انصاف اور قانون
شیئر کریں
قائد اعظم محمد علی جناح قانون کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ گئے تو اُس وقت وہاں کی چار درسگا ہوں میں قانون کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ آپ اپنے گائیڈ کے ساتھ جب لنکنز اِن میں آئے تو فیصلہ کرلیا کہ وہ یہیںداخلہ لیں گے ۔ اُس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اُس کے دروازے پر دُنیا کے مشہور قانون دانوں کے نام تھے ، جن میں سب سے اوپر حضرت محمد ﷺ کا نام درج تھا ۔ آپ وہاں جس عورت کے مکان میں کرائے پر رہتے تھے اُس کی بیٹی نے ایک دن ایک نجی محفل میں نوجوان محمد علی جناح کے ساتھ ڈانس کی فرمائش کی ۔ آپ نے معذرت کرلی اور کہا کہ ہمارے مذہب میں غیر محرم کے ہاتھ میں ہاتھ دینا جائز نہیں ہے ۔ ہمارے مذہب نے ہمارے لیے جو قوانین مقرر کیے ہیں ہم ان کی حدود میں رہنے کے پابند ہیں اور اگر قائد کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اول تا آخر ایک انصاف پسند اور قانون پر نہایت سختی سے عمل کرنے والی شخصیت سامنے آتی ہے اور اسی قانون و انصاف کے فلسفے پر انہوں نے ریاست پاکستان کی بنیاد رکھی کیوں کہ دُنیا میں دو ہی ریاستیں مذہب کے نام پر وجود میں آئی ہیں ۔ ایک ریاست پاکستا ن اور دوسری اسرائیل ۔
لہذا جن لوگوں کا خیال ہے کہ قائدِ اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے وہ غلط ہیں ۔ ریاستِ پاکستان کی بنیادکلمہ طیبہ پر ہے ۔ اسی طرح ار سطو نے کسی بھی ریاست کے چار بنیادی ستون قرار دیے ہیں یعنی مقننہ ، انتظامیہ، حکومت اور عدلیہ لیکن موجودہ دور میں صحافت کو ریاست کا چو تھا ستون کہا جاتا ہے یعنی اگر یہ چاروں ستون درست سمت میں ہوں تو وہ کامیاب اور ترقی یافتہ ریاست ہے ۔پاکستان کو آزاد ہوئے 70سال ہوچکے ہیں مگر آج بھی اس کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے ۔یہ دُنیا کی چھٹی اور اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی طاقت کی حامل ہے ۔ لیکن آج بھی ریاست عوام کو بنیادی ضروریات دینے میں ناکام ہے اور اس کے چاروں ستونوں میں سے کوئی بھی اپنی نا کامی ماننے کو تیار نہیں بلکہ اپنے بنیادی فرائض چھوڑ کر دوسرے ستون کو زیر کرنے میں مصروف ہے ،مثلاً مقننہ کا کام قانون سازی ہے مگر اس کا ایم این اے اسمبلی کے اجلا س میں اس سلسلے میں کوئی بھی کردار کرنے سے قاصر نظر آتا ہے سوائے ان معاملات میں جس میں ان کا ذاتی ، جماعتی یا قائدین کا فائدہ ہو اور ہر رکن اور وزیر اپنے فنڈز میں بہت دلچسپی لیتا نظر آتا ہے ۔ حالانکہ قانونی طور پر ارکان اسمبلی کو فنڈز مہیا ہی نہیں کرنے چاہیں کیوں کہ ان کا بنیادی کام صرف قانون سازی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے الیکشن تک اس رکن اسمبلی اور اس کے گھر والوں کے اثاثہ جات بہت بڑھ چکے ہوتے ہیں اوراس کے حلقے کے عوام کے حالات مزید خراب ہوچکے ہوتے ہیں ۔
حکومتی کارکردگی کی چھوٹی مثال یہ ہے کہ ملک کے لوگوں کو صاف پانی تک پینے کو میسر نہیں اور جن چند لوگوں کو ہے وہ خرید کر پی رہے ہیں ۔ حالانکہ ان میں سے بھی اکثریت کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ علاج معالجہ ، تعلیم وغیرہ کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں جبکہ ہر گز رتے دن کے ساتھ بیرونی قرضے لیے جارہے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں کچھ خبر نہیں ہے ۔ ریاستی قوانین کچھ ایک اور کچھ نصف صدی سے زائد عرصے پر مشتمل ہیں لیکن اس بنیادی مسئلے کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ۔ اسی طرح انتظامیہ کی کارکردگی کا اندازہ امن و امان کی صورت ِ حال سے لگایا جاسکتا ہے جہاں کوئی شخص محفوظ نہیں ۔ لوگ رات کو سونے سے پہلے گھر کو اندر سے بند کرنے کے باوجود غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے اوپر لوگوں کا اعتماد قائم کرنے میں ناکام ہیں ۔ تھانے اور دیگر قانون نافذ کرنے کے دفاتر کو عوام امن کے بجائے خوف کی علامت سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح عدلیہ کا حال ہے۔ عوام کا نظام ِ عدل سے اعتبار اُٹھ چکا ہے کیوں کہ عام آدمی کا خیال ہے کہ عدالتی نظام دو طرح کے ہیں۔ ایک بڑے آدمی کا اور ایک چھوٹے آدمی کا۔ گو کہ وکلاء تحریک کے بعد آزاد عدلیہ کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر آج بھی عوام کو یہ نظام اعتماد دینے میں نا کام ہے۔
مثا ل کے طور پر چند دن پہلے ایک وکیل صاحب سپریم کورٹ اسلام آباد میں دیر سے پہنچے اور عدالت کو اس کی وجہ فیض آباد کا دھرنا بتایا جس پر دونوں جج حضرات برہم ہوگئے اور Suo Moto کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایکشن لیا ، معزز ججز کو اس تحریک یا رسول اللہ ﷺ کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن پر بھی اعتراض تھا ۔ پھر معزز جج صاحبان نے ان کی تمام سپلائی لائنز جس میں کھانا ، پینا ، بجلی اور اکاونٹس روکنے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ دھرنے والے ہمارے پاس کیوں نہیں آئے وغیرہ وغیرہ اس سلسلے میں سینئر وکلاء کی قانونی رائے ہے کہ سوائے چیف جسٹس کے کسی جج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ Suo Moto نوٹس جاری کریں۔ دوسرے الیکشن کمیشن کے سربراہ بھی ایک سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ معزز جج صاحب ہیں اور لازمی اس جماعت نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہوں گے تب ہی رجسٹرڈ ہوئی ہوگی اور بغیر کسی ثبوت کے اس جماعت کی اہلیت پر کیسے اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ پھر کسی کا کھانے پانی اور روشنی بند کرنے کا حکم شاید دُنیا کی کسی عدالت نے نہ دیا ہو کیوں کہ یہ ناصرف آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 9اور 14 کی خلاف ورزی ہے اور سپریم کورٹ نے جو انسانی اور بنیادی حقوق کے حق میں فیصلے دیے ،جن میں شہلا ضیاء کیس و دیگر کافی مشہور ہیں ،کے منافی ہے پھر یہ بھی فرمایا کہ دھرنے والوں کے ساتھ کوئی تشدد نہ کریں اس کے بعد تو کسی اور تشدد کی گنجائش نہیں رہتی اوپر سے پولیس نے بھی نہایت پُھرتی دکھائی اور ان کا کھانا ، پینا بند کردیا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے نیز معزز جج صاحبان نے جو یہ فرمایا کہ دھرنے والوں کو ہمارے پاس آنا چاہیے تھا وہ خود اس بات کی نشاندھی ہے کہ ابھی تک عدالتی نظام لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہے ورنہ ہر شخص احتجاج کو آخری راستہ نہیں سمجھتا ۔نیز معزز عدالت کے ان سخت اقدامات کے بعد جب تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ والوں کے کیسز چھوٹی عدالتوں میں جائیں گے تو کیا وہ مطمئن ہوں گے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہوگا ۔
اس کے علاوہ یہ معاملہ پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا جس میں بھی معزز جج صاحب نے نہایت سختی سے حکومت و انتظامیہ کے خلاف تو ہین عدالت کا ایکشن لیا اور فرمایا کہ دو شہروں کے لوگ پریشان ہیں اور آپ مذاکرات کر رہے ہیں اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ جلد از جلد فیض آباد کا راستہ دھرنے والوں سے خالی کرایا جائے ۔ حکومت نے وہ راستے کھلوانے کے بجائے اپنی نالائقی سے پورا ملک جام کروادیا اور ہوشیاری سے تمام ملبہ معزز عدالت ِ عالیہ پر ڈال دیا اور پوری دُنیا کو یہ پیغام دیا کہ حکومت و انتظامیہ کی حکمت ِ عملی تو کچھ اور تھی لیکن عدالتی حکم کی تعمیل کے باعث یہ ہوا ہم تو معصوم ہیں اور یہ قیمتی جانوں کے نقصان کے بھی ہم ذمہ دارنہیں ہیں۔ محترم ججز کے طریقہ کار اور سخت لہجہ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ سخت لہجہ اور اونچی آواز میں بات کرنا معزز جج صاحبان کی عادت کا حصہ بن چکا ہے اور عام آدمی اس قول کو دہراتا ہے کہ "جب منصف کی آواز سائل کی آواز سے اونچی ہوجائے تو انصاف نہیں ہوتاـ”جس میں وکلاء جو کہ اس عدالتی نظام کا ایک حصہ ہیں وہ بھی ذمہ دار ہیں کیوں کہ ججز بھی آخر اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور انسان ہیں اور اکثر یہ سخت رویہ اسی وجہ سے ہوتا ہے ،کیوںکہ وکیل کا کام موکل کی وکالت کرنا ہے خود فریق بننا نہیں، اسی طرح جج کا کام بحث سننا ہے بحث کرنا نہیں۔ کامیابی اور کارنامہ آپ کومتعارف کرواتے ہیں آپ انہیں متعارف نہ کروائیں ۔ ویسے بھی جج نہیں بولتا اس کاJudgement بولتا ہے ۔ پانا ما کیس میں ججز نے قوم کو خوشخبری دی کہ تاریخی فیصلہ آئے گا مگر قوم کو مایوسی ہوئی کہ پاناما پر فیصلہ نہیں آیا بلکہ اقامہ پر آگیا اس کی جے آئی ٹی پر ایک وکیل سینیٹر نہال ہاشمی نے سخت جملے کہے جس پر توہین عدالت کا فوری ایکشن ہوا اور پورے معزز لارجر بینچ کے خلاف نواز شریف اور ان کے ساتھی جو زبان استعمال کرتے ہیں، انھیں کھلی چُھٹی ہے ۔
بہر حال یہ بحث بہت طویل ہے مختصر اً یہ کہ اگر ریاست کے تمام ستون اپنی اپنی حدود میں قانون و انصاف کی بالادستی کو مدِنظر رکھیں ۔ اپنی ذاتی اور اجتماعی غلطیوں کا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالیں۔یہ ملک ہمارا ہے اس کے اداروں کی عزت ہماری عزت اور اس کا نقصان ہمارا قومی نقصان ہے اوران اصولوں پر عمل کر کے ہم جلد قائد کا پاکستان جہاں انصاف ہوگا اور قانون کی حکمرانی ہوگی حاصل کرلیں گے، بقول شاعر:
جس کو میں کی ہوا لگ گئی
پھر اسے نہ دُعا لگی نہ دوا لگی