موسمِ خزاں میں کتابوں کی بہاراُتر آئی ہے
شیئر کریں
یاد ش بخیر ! کہ عاشقانِ کتاب کے مطالعاتی ذوق و شوق کی تسکین اور فکری آب یاری کے لیے عروس البلاد کراچی میں16 واں ’’بین الاقوامی کتب میلہ‘‘جسے عرفِ عام میں’’ کراچی انٹرنیشنل بک فیئر‘‘بھی کہا جاتاہے ، کا ایکسپو سینٹر میںآج 30 دسمبر سے باقاعدہ آغاز ہوچکاہے اور اَب یہ 5 روزہ عالمی کتاب میلہ 3 جنوری 2022 تک صبح 10 بجے سے رات9 بجے تک بلاکسی وقفہ کے جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ شہرِ کراچی میں بین الاقوامی کتب میلہ کا اوّلین انعقاد’’ پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوی ایشن‘‘ نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اشتراک و تعاون سے2005 میں کیا تھا ،تب سے لے کر اَب تک کم و بیش ہر برس ہی یہ عالمی کتاب میلہ کامیابی کے ساتھ کراچی میں منعقد ہوتا آ رہا ہے ، سوائے ایک سال 2020 کے ، جب کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے سبب پہلی بار کراچی میں انٹرنیشنل بک فیئرکا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا تھا ۔کیونکہ اُس وقت ملک میں درپیش غیر معمولی و ہنگامی صورت حال کے باعث کووڈ 19 کے مریضوں کی نگہ داشت کے لیئے ایکسپوسینٹر کراچی ،کو شہر کے سب سے بڑے فیلڈ ہسپتال اور بعد ازاں ویکسی نیشن سینٹر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ لیکن جیسے ہی ملک بھر میں کورونا وائرس کی صورت حال میں بہتری آئی تو منتظمین نے اپنی کتاب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے گزشتہ برس سب سے پہلے کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کا انعقاد کرکے ہی ا یکسپو سینٹر ،کراچی کے دروازے دیگر تقریبات اور نمائشوں کے لیئے وا کیے تھے۔
کراچی انٹرنیشنل بک فیئرکو اِس لحاظ سے حقیقی معنوں میں ایک عالمی کتب میلہ قرار دیا جاسکتاہے کہ اس میں پاکستان کے تقریباً ڈھائی سو سے زائد پبلشرز اور بک سیلرز کے علاوہ کم و بیش ،دو درجن کے قریب دیگر ممالک کے پچاس سے زائد پبلشرز بھی شریک ہیں ، جن میں امریکا، برطانیہ ، چین ، ملائشیا، ترکی ، سنگاپور ، جرمنی اور نیوزی لینڈ وغیرہ کے معروف اشاعتی ادارے اور تنظیمات سرفہرست ہیں ۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ آج سے اگلے پانچ روز تک کراچی ایکسپو سینٹر میں ایک چھت تلے دنیا کی ہرزبان اور ہرموضوع پر ذخیرہ کتب متلاشیانِ علم کے ملاحظہ اور استفادہ کے لیے دستیاب رہے گا، بطور خاص قرآن کریم کے متبرک نسخے، اس کے تراجم، تفاسیر، احادیثِ رسول مقبولﷺ ، سیرت النبیﷺ اور دینی موضوعات پر چھپنے والی بے شمار کتابوں کے علاوہ ملکی و غیر ملکی ادب، قدیم و جدید تاریخ،نظم و نثر، سیاسیات، نقد و نظر ، سائنس، کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور معیشت جیسے متنوع عنوانات کے ساتھ ساتھ طلبا و طالبات کی نصابی ضروریات سے مطابقت رکھنے والی درسی کتب بھی مذکورہ عالمی کتاب میلہ میں انتہائی ارزاں اور رعایتی نرخوں پر فروخت کے لیے موجود رہیں گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس بار کراچی میں سخت سردی ، نیا سال اور انٹرنیشنل بک فیئر تقریباً ساتھ ساتھ ہی وارد ہوئے ہیں ۔یعنی علم و ادب کے شیدائی اور کتب بینی کے شناور خواتین و حضرات کے لیے نئے سال کی پہلوٹھی کی تعطیلات میں عالمی کتب میلہ سے اپنی من پسند کتاب خرید نا اور بعد ازاں اُسے شب کی یخ بستہ تنہائی میں گرم لحاف میں دبک کر پڑھنا، یقینا ایک ایسا پرکیف اور سرور آگیں تجربہ ثابت ہوگا، جس کا منفرد ذائقہ جس خوش نصیب قاری نے بھی ایک دفعہ چکھ لیا ، شرطیہ اُسے یہ’’ لذتِ حرف و کتاب‘‘ مدتوں یادآتی رہے گی۔ ویسے تو مطالعہ کرنے کے لیے کوئی خاص مہینہ، دن ،یا ساعت ضروری نہیں ہوتی اور کوئی بھی کتاب کبھی بھی پڑھی جاسکتی ہے لیکن پھر بھی اچھا نثری ادب اوررومانوی شاعری کے مطالعہ کی لت میں مبتلا افراد کے نزدیک سرد موسم میںاپنی من پسند مصنف کی کتاب پڑھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں علمی و ادبی کتب کی اشاعت اور خریداری کے لیے موسم سرماکو ’’Book Season ‘‘ یا ’’Reading Season ‘‘ کے دل کش ناموں سے پکارا جاتاہے۔ اس مناسبت سے ہم کراچی میں سجنے والے کتابوں کے عالمی مینا بازار کو مطالعہ کے شائق افراد کے لیئے ایک بڑی ذہنی و فکری عیاشی سے بھی تعبیر سکتے ہیں ۔
اگرچہ کراچی انٹرنیشنل بک فیئر اپنی ابتدا سے ہی خوب سے خوب تر ،کی ہر منزل کامیابی کے ساتھ طے کرتا آیاہے لیکن اِس مرتبہ عالمی کتاب میلہ میں معیاری اور سستی کتابوں کی خریداری کی نیت سے آنے والے شرکاء کے لیے ایک بہت ہی خاص سرپرائز بھی موجود ہے اور اُس تحفہ خاص کا نام ’’بک کارنر ،جہلم ‘‘ ہے ۔ جی ہاں! جیسے ہر تقریب کا کوئی نہ کوئی صدرِ مجلس یا مہمانِ خصوصی ضرور ہوتا ہے یا جو اہمیت و حیثیت اکثر بیشتر کسی بزمِ ذی وقار میں شمع محفل کو حاصل ہو جاتی ہے ،عین اُسی مصداق حالیہ 16 ویں’’ کراچی انٹرنیشنل بک فیئر‘‘ کا روحِ رواں ، جانِ محفل اورمرکز نگاہ کہلائے جانے کا اصل حق دار ’’بک کارنر ،جہلم ‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا اشاعتی ادار ہ ہوہی نہیں سکتا۔ اگر آپ کو ہمارے اِس عاجزانہ دعوے کی حقانیت پر رتی برابر بھی شک و شبہ ہوتو ابھی ایکسپوسینٹر کراچی کے ہال نمبر 2 میں قائم ’’بک کارنر ،جہلم ‘‘ کے اسٹال پر پہنچ جائیں ۔اگر آپ بھی ہماری طرح ’’بک کارنر ،جہلم ‘‘ کی شائع کردہ خوب صورت اور خوب سیرت کتب کے دل کش حسن ِ بلاخیز کے افسوں کے اسیر نہ ہوئے تو پھر کہیے گا۔
بالعموم پڑھنے والوں کی نگاہ میں کتابیں تو سب ہی اچھی اور قابلِ مطالعہ ہوتی ہیں لیکن اپنے موضوع ،نفسِ مضمون اور مواد کی گہرائی اور گیرائی کے لحاظ سے کتابوں کے باآسانی مختلف درجات مقرر کیے جا سکتے ہیں ۔جبکہ کسی بھی کتاب کا طباعتی حسن و جاذبیت بھی ایک ایسی خاصے کی چیز ہے، جس کی اہمیت و افادیت سے کوئی کوڑھ مغز ہی انکار ی ہو گا۔یوں جان لیجئے کہ جب ایک پبلشرز’’ حسن ظاہری‘‘ اور’’ حسن باطنی ‘‘کی احسن تقویم کو بروئے کار لا کر خوب صورت اور خوب سیرت کتاب چھاپنے میں کامیاب ہوجاتاہے تو پھر قاری کے دل میں کتاب اور صاحبِ کتاب ہی نہیں بلکہ پبلشرز کا نام بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہوجاتاہے ۔ دراصل’’بک کارنر ،جہلم ‘‘کے بانی شاہد حمید مرحوم کواپنے ہم عصر دیگر پبلشرز کے مقابلے میں یہ ہی بنیادی امتیاز اور وصف تو حاصل تھا کہ باقی سب کتابیں چھاپتے تھے ،مگر یہ دیوانہ، کتاب کو اپنی محبت میں گوندھ کر چھاپتاتھا۔ اگر یہ امرِ واقعہ نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ جہلم جیسے چھوٹے سے دور افتادہ شہر میں کتابیں شائع کرنے والا ایک چھوٹا سا غیر معروف اشاعتی ادارہ چند برسوں میں دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے صفِ اوّل کے گنتی کے دو ،چار اشاعتی اداروں کے’’پبلشرز کلب ‘‘میں شمولیت اختیار کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے پبلشنگ ہاؤس کی بہت اچھی اور معیاری انداز میں چھپنے والی کتاب بھی جب بارِ دگر ’’بک کارنر ہاؤس، جہلم ‘‘ سے شائع ہوکر نکلتی ہے تو اس کتاب پر آنے والا بانک پن اور جوانی علمی ادبی حلقوں میںضرب المثل بن کر زبان زدِ عام ہوجاتی ہے اور یہ رائے بھی ہم جیسے کسی ادنیٰ سے طالب علم کی نہیں، بلکہ اُن بے شمار صاحب الرائے مصنفین ، شاعروں اور لکھاریوں کی ہے ،جنہیں کتاب کی جانچ اور پرکھ میں یدطولیٰ حاصل ہے۔
ہوسکتاہے کہ بعض قارئین زیر نظر کالم میں ’’بک کارنر،جہلم ‘‘ کے متعلق لکھی جانے والی تعریف و توصیف پر مبنی چند الفاظ کو بھی بلاوجہ ہی غیر معمولی قرار دے دیں ۔ ایسے تمام افراد کی خدمت میں پیشگی وضاحت ہے کہ غیر معمولی کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگ پورا پوراحق رکھتے ہیں کہ اُن کی ستائش بھی غیر معمولی انداز میں اورقلم کے تمام دہانے کھول کر کی جائے ۔ ویسے بھی جب سعود عثمانی جیسا کامیاب پبلشراور قادرلکلام شاعر بھی ’’کاغذ کی یہ مہک ، یہ نشہ روٹھنے کو ہے ۔۔۔یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‘‘ جیسا شکایتی شعرکہنے پر مجبور ہوجائے تو’’کتاب بے زاری‘‘ کے ایسے عہد ِپر آشوب میں اگر ’’ بک کارنر، جہلم ‘‘ طباعتی صنعت کو جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ہر طبقہ خاص و عام کو کتاب خریدنے کی طرف رغبت دلارہا ہے تو اس کارِ خیر کو مزید سہل بنانے کے لیئے ،کیا سب لکھنے والوں پر واجب نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تحریروں میں امر شاہد اور گگن شاہدکے اشاعتی کارناموں کی جانب اپنے پڑھنے والوں کو متوجہ کریں؟۔
واضح رہے کہ صرف گزشتہ دو برس کے دوران اِن دونوں بھائیوں نے ’’بک کارنر، جہلم ‘‘ کی اشاعتی زنبیل سے ایسی ایسی نادر و نایاب ، دلچسپ اور معیاری کتابیںحسن و تہذیب کے اوراق سے آراستہ کرکے برآمد کی ہیں کہ انہیں پڑھنے والے کو تو خیر ذہنی آسودگی کا سرمدی احساس ہوتاہی ہے ،جبکہ اِن کتب کی فقط زیارت کا شرف حاصل کرنے والے بھی حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔ ’’بک کارنر ،جہلم ‘‘ کی شائع کردہ 678 کتب میں سے بطور خاص عالمی نثری ادب کے خوانِ نعمت سے دستوئفیسکی کا ناول ’’کرامازوف برادران ‘‘اور انتون چیخوف کی ’’چھوٹی بڑی کہانیاں ‘‘۔نیز بالزاک کے دو ناول ’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘ اور ’’سنہری آنکھوں والی لڑکی ‘‘جن کے مترجم معروف صحافی رؤف کلاسرہ ہیں ۔ جبکہ ایملی برانٹے کا شاہکار ’’ود رنگ ہائٹس ‘‘اور ٹالسٹائی کا ناول ’’حاجی مراد ‘‘جہاں یاد گار مطبوعات کہی جاسکتی ہیں تو وہیں شمس الرحمن فاروقی کا معجزہ قلم ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ ، اسامہ صدیق کا منفرد تخلیقی تجربہ ’’چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ‘‘یا پھر علی اکبر ناطق کے ناول’’ نولکھی کوٹھی ،‘‘ فقیر بستی میں تھا‘‘ اور ا ُن کے افسانوی مجموعے ’’شاہ محمد کا ٹانگہ ‘‘اور ’’قائم دین ‘‘جیسے کتابیںبھی چیز دیگرے است کی فہرست میں شمار کے قابل ہیں ۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ ’’انسانی تہذیب کے معمار ، دنیا کی سو عظیم کتابیں ، میرا داغستان ، منطق الظیر کا نیا تسہیل شدہ ایڈیشن ، علاوہ ازیں ہماری صحافتی اقلیم کے مؤثر ترین قلم کار ،محمد عامر خاکوانی کی کتاب ’’زنگار ‘‘۔خالد مسعود خان کے کالموں کا مجموعہ ’’زمستاں کی بارش ‘‘،نئے نثری اسلوب کا پیش کش کار حسنین جمال کی کتاب ’’ڈاڑھی والا‘‘اور سب سے بڑھ کر شکیل عادل زادہ کا نگارخانہ یعنی اِدھر اُدھر سے ،دنیا بھرسے ’’سب رنگ ‘‘کے اشاعتی سلسلے کی کم ازکم چار کتابیں بھی اگر آپ نے ’’کراچی انٹرنیشنل بک فیئر ‘‘ سے نہ خریدیں تو سمجھ لیجئے گا کہ یہ عالمی کتب میلہ دوسروں نے لوٹ لیا ہے اور آپ لب دریا آکر بھی پیاسے ہی رہے ۔
کام آئیں گی تجربے کے لیے
آؤ اور کتاب لے جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔