب خود سوچیں یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے کہ ۔۔ کروڑوں روپے کی حفاظت کے لیے بنک 15000 روپے ماہانہ تنخواہ پر گارڈ رکھتا ہے۔۔۔۔ ان پڑھ قوم کے لیے آئل ٹینکر پہ بچاؤ کی ہدایات انگریزی میں لکھتے ہیں۔۔۔ سڑک پہلے بناتے ہیں۔ پھر اسے کھود کر بجلی، گیس کی لائنیں بچھاتے ہیں۔۔۔ مسجدوں سے بجلی کے بل میں ٹی۔ وی لائیسنس کی فیس وصول کرتے ہیں۔ اور ملک کا نام ہے۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان۔۔ حادثات میں مرنے، جلنے والوں کے ورثا کو کروڑوں بانٹ دیں گے، مگر حادثات کی روک تھام، سزا جزا اور ایمرجنسی سے نمٹنے پر ٹکہ خرچ نہیں کریں گے۔۔۔ خود قرضے پہ قرضہ لیتے رہتے ہیں اور عوام کو بچت اسکیموں کی ترغیبیں دیتے ہیں کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے گھر بیٹھے دیتے ہیں۔۔عیدالفطر۔۔ عیدالاضحی۔۔ربیع الاول۔۔ گیارہویں۔۔ شادی بیاہ۔۔سب اسلامی چاند دیکھ کر مناتے ہیں اور عیسوی سال کے آغاز پر اتنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ عیسائی بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔۔مایوں،مہندی،شادی بیاہ سب میں ہندوستان کی پیروی اور بیٹی کی رخصتی پر قرآن کاسایہ کرتے ہیں۔۔ووٹ کرپٹ،چوروں ڈاکوؤں کو دیتے ہیں اور نظام حکمرانی حضرت عمر ؓکا چاہتے ہیں۔۔عوام پندرہ بیس ہزار کما کر بھی بجلی کا بل خود دے اور اشرافیہ کو 2000 یونٹ بجلی فری دی جاتی ہے۔عوام کے لیے غیر میعاری سرکاری ہسپتال اور خود کے لیے انگلینڈ اور امریکہ میں علاج لازمی ہے۔۔ہمارے ملک میں تو پاگل پن اتنے ہورہے ہیں کہ ہم بتابتا کر تھک جائیں آپ سن سن کر بور نہیں ہوں گے۔
باباجی نے ایک دن ہمیں ایک مزیدار واقعہ سنایا، جو آج ہمارے معاشرے پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے، وہ فرمانے لگے۔۔ہمارے ویٹرنری veterinary ڈپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر صاحب ہوا کرتے تھے۔۔ میرے اُن سے اچھے مراسم تھے۔۔ایک دفعہ میں ان سے ملنے ان کے دفتر گیا۔وہ مجھ سے کہنے لگے ایک مزے کا قصّہ سناؤں تمھیں؟ میں نے کہا۔۔ جی سر ضرور…!انھوں نے کہا کہ پچھلے ہفتے کی بات ہے میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے پیغام ملا کہ امریکا کی سفیر آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اُن کے کتے کو کچھ پرابلم ہے، اس کا علاج کردیجیے۔۔کچھ ہی دیر بعد وہ خاتون سفیر اپنے اعلٰی نسل کے کتے اور اپنے ضروری عملے کے ساتھ آن پہنچیں۔۔بیماری پوچھنے پر کہنے لگیں کہ میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئلہ ہے،وہ میرا نافرمان ہوگیا ہے۔اسے میں پاس بلاتی ہوں، یہ دور بھاگ جاتا ہے۔۔خدارا کچھ کریں یہ مجھے بہت عزیز ہے،اس کی بے اعتنائی مجھ سے سہی نہیں جاتی!!میں نے کتے کو غور سے دیکھا، دس منٹ جائزہ لینے کے بعد میں نے کہا۔۔ میم صاحب! یہ کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں میں اس کامعائنہ کر کے حل ڈھونڈتا ہوں۔۔ سفیر محترمہ نے بڑی بے دلی سے اسے چھوڑ جانے پر حامی بھرلی۔۔سب چلے گئے تو میں نے کمدار کو آواز لگائی اور اس سے کہا۔۔ فیضو، اس کتے کو بھینسوں کے باڑے میں باندھ دے اور ہر آدھے گھنٹے بعد چمڑے کے چار پانچ لتر مارنا اس کے بعد صرف پانی ڈالنا، جب پانی پی لے تو پھر لتر مارنا!کمدار جٹ آدمی تھا۔ ساری رات کتے کے ساتھ لتر ٹریٹمنٹ کرتا رہا!صبح کو وہ خاتون سفیر پورا عملہ لیے میرے آفس میں آدھمکیں! میں نے کمدار سے کتا لانے کو کہا، وہ کتا لے آیا۔۔جوں ہی کتا کمرے میں داخل ہو،ا چھلانگ لگا کے سفیر کی گود میں جا بیٹھا ۔۔ لگا دم ہلانے اور ان کا منہ چاٹنے لگا! ساتھ ہی کتا مُڑ مڑ تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے بھی تکتا رہا کیونکہ میں نے ہی کمدار سے اس کی رسّی چھڑائی تھی۔۔سفیر پوچھنے لگی۔۔ سر آپ نے اس کاکیا علاج کیا کہ اچانک ہی یہ ٹھیک ہو گیا؟؟میں نے جواب دیا۔۔ریشم و اطلس، ایئر کنڈیشن روم اور اعلی خوراک کھا کھا کے یہ خود کو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیاتھا، بس اس کا یہ خناس اُتارنے کے لیے اس کو کچھ سائیکولوجیکل اور فیزیکل ٹریٹمنٹ کی ضروت تھی، وہ دے دی۔۔ ناؤ ہی از اوکے!واقعہ کی دُم: اللہ بندے کو سزا کیوں دیتا ہے، مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آئی فون کے بانی اسٹییو جابز نے دل کو لگی بات کی ، وہ کہتے ہیں۔۔ننانوے فیصد لوگ ان ایک فیصد کے ملازم ہوتے ہیں جنہوں نے ہمت نہیں ہاری ہوتی ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں