میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدالتیں مہربان، نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری

عدالتیں مہربان، نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کردیا، احتساب عدالت نے نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی تھی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ان میں اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز اور دیگر موجود تھے۔ نیب پراسکیوشن ٹیم بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا ا?غاز کیا اور کہا کہ نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اپیل منظور کر کے بری کیا گیا، شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے اس پر ہماری معاونت کریں۔دوران سماعت نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل کی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کے لیے اپیل کی۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے کب یہ جائیدادیں خریدیں ؟ اس پر وکیل نے کہا کہ ریفرنس میں نہ تاریخ موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے، ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں اور اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔وکیل نے کہا کہ 1993ئ￿ سے 1996ئ￿ کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں، ریفرنس میں کہیں نہیں لکھا گیا کہ یہ جائیدادیں کس تاریخ کو بھیجی گئیں، پاناما فیصلہ، جے آئی ٹی رپورٹ، نیب انویسٹی گیشن رپورٹ، ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت ہو، واجد ضیا نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں، فرد جرم عائد کرنے میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب کو یہ ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے پراپرٹیز کی خریداری کے لیے ادائیگی کی، یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ پراپرٹی ان کے یا بے نامی دار کے زیر ملکیت ہے، کورٹ نے مفروضے پر سزا دی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی، عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نواز شریف کے زیر کفالت بھی تھیں۔وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کے ایک ملزم انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ امتیاز کو بری کیا، اس بنیاد پر بریت ہوئی کہ نیب نے ملزم کی مبینہ جائیدادوں کی قیمت اور ملزم کی آمدن کا تعین کیے بغیر ہی اْس پر ریفرنس دائر کر دیا تھا، سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کوئی بھی متضاد فیصلہ نہیں دیا، مریم نواز کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ان عدالتی فیصلوں اور اصولوں کی توثیق کی ہے۔بعدازاں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مریم نواز کی ہائی کورٹ سے بریت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مریم نواز کو بری کیا تھا، عدالت نے لکھا پراسیکیوشن کے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک ڈاکیومنٹ موجود نہیں۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کیے گئے تھے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہاکہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی؟ ہم سمجھ رہے ہیں ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی، ریفرنس دائر ہوگیا سزا بھی ہوگئی۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز کی بریت کے فیصلے کے خلاف نیب نے اس وقت اپیل نہیں کی تھی، اب وہ فیصلہ حتمی ہے اس پر ہم دلائل نہیں دے سکتے تو عدالت نے کہا کہ پھر اس کو منظور کرلیں؟دریں اثنا فلیگ شپ ریفرنس میں اہم پیش رفت سامنے ا?ئی ہے، نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی، عدالت نے اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا تھا جس کے خلاف نیب نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔بعدازاں اسلام ا?باد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی دئی گئی سزا کالعدم قرار دے دی اور انہیں مقدمے سے بری کردیا، نواز شریف کو نیب کورٹ نے دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔فیصلہ سننے کے بعد نواز شریف نے کہا کہ معاملات کو اللہ پر چھوڑ رکھا ہے۔ اللہ نے سرخرو کیا۔ جس پر مالک کا بڑا شکر ہے۔ العزیزیہ ریفرنس کا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں