میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اب کس کی باری ہے ؟

اب کس کی باری ہے ؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالم عرب میں مردآہن کہلانے والے جمال عبدالناصرکے بارے میں حال ہی میں منظرعام پر آنے والی برطانوی مصنف جیمزبارکی تازہ ترین کتاب ”دی لارڈز آف ڈیزرٹ ‘ ‘ میں انکشاف کیاگیاہے کہ مصر میں 1952ء کا فوجی انقلاب امریکاکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اُکسانے اوراس کے عملی تعاون سے برپاہواتھا۔فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن وائس آف عرب کاقیام بھی سی آئی اے کی مدد سے ممکن ہوااورلیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نے اپنے ساتھیوں کی ملی بھگت سے شاہ فاروق کاتختہ الٹ دیا۔کتاب کے مصنف جیمز بارنے اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مصرمیں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکااوربرطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنااپنااثرو رسوخ بڑھانے کی کشمکش تھا۔برطانیہ مصری بادشاہ شاہ فاروق کی حمایت کررہاتھاجبکہ سی آئی اے اپنے مجوزہ پروگرام کی تکمیل میں اسے رکاوٹ سمجھتے تھے ۔
اس انقلاب کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مصری فوج کے اندر 1948ء میں اسرائیل کے ہاتھوں غیرمتوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی اورمصری عوام بھی اپنی اس شکست پراس قدرجذباتی تھے کہ انہوں نے اس فوجی انقلاب کونہ صرف قبول کرلیابلکہ ناصرکواپنا ہیرو مانتے ہوئے دیوانگی کی حدتک اس کے ہرعمل کی نہ صرف تائیدکی بلکہ اس کے تمام ناجائز اقدامات کوبسروچشم قبول بھی کرلیا۔ سی آئی اے کو اپنے دوررس پروگرام کے مطابق آئندہ اس خطے میں اسرائیل جیسے ناسورکے ذریعے اپنااثرورسوخ قائم رکھنامقصودتھاجس میں امریکا آج تک تمام عرب ممالک پراپنی اجارہ داری رکھنے میں کامیاب نظرآتاہے ،اس لیے کرنل ناصر اوراس کے ساتھیوں کی مددکرکے شاہ فاروق کاتختہ الٹنے میں تاخیر نہیں کی۔
برطانوی مصنف جیمزبارنے برطانوی دفترخارجہ کی دستاویزات اوردیگر تاریخی دستاویزات کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اورامریکاکے درمیان مسابقت اور تعاون پربڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ ثابت کیاہے کہ فوجی کاروائی سے دو دن قبل کرنل ناصر نے برطانیہ اورامریکا کوفوج کی طرف سے ٹیک اوورکرنے کے منصوبے کے بارے میں باقاعدہ اعتماد میں لیاتھا۔اگرچہ انقلاب کی تمام تر منصوبہ بندی جمال عبدالناصرنے سی آئی اے کی مددسے مکمل کی تھی جس میں طے کیاگیاکہ جنرل نجیب عہدے کے لحاظ سے سب سے سینئر، فوج میں اچھی شہرت ،اپنے تجربے اورپروفیشنل کی بناء پربہت مقبول ہیں،ان کوعارضی طورپر انقلاب کا سربراہ بنا دیا گیا کیونکہ عبدالناصرکے فوج میں جونیئر رینک افسر ہونے کی وجہ سے فوج میں بغاوت ہونے کابھی خدشہ تھا۔پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت کچھ ہی عرصے بعد جنرل نجیب کوہٹاکرکرنل ناصر نے 1956ء میں باقاعدہ مصر کے صدرکاعہدہ سنبھال لیا۔
اپنے مجوزہ منصوبہ بندی کے تحت سی آئی اے نے اس خطے میں جمال عبدالناصرکوہیروبنانے کیلئے ایک اورچال چلی اوراسی سال (1956) جب جمال عبدالناصر نے نہرسوئزکو قومی ملکیت میں لینے کااعلان کیاتوبرطانیہ اورفرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کرنہرپرقبضہ کرنے کیلئے مصر سے جنگ شروع کردی لیکن اس وقت کے امریکی صدرآئزن ہاؤرنے فرانس، برطانیہ اوراسرائیل کوبزورطاقت دھمکی دیتے ہوئے پیچھے ہٹنے پرمجبورکردیا۔ اس پسپائی پربرطانیہ کوفوجی، سیاسی اورسفارتی محاذپرانتہائی خفت کاسامناکرناپڑااوراس واقعہ کے بعدمشرق وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ کم ہوتاچلا گیااورپوراخطہ امریکی حلقۂ اثرمیں آگیا۔اس سارے ڈرامے میں امریکاکی آشیر واد پر اسرائیل نے بڑی مکاری کے ساتھ برطانیہ اورفرانس کاساتھ دینے کامحض کردارادا کیاجبکہ امریکاکے پیش نظرتومشرقی وسطیٰ پراپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اورمشرقی وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اوراجارہ داری تھی جس میں وہ آج تک کامیاب نظرآتاہے ۔
امریکی مدد سے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتناطاقتوربنادیاگیاکہ1967ء کی جنگ میں مصر،شام اوراردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کوچھ دنوں کے اندر اسرائیلی فوج نے شکست دے کربیت المقدس،غزہ اورباقی ماندہ فلسطین،اردن کے مغربی کنارے ،گولان کی پہاڑیوں اورمصر کے جزیرہ نماسینائی پرقبضہ کرلیا۔نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعدبھی اسرائیل کاان علاقوں پر(سوائے مصر کے جزیرہ نماسینائی) قبضہ برقرارہے ۔
فوج کے ذریعے حکومتوں کوگرانے اورتبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصرتک محدودنہیں رہیں۔مصرمیں فوج کے ذریعے حکومت کاتختہ الٹنے کاجوسلسلہ 1952ء میں شروع ہواتھا،وہ1953ء میں ایران میں ڈاکٹرمحمد مصدق کی حکومت کوختم کرکے آگے بڑھایاگیااوراس کے دس سال بعد صدام حسین نے عراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپاکرکے اقتدارپرقبضہ کر لیا۔ 2003ء میں صدام کواقتدار سے ہٹانے کیلئے امریکااوربرطانیہ نے عراق پربراہ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ان واقعات کے بعدمیری نظرپاک وہندکے مابین ہونے والی محدود جنگ کارگل پر جاکررک جاتی ہے کہ کیاکارگل کی جیتی ہوئی جنگ کوشکست میں تبدیل کرکے مشرف کواقتدارمیں لانے اوربعدازاں نائن الیون واقعے میں مشرف کی امریکاکی غیرمشروط حمایت کی بناء پر اس خطے میں امریکاکے تسلط کودوام دینے کی کوئی سازش تونہیں تھی؟
تاریخ پرنگاہ ڈالیں تو اس طرح حکومتوں کوگرانے اورتختہ الٹنے کاجو سلسلہ1952ء میں مصر سے شروع ہواتھا،وہ آج بھی مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے لیکن میرے رب کااپناپروگرام ہے کہ اس صدی میں سب سے بڑی جارحیت کے باوجود افغانستان میں ایک بڑی رسوائی کاداغ اس کامقدربنادیا جواپنے تکبرمیں اپنے سرپرسپرپاور کاتاج سجائے بیٹھا ہے لیکن سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ کہ جن طالع آزماؤں نے اقتدار میں آنے کیلئے سی آئی اے کے منصوبے پرعمل کیا،اسی نے ان کوشکست سے دوچار اور ان کے ممالک کوتباہ کرکے اقتدارسے الگ کیا۔ ناصر،صدام اورمشرف اس کی عبرتناک مثال ہیں۔
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا
ہرایک چھوڑکے کیاکیاحسرت سدھارا
پڑارہ گیاسب یہیں ٹھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں