سفر یاد۔۔۔ قسط34
شیئر کریں
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل کر دیکھتے ہیں کل آپ لوگ جس طرف گئے تھے آج اس سڑک کی دوسری طرف چلے جاتے ہیں، باہر نکلیں گے تو علاقے کا حدود اربع معلوم ہوگا۔ ہم تینوں ولا سے نکلے اور سڑک پر مٹر گشت کرنے لگے، موسم گرم تھا لیکن ہم تینوں خوش گپیوں میں لگے چلے جا رہے تھے۔ کچھ دور جا کر ایک بقالے والے سے ہم نے کیفے ٹیریا کا پوچھا۔ اس نے قریب واقع ایک کیفے ٹیریا کا پتہ سمجھایا اور ہم تینوں وہاں پہنچ گئے۔ کیفے ٹیریا سے وہی ٹی بیگ والی چائے ملی، ہم نے اور علی نے چسکیاں لینا شروع کردیں لیکن منیب بھائی پھیل گئے کہ وہ یہ چائے نہیں پئیں گے۔ ہم نے کہا منیب یہ پردیس کا پہلا جھٹکا ہے ،ابھی تو ایسے ایسے کئی جھٹکے لگیں گے یہاں۔ کیفے ٹیریا میں کچھ دیر بیٹھ کر ہم لوگ باہر نکلے تو علی اور منیب کا واپس ولا جانے کا موڈ تھا لیکن ہم نے کہا رات کا کھانا بھی کھانا ہے اس لیے کوئی پاکستانی ہوٹل تلاش کرتے ہیں۔ منیب نے کہا رات کے کھانے کی فکر نہ کریں میری امی نے کافی سارے کباب فریز کر کے دیے ہیں جو میں نے ولا کے کچن میں موجود فرج میں رکھ دیے ہیں، رات کو کباب کھائیں گے بس کہیں سے روٹی لے لیں۔ ہم نے کہا روٹی تو بقالے سے بھی مل جائے گی بس وہ ٹھنڈی ہوگی۔ ہم تینوں اسی طرح گپ شپ کرتے ولا کے کمرے میں لوٹ آئے۔ یہاں باقی دو پاکستانی بھی انٹرویو دیکر واپس آ چکے تھے۔ اصغر اور واجد بھی علی اور منیب کے ساتھ اس کمپنی میں نوکری کے لیے سعودی عرب آئے تھے، اصغر کا تعلق لاہور سے تھا جبکہ واجد گوجرانوالہ سے آیاتھا۔ دونوں تھکے ہوئے لگ رہے تھے ۔سلام دعا کے بعد انہوں نے بتایا کہ ان کا دو سائٹوں پر انٹرویو ہوا ہے۔ کل یا پرسوں پتہ چل جائے گا کہ کس سائٹ پر کام کے لیے جانا ہوگا۔ ہم نے کہا اچھے کی امید رکھیں ،خدا نے چاہا تو وہی ہوگا جو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ کچھ دیر بعد منیب کچن میں چلا گیا ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کچن میں پہنچ گئے، منیب نے فریزر سے کبابوں کا پیکٹ نکالا اور اس میں سے گن کر پانچ کباب الگ کر لیے اور پیکٹ واپس فریزر میں رکھ دیا۔ یعنی اس نے فی فرد ایک کباب نکالا تھا، اتنی دیرمیں ہم نے چولہے پر توا رکھ کر گرم کر لیا تھا، ہم نے منیب سے پوچھا کوکنگ آئل کہاں رکھا ہے، منیب بولا وہ تو لانا پڑے گا، ہم نے کہا ہم بقالے سے لے آتے ہیں ہم پیسے لینے کمرے میں پہنچے تو اصغر اورعلی باہر جانے کے لیے نکل رہے تھے ،ہم نے پوچھا کہاں کی تیاری ہے؟ علی نے کہا روٹیاں لینے جا رہے ہیں، ہم نے کہا کوکنگ آئل بھی لانا ہے ہم بھی چلتے ہیں، اصغر نے کہا آپ یہیں رکیں ہم کوکنگ آئل بھی لے آئیں گے۔
ہم واپس کچن میں چلے گئے، منیب ایک پلیٹ میں کباب لیے بیٹھا تھا، توا گرم ہو چکا تھا ہم نے سوچا علی اور اصغر کو تو آنے میں وقت لگے گا اس لیے کچن میں موجود ایک ملباری سے کوکنگ آئل مانگ لیا اور کباب تلنے شروع کردیے، منیب کی اماں نے بڑی محبت اور محنت سے بیٹے کے لیے کباب بنائے تھے، کچن کبابوں کی خوشبو سے مہکنے لگا۔ کبابوں کی خوشبو نے ملباری بھائی کو بھی کچن میں رکنے پر مجبور کردیا تھا۔ ہم نے کوکنگ آئل بھی ملباری بھائی سے لیا تھا اس لیے ان کی کباب کے لیے چاہت اور زیادہ ہو گئی تھی۔ ہم ایک ایک کر کے کباب تل رہے تھے ،ہم نے کبابوں کی تعریف شروع کی تو منیب کو اماں کی یاد آگئی۔ اس کی شکل رونے والی بن گئی۔ ہمارے لیے مشکل صورتحال بن گئی تھی منیب کو دلاسا دیں یا کباب کو جلنے سے بچائیں، ہم نے کباب کو بچانے کا فیصلہ کیا اور منیب سے کہا وہ کمرے میں چلا جائے۔ منیب تو کمرے میں چلا گیا لیکن ملباری بھائی ہمارے سر پر سوار رہے ان کا ارادہ کم از کم ایک کباب لیکر ہی ٹلنے کا تھا۔ ہمارے پانچوں کباب تلے جا چکے تھے ہم ملباری بھائی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ ہم چاہتے ہوئے بھی انہیں ایک کباب نہیں دے سکتے تھے، دیتے تو کس کے حصے کا کباب دیتے۔ ملباری بھائی ہمارے انداز سے بھانپ گئے کہ ہم کباب دینے والے نہیں ،اس لیے انہوں نے کبابوں کی تعریف شروع کردی اور جب ہم کچن سے نکلنے لگے تو انہوں نے ایک کباب مانگ ہی لیا۔ ہم نے کچھ سوچا پھر اپنے حصے کا کباب ملباری بھائی کو پیش کردیا، جو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے کھا لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرے کباب کا تقاضہ کرتے ہم چار کباب لیکر کچن سے اپنے کمرے کی جانب لپکے۔ علی اور اصغر بھی اسی وقت واپس لوٹے۔ ہم سب فورا ہی کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ ہم نے منیب کو ایک کباب ملباری کو دینے کا بتایا، منیب کا منہ بن گیا۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭