میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
احتجاجی مراسلہ

احتجاجی مراسلہ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(قسط نمبر2 )
قیام پاکستان کو 70 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اس دوران بھارت سے کئی کھلی جنگیں ہوچکی ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے سرحد پار فائرنگ اور گولہ باری روز مرہ کا معمول بن چکی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف رواں سال میں بھارت کی ایسی کاروائیاں کے نتیجے میں جان کی بازی ہارنے والے صرف عام شہریوں اور سرحدی دستوں کے اہلکاروں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ اسی طرح مختصر عرصے کے بعد بھارت کے پروردہ عناصر نے بلوچستان میں سر اٹھانا شروع کردیا ہے ۔ کلبھوشن یادیو اور اس کے کارندوں کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں بھارت کے پروردہ عناصر اور بھارتی کارندوں کے مابین رابطہ کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا اس عرصہ میں یقینا بھارت نے اپنے نئے ایجنٹوں کے زریعے یہ رابطے بحال کرلیے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ کلبھوشن یادیو کو پھانسی پر لٹکانے میں ابھی وقت لگ سکتا ہے کہ معاملہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں ہے ،لیکن اس کے ا ن کارندوں کو جو پاکستان کے شہری ہیں اور اپنے جرائم کا اعتراف کر چکے ہیں کو نشان عبرت بنانے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے۔
دفتر خارجہ کے احتجاجی مراسلے ان ممالک کے لیے تو تشویش کا باعث ہوتے ہیں جہاں اخلاقیات ہوتی ہے بھارت کا رویہ تو یہ ہے کہ وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے 1948 میں جب وزیراور محسود قبائل کے نوجوانوں نے کشمیر میں بھارتی افواج کو شکت کی دہلیز تک پہنچا دیا تھا تو بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے گڑ گڑا کر اقوام متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی تھی اور اقوام عالم کے سامنے کشمیریوں کو حق خودرادیت دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب جنگ بندی ہوگئی اور کچھ عرصہ بعد کشمیرمیں اپنے قدم مضبوط کرنے کے بعد بھارت نے پہلے تو اپنی نام نہاد پارلیمنٹ کے ذریعہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے کے بجائے بھارت کا حصہ بنا دیا اور 70 سال سے اقوام متحدہ کی قرارداد کو جو تے کی نوک پر رکھے ہوئے اس پر ایسے مراسلوں کا کیا اثر ہونا ہے ۔رہا افغانستان کا معاملہ تو اس نے وہی کرنا ہے جو امریکا اور بھارت کی خواہش ہے اور یہ دونوں پاکستا ن کو غیر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس ساری صورتحال کا واحد حل یہ ہے کہ ان ممالک کیساتھ سفارتی تعلقات کو محدود سے محدود تر کیا جائے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے ۔ سپہ سالار کی بدنی زبان تو یہ ہی بیان کر رہی ہے لیکن انہیںہر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے حکومت وقت کی اجازت کی ضرورت ہے۔ قمر جاوید باجوہ ایک ذمے دار فوج کے ذمے دار سربراہ ہیں کسی”روگ آرمی” کے بے لگام سورما نہیں۔ اگر بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ کے یہ واقعات بھارتی حکومت کی اجازت ہی نہیں حکم کے بغیر ہورہے ہیں تو پھر روگ آرمی تو بھارتی فوج ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ہوں یا وزیر دفاع سب پاکستان ہی نہیں چین کو بھی سبق سکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔
اگرجولائی کے بعد سے بھارت کی جانب سے گولہ باری میں کچھ کمی ہوئی تھی تو اس کی وجہ بھارت کا سمجھدار ہونا نہیں ڈوکلام کے علاقے میں چینی افواج کا جتماع تھا۔ اکتوبر کے آواخر اور نومبر کے اوائل سے بھارت اور چین کے مابین سرحدی علاقہ شدید برف باری کی زد میں آجاتا ہے یوں بھارت چین کی جانب سے بے فکر ہوجاتا ہے اور پھر اس کی خرمستیاںعروج پر پہنچ جاتی ہیں اور اس وقت اس کو صرف ڈنڈے کی زبان سمجھ میں آتی ہے۔ دفتر خارجہ کے بابوئوںکے مراسلے اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ اگر اب تک بھارتی سفارتی عملہ کے حوالہ کیے گئے احتجاجی مراسلے جمع کیے جائیں تو ان کی تعداد 10ہزار سے زائد ہوگی ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والاہے۔ بھارت کی اس سرحد پار دہشت گردی کا واحد جواب اور حل اس کو اس ہی کی زبان میں جواب دینا ہے اور بنیا صرف جو زبان سمجھتا ہے اور وہ زبان ہے ڈنڈا بھاشا۔ کہاوت ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور بھارتی لاتوں کے بھوت ہیں۔ باقی بھاشاکا فیصلہ تو دفتر خارجہ میں بیٹھے بابووں اور دلیل کو غلیل پر فوقیت دینے والے سابق وزیر دفاع اور موجودہ وزیر خارجہ نے کرنا ہے۔
(ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں