میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان پیپلز پارٹی  ۔عزم۔قربانی اور جدوجہد کے 50 سال

پاکستان پیپلز پارٹی ۔عزم۔قربانی اور جدوجہد کے 50 سال

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نعمان شیخ
آج پاکستان کی اہم عوامی سیاسی پارٹی ـ” پاکستان پیپلز پارٹیــ” اپنا 50واں یوم تاسیس منارہی ہے ۔آج سے نصف صدی قبل پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور شہرمیں اپنے ہم خیال دوستوں اور رفقاء کے ساتھ مل کر 30نومبر1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔اس منفرد تاریخ کی وجہ سے پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب نے پورے سال کو "گو لڈ ن جوبلی ” کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
ان 50 برسوں کے بعد پارٹی گولڈن جوبلی تو منا رہی ہے ،لیکن پُل کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے، جن کی یاد پاکستانی سماج کو آج بھی غم سے دوچار کرتی ہے۔ ان واقعات میں بنگلادیش بننے سے قبل دو مارشل لاء اور اس کے بعد کی دو اندوہناک آمریتیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کا آمریت کے ہاتھوں عدالتی قتل،اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کا سرعام سرشام قتل، ان کے دو بھائیوں میر شاہنواز اور میر مرتضی بھٹو کا قتل، بسمل اور نیم بسمل جمہوری ادوار اور پرائی جنگ کو اپنی جنگ سمجھنا اور پھر اس سے جان نہ چھڑانے کا تہیہ کرنا، پاکستان کو بین الاقوامی جنگجوئوں کی آماجگاہ بنانا نیز پاکستانی سماج کو محتاج اور دست نگر سماج میں تبدیل ہونے جیسے واقعات اس پورے عرصے کے سب سے اہم اور سب سے زیادہ متاثر کرنے والے واقعات ہیں۔
پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر اس دور میں پارٹی کی بنیاد رکھی جب دنیا سرد جنگ سے نبردآزما تھی۔ ملک میں سامراج کی ہوا ہر سوُ چل رہی تھی۔ اندرونی طور پر پورے ملک پر جاگیرداری نظام مسلط تھا اور چند بڑے خاندان سیاست اور حکومت پر چھائے ہوئے تھے۔ڈرائنگ روم کی سیاست چلتی تھی جس میں چند بڑے خاندان آپس میں بیٹھ کر ملک کی قسمت کی تاش کھیلتے تھے۔ اس قسمت کا احوال بعد میں ان کے زرخرید غلاموں کو کسی حکمراں کی نئی صورت سے آشنائی سے معلوم ہوتا تھا۔
جناب بھٹو نے سیاست کو محلات سے نکال کر اس کو عوامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہ روایت شکنی ان کے قتل کا موجب بنی جس کے سہولت کار اس زمانے کے منصف تھے۔ جناب بھٹو وقت کے حکمرانوں کے لیے ”نافرمان” ثابت ہوئے تھے، جس کی وجہ سے وقت کے آمر حکمرانوں نے اس عمل کی سزا موت تجویز کی تھی۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو ” جناب بھٹو 1967ء میں عوامی سیاست میں آئے، دس برس میں ان کی عوامی سیاست کا تختہ الٹادیا گیا اور اگلے دو برسوں 1979ء میں انہیں پھانسی پر جھولایا گیا۔ آج تک جناب بھٹو کا قتل پاکستان کی گلیوں میں کراچی سے لے کر چترال تک انصاف کی بھیک مانگ رہا ہے۔
بھٹو نے سیاست میں آنے کے بعد بڑے بڑے بت ، کھلاڑی و برج اُلٹ دیئے۔ سندھ میں سیدوں ، شاہوں اور وڈیروں ، پنجاب میں چوہدریوں اور جاگیرداروں ،خیبر پختونخواہ میں خانوں کو عام آدمیوں سے ہروادیا۔دولتانہ ، حیات ،ٹوانہ، پگارا اور ان جیسے بڑے بڑے خاندانوں وناموں کو شکست دی۔ کئی دھائیوں سے چھائے ہوئے میاں ممتاز دولتانہ کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردی ۔مغربی پاکستان کی 80فیصد نشستیں جیت کر صدیوں سے حکومتوں میں چھائے ہوئے عفریت کے بتوں کو پاش پاش کردیا۔ذوالفقار علی بھٹوتاریخ کا ایک نام ہے جنھوں نے ملک میں غریبوں اور عام آدمیوں کی قسمت ہی بدل دی۔انھوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ۔غریبوں ،کچلے ہوئے انسانوں ،مزدوروں،ہاریوں اور اس طرح کے طبقات کو معاشرے میں باعزت مقام بنانے اور سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھایا بھٹو صاحب نے سیاست میں اُس دن ہی قدم رکھ دیا تھا جب انھوں نے اپنے دورطالبعلمی میں قائداعظم کو 26اپریل 1945ء میں ایک خط لکھا تھا ۔بھٹو صاحب وہ سیاستدان ہیں جنھوںنے اس خط میں ملک کی خاطر اپنی جان دینے کی بات کی اور اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔بعد میںآنے والے تمام
سیاستدانوں نے ملک کی خاطرجان دینے کی بات ہی نہیں کی کیونکہ انھیں ڈر تھا کہیں وہ قبولیت کی گھڑی ہی نہ ہو۔انھوں نے اپنے خط میں لکھا :ـ-
"جناب والا! آپ نے مسلم قوم کو ایک پرچم تلے جمع کیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان ہمارا مقدر
ہے ، ہمارا مقصد ہے۔ہمیں پاکستان کے قیام سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔برصغیر میں ہم بحثیت قوم وجود رکھتے ہیں ۔ آپ نے ہمیںمتحرک کیا جس پرہمیں فخر ہے ۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں ارض پاک کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب میں پاکستان کے لیے جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرونگا۔ــــ”
اس خط کا جواب قائداعظم نے یکم مئی 1945ء کو دیا انھوں نے لکھا ـ ـ ” تمہارا 28اپریل کا خط پڑھ کر اور یہ جان کر کہ تم مختلف سیاسی تقریبات میں شامل ہوتے رہے ہو بہت خوشی ہوئی ۔اگر تم سیاست میں دلچسپی رکھتے ہو تو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ پہلے اس کا بخوبی مطالعہ کرو لیکن اپنی تعلیم کو نظر انداز نہ کرنا ۔اگر تم ہندوستان کے سیاسی مسائل کا مکمل طور پر مطالعہ کرتے ہو تو مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تم تعلیم مکمل ہونے کے بعد زندگی کی جدوجہد میں کامیاب فرد کے طور پر داخل ہوگے۔ ـ”
بھٹو صاحب اکثراپنے جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے عوام سے کہتے تھے کہ ملک کے لیے لڑوگے ،جان دو گے جس پرعوام پرجوش انداز میں کہتے تھے کہ ہاںہم ملک کے خاطر لڑیں گے ،جان دیں گے۔ جس پر بھٹوکے ناقدین ان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ اپنے جلسوں میںجوش و خروش پیدا کرنے ، ماحول کوگرمانے اور عوام کو جذباتی بنانے کے لیے اس طرح بات کرتے تھے،لیکن وہ شاید بھول گئے کہ انھوں نے 1945میں قائد اعظم کو لکھے
گئے خط میں بھی یہ لکھا تھا کہ وہ ضرورت پڑنے پر ملک کے لیے جان بھی دے دیں گے۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں