چین نے 2021 میں شرقِ اوسط میں کردار بڑھا دیا، پینٹاگون
شیئر کریں
امریکا کے محکمہ دفاع (پینٹاگان) نے جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اور اس کی فوج نے گزشتہ سال کے دوران میں مشرقِ اوسط کے ممالک کے ساتھ رابطے کی کوششوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔مشرق اوسط کے تعلق سے پینٹاگان نے دو اہم تبدیلیوں پرروشنی ڈالی ہے جو چین نے 2021 میں کی تھیں۔ وہ یہ کہ وہ بیلٹ روڈ اقدام کے بارے میں کس طرح آگے بڑھا ہے۔ مشرقِ اوسط کے ممالک میں صحت عامہ، ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر اور سبز توانائی کے مواقع کو ترجیح دینے کے لیے چین نے خاص طور پر عراق اور دوسرے ممالک کے ساتھ روابط کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ بیجنگ نے اپنے ہیلتھ سلک روڈ (صحت شاہراہ ریشم) اور ڈیجیٹل سلک روڈ (ڈیجٹل شاہراہ ریشم) اقدامات کااضافہ کرتے ہوئے شریک ممالک کو کووِڈ 19 کی ویکسینیں، ذاتی تحفظ کا سامان (پی پی ای) اور وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے طبی امداد مہیا کی۔ اس سے چین کو اپنی طبی مصنوعات کا بین الاقوامی مارکیٹ میں شیئربڑھانے، عالمی صحت عامہ کے رہنما کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے اپنی بولی کومضبوط بنانے اور بیلٹ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے نئے منصوبوں کی ضرورت کی نشان دہی کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ پینٹاگان کے مطابق ڈیجیٹل سلک روڈ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے چین اپنی ٹیکنالوجی دوسرے ممالک تک پہنچاتا ہے، جس سے وہ اپنی ٹیکنالوجی کے معیارات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ اگلی نسل کی ٹیکنالوجی کے لیے بھی عالمی معیار قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ طریقوں میں 5 جی نیٹ ورکس، زیر سمندر کیبلز اور ڈیٹا سینٹرز میں چینی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اس میں سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم ، مصنوعی ذہانت اور گھریلو استعمال اور برآمد کے لیے کوانٹم کمپیوٹنگ بھی شامل ہے۔ پینٹاگان نے کہا کہ جیسا کہ بیجنگ کے اقتصادی مفادات براعظم افریقا، لاطینی امریکا، وسط ایشیا اور مشرق اوسط جیسے خطوں میں پھیل رہے ہیں، ہم عالمی سطح پر پاورپروجیکشن آپریشنز کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی توقع کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چین دنیا میں اسلحہ مہیا کرنے والاپانچواں بڑا ملک ہے۔ وہ سعودی عرب، سربیا، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قزاقستان، عراق اور پاکستان کو ڈرونز، آبدوزیں، بحری جہاز، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم اور لڑاکا طیاروں سمیت روایتی ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ چین اپنے بیرون ملک لاجسٹکس اوراڈوں کے انفراسٹرکچرکو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ فوج کو زیادہ سے زیادہ فاصلے پراپنی طاقت کو بروئے کارلانے اور برقرار رکھنے کی اجازت دے سکے۔ اس رپورٹ میں خبردارکیا گیا کہ چین کا عالمی فوجی لاجسٹک نیٹ ورک امریکی فوجی کارروائیوں میں خلل انداز ہو سکتا ہے کیونکہ بیجنگ کے عالمی فوجی مقاصد واہداف بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ چینی فوج کا جیبوتی میں پہلے ہی ایک سپورٹ بیس ہے اور وہ مشرق اوسط اور شمالی افریقا میں اضافی تنصیبات کی تعمیرپرغور اورمنصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ان کے علاوہ جن ممالک پر غور کیا جا رہا ہے ان میں متحدہ عرب امارات، پاکستان، کینیا، سیشلز اوردیگر ممالک شامل ہیں۔ پینٹاگان کا کہنا ہے کہ چین اپنے توانائی کے ذرائع اور مہیا کنندگان کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن افریقا اورمشرقِ اوسط سے درآمد کردہ تیل اور قدرتی گیس کی بھاری مقدار کے باوجود کم سے کم اگلے 15 برس تک تزویراتی سمندری راستوں کو محفوظ بنانا بیجنگ کی ترجیح ہوگی۔ محکمہ دفاع نے اس رپورٹ میں یہ بھی پیشین گوئی کی ہے کہ 2035 تک چین کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد تین گنا سے بڑھ جائے گی اور یہ تعداد 1500 تک ہو جائے گی۔ پینٹاگان نے بیجنگ کوامریکا کے لیے سب سے بڑا اوراہم چیلنج قرار دیا ہے اور چین کی فوج سے متعلق سالانہ رپورٹ میں اس کی جوہری اور روایتی افواج دونوں میں بہتری اور ترقی کی نشان دہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ چین کے آپریشنل جوہری ہتھیاروں کے ذخائر400 سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اگرچین نے اپنی جوہری توسیع کی یہی رفتار برقرار رکھی تو ، وہ ممکنہ طور پر 2035 تک قریبا 1500 وار ہیڈز کا ذخیرہ تیارکرلے گا۔ تاہم اس کے باوجود یہ تعداد امریکا اور روس کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں بہت کم ہوگی کیونکہ ان دونوں ممالک میں سے ہرایک کے پاس اس وقت کئی ہزار جوہری ہتھیار ہیں۔