میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی

اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی

ویب ڈیسک
پیر, ۳۰ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
یہ سوچ بہت عام ہے کہ یہودی یااسرائیلی اس قدرچالاک اورذہین قوم ہے کہ امریکاجواس وقت دنیاکی واحدسپرپاورہے بظاہر اسرائیل کی مرضی کے کچھ بھی نہیں کرتایاکرسکتا۔ پوری دنیاکی معیشت پریہودیوں کاقبضہ ہے۔میڈیاپرکوئی موضوع یاخبر ان کی مرضی کے بغیرچل نہیں سکتی۔امریکامیں کوئی شخص کانگریس کاممبریاامریکاکاصدریہودی لابی کے پیسے اور سیاسی مددکے بغیرنہیں بن سکتا،یہ تاثرات اس وقت اورمضبوط ہوجاتے ہیں جب امریکامشرق وسطی میں اسرائیل کی حمایت میں نہ توکسی مخالفت کی پرواکرتاہے اورنہ ہی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کوتوڑنے میں شرم محسوس کرتاہے،اس کے علا وہ فری میسنزکی کہانیاں،اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں،فوج اورکمانڈوزکی طاقت کے قصے ایساتاثرپیداکردیتے ہیں کہ یہ یقین ہو نے لگتاہے جیسے دنیاکی اصل طاقت توایک چھو ٹی سی قوم یہودہے جس نے امریکایورپ اوردنیاکی تمام بڑی قوموں کو قابوکررکھاہے۔دنیامیں جوبھی فسادہوتاہے اس کے پیچھے یہودکاہاتھ ہوتاہے اورمسلمانوں پرہونے والے تمام مظالم کے ذمہ دار یہودی ہیں۔اس تاثرکے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال جڑپکڑلیتاہے کہ اصل برائی امریکایااس کااستعماری نظام سرمایہ دار یت نہیں بلکہ اسرائیل یایہودہیں۔اگران کی طاقت کاخاتمہ کردیاجائے تومسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ دوبارہ بحال کرلیں گے ۔
مسلمان پراللہ نے یہ لازم کیاہے کہ وہ دین اسلام کوتمام ادیان پرغالب کریں،اس عمل کی انجام دہی کیلئے ضروری ہے کہ ہم دنیاکی سیاست کوسمجھیں،طاقت کے مراکزاورمسائل کی جڑکی صحیح نشاندہی کریں۔ا گرہم نے اپنے دشمن کاصحیح تعین نہ کیاتوہماری توانائی غلط ہد ف پرضائع ہوجائے گی اورحقیقی دشمن مزیدطاقتورہوجائے گا۔یہ بات ہرشخص جانتاہے کہ سپر پاوراس ملک کوکہاجاتاہے جس کی مرضی کے مطابق دنیاکے تمام یابیشترمعاملات چلتے ہوں۔اس وقت امریکاکودنیاکی واحد سپرپاوراس لیے کہاجاتاہے کہ دنیاکے کسی بھی معاملے میں اس کی مرضی کوچیلنج کرنے والی کوئی دوسری طاقت موجود نہیں ہے۔امریکاکی معیشت دنیاکی معیشت کا17فیصدہے۔امریکاکادفاعی بجٹ روس چین،برطانیہ اورفرانس کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوتاہے۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ کس طرح اسرائیل جوکہ سپرپاورنہیں اپناتحفظ امریکی فوجی اورسیاسی مددکے بغیرکرنہیں سکتا،جس کی معیشت ہرسال امریکی امدادکی محتاج ہووہ کس طرح امریکاکواپنے اشاروں پرچلنے پر مجبورکرسکتاہے؟یاپھریہ کہ اسرائیل کی طاقت کے تمام قصے بے بنیادہیں۔
عموعی طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ امریکاکی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی اسرائیل کی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔امریکا مشرق وسطی میں اسرائیل کومضبوط کرنے یااپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے فوجی بغاوتوں اورآمرحکمرانوں کی حمایت کرتاہے اورکبھی جمہوری قوتوں کی،کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگاتاہے توکسی ملک کوامداددیتاہے،کبھی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین نافذکروانے کیلئے سیاسی اورفوجی اثرورسوخ استعمال کرتاہے توکبھی اقوام متحدہ اوربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتاہے،اب امریکاکے ان اعمال کایہ جواز پیش کرناکہ ایسا وہ صرف اورصرف اسرائیل کے دباؤکی وجہ سے کرتاہے،غلط ہوگا۔ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکاافریقی ممالک لاطینی امریکااورمشرق بعید میں بھی اپنے مفادا ت کے حصول کیلئے اایسے ہی تمام اقدامات اٹھاتاہے جیساکہ وہ مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیامیں کرتاہے۔اگرامریکامشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیاکے دوسرے حصوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتاہے جہاں کوئی اسرائیلی مفادنہیں تواس کامطلب یہ ہے کہ امریکااتنی طاقت رکھتاہے کہ وہ اپنی من مانی مرضی سے پالیسیاں بناتاہے چاہے جن سے دوسرے اتفاق نہ کرتے ہوں۔
اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکاکئی بین الا قوامی امورمیں جن کااسرا ئیل کی سلامتی یامفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،پوری دنیاکی رائے کی مخالفت کرتاہے چاہے اس وجہ سے اس کوپوری دنیامیں شدیدتنقیدکانشانہ ہی کیوں نہ بنناپڑے ۔ پوری دنیانے زیرزمین بارودی سرنگوں کے خاتمے بین الا قوامی عدالت برائے جنگی جرائم کے قیام اوردنیامیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کوروکنے کیلئے ان پردستخط کیے لیکن امریکانے ان معاہدوں کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا۔اس تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ امریکامشرق وسطیٰ میں بھی ایسے اقدامات اس لیے کرتاہے کیونکہ بنیادی طور پریہ اس کے مفادمیں ہوتے ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ اس پراسرائیل کاکوئی دباؤہوتاہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکامیں موجود تمام یہودی اسرائیل کی حمایت میں ایک ہوکرامریکاپردباڈالتے ہیں۔یہ تصور معلومات کی کمی کانتیجہ ہے جہاں امریکامیں یہودیوں کی ایک بڑی تنظیم”امریکااسرائیل پبلک افیئرزکمیٹی”اوراس سے منسلک کئی یہودی تنظیمیں امریکی اراکین کانگریس پراسرائیل کے حق میں پالیسیاں بنانے کیلئے دباڈالتی ہیں جن میں (American،s fo Peace Now, Israel Policy Forum,Brit Tzedek V،shadom(جیسی یہودی تنظیمیں ہیں جواسرائیل کے وجودکے خلاف تونہیں ہیں لیکن اسرائیل کی یہودی آبادکاروں کے حوالے سے پالیسی،نئے علاقوں پرقبضہ کرنے،دیوار کھڑی کرنے اورامریکاکی اسرائیل کی ہرحال میں حمایت کی شدید مخالفت بھی کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کے اراکین کی بہت بڑی اکثریت کواپنے حلقوں سے جیتنے کیلئے نہ تویہودی ووٹوں کی ضرورت ہو تی ہے اورنہ ہی ان کے پیسوں کی۔
ایسے تمام اراکین کانگریس جوکہ اسرائیلی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں ان کاتعلق ان علاقوں سے ہوتاہے جوان کے محفوظ ترین حلقے ہوتے ہیں اوروہ وہاں سے کئی دہائیوں سے جیتتے آرہے ہوتے ہیں مثلاًامریکی اسپیکرکانگریس نینسی پلوسی جوکہ اسرائیل کی کھل کرحمایت کرتی تھی،ہردفعہ80فیصدسے زائد ووٹ لیکر منتخب ہوجاتی تھیں۔یہ کہناکہ یہودی لابی بہت مالدارہے اورپیسے استعمال کرکے امریکی اراکین کانگریس پردباؤڈالتے ہیں،بالکل غلط مفروضہ ہے پیسوں کے لحاظ سے سب سے طاقتورلابی امریکامیں دفاعی یااسلحہ بنانے والے اداروں،تیل کی کمپنیوں اورادویات بنا نے والے اداروں کی ہے صرف ”اے آئی پی اے سی”اور”لاک ہیڈمارٹن”اپنے اداروں کی لابنگ پر”نارتھ گرومین”اور ”جنرل الیکٹرک بوئنگ”کے مقابلے میں بالترتیب سات اورپانچ گنازیادہ خرچ کرتے ہیں اسی طرح کی لابنگ کاخرچہ اوردوسرے ایسے کئی اداروں سے بہت کم ہے جودفاعی صنعت سے منسلک ہیں۔امریکامیں یہودیوں کی آبادی پانچ فیصد سے بھی کم ہے اس میں سے بھی جب ایک معقول تعداداسرائیل کی ہرحال میں حمایت کی مخالفت کرتی ہو۔یہودی ووٹ امریکاکے99فیصدسے زیادہ حلقوں میں کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں،دولت کی بنیادپریہودیوں سے زیادہ مضبوط لابیزموجودہوں توہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ دویاتین فیصد یہودی امریکاانتظامیہ پرکتنازورڈال سکتے ہیں؟ان تمام حقائق کے باوجوداگرہم اب بھی یہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکااسرائیل کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتاتومیں یہاں کچھ مثالیں پیش کرتاہوں تاکہ یہ خیال ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔
کسی بھی امریکی صدرنے جب یہ دیکھاکہ اسرائیل لابی کی طرف سے جس پالیسی کواپنانے کیلئے دباڈالاجارہاہے وہ امریکی مفادمیں نہیں توامریکی صدرنے ہمیشہ اسرائیل کومجبورکر دیاکہ وہ امریکی پالیسی کواختیارکرے۔1956میں جب اسرائیل برطانیہ اورفرانس نے نہرسوئزپرقبضہ کرنے کیلئے جنگ کاآغازکیاتواس وقت کے امریکی صدرآئزن ہاورنے اس جنگ پرشدیدناراضی کااظہارکیااوراسرائیل کودھمکی دی کہ اگراس نے مصری علاقوں سے قبضہ ختم نہ کیاتوامریکامیں اسرائیلی بونڈزاورنجی طورپراسرائیل بھجوائی جانے والی،رقوم پرٹیکس کی چھوٹ ختم کردی جائے گی۔امریکی صدرآئزن ہاورنے اسرائیل کویہ دھمکی اس وقت دی تھی جب صرف چندہفتوں بعدامریکامیں صدارتی انتخابات ہونے جارہے تھے۔ امریکی صدرآئرن ہاورکی اس دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل نے چندمہینوں میں تمام مصری علاقے خالی کردیے۔ اسی طرح جب1978میں جب اسرائیل نے لبنان پرحملہ کیااوردریائے لیتانی تک آگیاتوامریکی صدرجمی کارٹرنے اسرائیل کوامدادبندکرنیکی دھمکی دیکرمجبورکردیاکہ وہ لبنان کی سرحدمیں چندکلومیٹرتک محدودرہے۔اس کے بعداگلے امریکی صدر رونا لڈریگن نے1981میں”اے آئی پی اے سی”کے بھرپوردباؤکومستردکرتے ہوئے فوکس طیارے سعودی عرب کوبیچے۔اس کے دس سال بعدبش سنئیرنے ”اے آئی پی اے سی”کے بھرپوردباؤکاکامیابی سے مقابلہ کیااوراسرائیل کی ناک رگڑتے ہوئے10/ارب ڈالرکاقرضہ جاری نہیں کیا جب تک مشرقِ وسطیٰ میں امریکی امن منصوبے کی راہ میں رکاوٹ”یزٹحاک شمیر”کوشکست نہیں ہوگئی کیونکہ یہ امریکی منصوبے میں رکاوٹ تھا۔ 2004میں بش جونیئرنے اسرائیل کونہ صرف چین سے اس معاہدے کوتوڑنے پرمجبورکردیاجس کے تحت اسرائیل نے طیاروں کوجدیدبنایاتھابلکہ اسرائیلی وزارت دفاع کے ڈائریکٹرجنرل”آموس یارون”کوبھی استعفی دیناپڑا،اسی طرح اسرائیل پچھلے کئی سالوں سے امریکاکوایران پرحملے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن نہ صرف یہ کہ امریکا اس کی اس خواہش کوپورا نہیں کررہابلکہ امریکانے اسرائیل کوبھی سختی سے ایران پرکسی بھی قسم کے حملے سے روک دیاہے۔ ان تمام حقائق کے باوجودآخرامریکاکیوں اسرائیل کی اس قدرحمایت کرتاہے۔سب سے پہلے تواس بات کوذہن نشین کرلینا چاہیے کہ امریکاایک نظریاتی ریاست اوردنیاکی واحد سپرپاورہے۔امریکاجوبھی فیصلے کرتاہے اپنی ضرورت اورمفادات کو سامنے رکھ کرکرتاہے۔مشرق وسطیٰ کاعلاقہ کئی اعتبارسے اہمیت رکھتاہے۔دنیاکے تمام تجارتی بحری قافلے اس کے بحری علاقوں سے گزرتے ہیں،دنیاکے66فیصدسے زائدتیل وگیس کے ذخائراس علاقے میں موجودہیں اوران تما م باتوں سے بڑھ کریہ علاقے مسلم اکثریتی آبادی رکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی اہمیت کو واضح کر نے کیلئے سابق برطانوی وزیر اعظم”ہنری کیمپ بل(بینرمین)کاایک ہی تبصرہ کافی ہے:یہاں پروہ لوگ(مسلمان )رہتے ہیں جواس زبردست علاقے اوراس زمین میں موجودذخائرکوکنٹرول کرتے ہیں۔ان کی زمین انسانی تہذیب اورمذاہب کاگہوراہ ہے،ان لوگوں کاعقیدہ زبان،تاریخ اورجذبات ایک سے ہیں۔کوئی قدرتی رکاوٹ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے جدانہیں کرسکتی اوراگرکبھی جداہوبھی جائیں تویہ دوبارہ ایک مملکت میں ضم ہوجائیں گے۔پھریہ دنیاکی قسمت کواپنے ہاتھ میں لے لیں گے اوریورپ کوباقی دنیاسے کاٹ دیں گے۔ان وجوہات کوسنجیدگی سے لیاجائے توضروری ہے کہ ایک بیرونی اکائی کو اس قوم کے دل میں پیوست کردیاجائے تاکہ اس قوم کی صلاحیتوں کوکبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں ضائع کردیاجائے۔یہ بیرونی اکائی مغرب کیلئے ایک ایسے پلیٹ فارم کاکام بھی کرے گی جہاں سے وہ اپنے خفیہ منصوبوں کوانجا م دے سکے گا”۔
یہ ہیں وہ بنیا دی وجوہات جن کی بناپرپہلی جنگ عظیم کے بعداس وقت کی سپرپاوربرطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں یہودی مملکت کی کوششوں کاآغازکیااورپھردوسری جنگ عظیم کے بعدجب امریکاسپرپاوربن گیاتواس کے مفادکاتقاضہ بھی یہی تھاکہ اسرائیل کی ریاست قائم کی جائے اوراس کومضبوط بنایاجائے۔اسرائیلی ریاست کے ذریعے اس علاقے کو مسلسل جنگوں میں مبتلارکھاجاتاہے جس سے ایک طرف امریکی اسلحے کی فیکڑیاں چلتی رہتی ہیں تودوسری طرف ان ممالک کی کمزوری کے سبب امریکاان ممالک میں اپنے اثرورسوخ کوبڑھاتااوربرقراررکھتاہے۔
دنیاکی واحدسپرپاورامریکاہے جوسرمایہ داریت کے نظریے کاعلم بردارہے۔مسلمانوں اوراسلام کاحقیقی دشمن یہودی یا اسرئیلی ریاست نہیں بلکہ امریکااورسرمایہ داریت کانظام ہے، اسرائیل تومحض امریکی مفادات کوپوراکرنے والاایک کھلا ڑی ہے۔اس کھلاڑی کی یہ جرأت اورطاقت نہیں ہوسکتی کہ وہ وقت کی واحدطاقت کواپنے مفادات کے مطابق چلاسکے۔ اسرائیل کی اس حقیقت کوایک اسرائیل استاداورامن کیلئے کام کرنے والے کارکن نے اس طرح سے بیان کیاہے:
اسرائیل اپنے قبضوں کواس لیے برقراررکھ پاتاہے کیونکہ وہ مغرب خصوصاًامریکاکے استعماری مفادات کوپوراکر نے کیلئے تیاررہتاہے اورحقیقت میں اب اسرائیل امریکاکاایک آزمودہ سپاہی بن چکاہے۔سابق امریکی وزیرخارجہ الیگزینڈرہیگ نے اسرائیل کے متعلق بڑااہم بیان دیاتھا:اسرائیل امریکاکاواحدسب سے بڑابحری وہوائی بیڑہ ہے جوڈوب نہیں سکتا۔
تاریخی اعتبارسے یہوداپنی سازشوں،مال واسباب اورسیاسی اثرورسوخ کے باوجودکبھی بھی اپنے سیاسی اہداف بغیرکسی بیرونی طاقت کی مددکے بغیرحاصل نہیں کرسکے۔پچھلے چودہ سوسال میں یہودعباسی خلافت،عثمانی خلافت،اسپین کی اموی حکومت،یورپ اورامریکامیں معاشی لحاظ سے ہمیشہ خوش حال رہے ہیں لیکن کبھی بھی کسی علاقے میں یہودکوئی قابل ذکرسیاسی مقام نہیں بناسکے۔ریاست مدینہ میں بنوقریضہ،بنوناصر،بنوقینوقاہ اورخیبرکے یہوداپنی معاشی سیاسی اور فوجی قوت کے باوجودکبھی بھی مدینہ کی ریاست کوبراہ راست چیلنج نہیں کرسکے بلکہ ہمیشہ قریش مکہ کی مددکاانتظار کرتے تھے اورآخرمیں اپنی سازشوں اوروعدہ خلافیوں کی بناپران کوبے دخل ہوناپڑا۔
یہودیورپ میں ہمیشہ دوسرے درجہ کے شہری رہے اورجب کسی حکمران نے ان پرظلم وستم کرناچاہاتوان کی معاشی طاقت کبھی کام نہ
آئی۔جب عثمانی خلافت اپنے کمزورترین دور سے گزررہی تھی تویہودیوں نے خلیفہ عبد الحمید دوئم کواس بات کی پیش کش کی کہ اگرانہیں فلسطین کی زمین دے دی جائے توخلافت عثمانہ کے تمام قرض وہ اداکردیں گے لیکن اپنی معاشی قوت اورخلافت کی کمزوری کے باوجودیہوداپنے مقصدمیں کامیاب نہیں ہوسکے۔وہ قوم جوپچھلے ڈھائی ہزارسال سے اپنی تمام ترسازشی ذہنیت اورمال واسباب کے باوجود دربدرتھی،بالآخربرطانوی وزیراعظم ہنری کیمپ بل کی وفات کے چالیس سال بعداس کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے برطانیہ عربوں کے سینے میں خنجرگھونپ کرفلسطین میں یہودی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔خطے میں اسرائیل کاقیام اس وجہ سے ضروری تھاکہ مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے منقسم رکھنے اورخطے میں اپنے مفادات کے مستقل حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ یہود کو ایک ریاست کی شکل میں طاقت دی جائے ۔
اللہ سورہ آل عمران میں یہودکیلئے فرماتے ہیں: یہ تمہاراکچھ بگاڑنہیں سکتے،زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتے ہیں۔اگریہ تم سے لڑیں گے تومقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھرایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے ان کومددنہ ملے گی۔یہ جہاں بھی پائے گئے ان پرذلت کی مارہی پڑی،کہیں اللہ کے ذمہ یاانسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تویہ اوربات ہے۔یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں،ان پرمحتاجی ومغلوبی مسلط کر دی گئی ہے،اوریہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہواہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفرکرتے رہے اورانہوں نے پیغمبروں کونا حق قتل کیا۔یہ ان کی نافرمانیوں اورزیادتیوں کاانجام ہے۔(العمران:111۔112)
اللہ نے قوم یہودپرہمیشہ ہمیشہ کی ذلت مسلط کردی ہے۔یہودسیاسی،معاشی اورفوجی لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں رہے،آج اگریہودمسلمانوں پرغالب ہیں توصرف اپنے استعماری آقاامریکاکی قوت کی وجہ سے،ہم مسلمانوں کویہ سمجھنا چاہیے کہ امریکادانستہ اس نظریے کوفروغ دیتاہے کہ یہودی لابی اس قدرطاقتورہے کہ امریکاجیسی طاقت بھی اس کے آگے مجبورہوجاتی ہے،اس بات کوفروغ دینے سے امریکادوفائدے حاصل کرتاہے۔
(1)وہ مسلمانوں کی امریکاسے نفرت کارخ یہودکی طرف موڑدیتاہے
(٢)مسلمان اسرائیل کواپنااصل دشمن سمجھ کرصرف اسرائیلی قوت کوختم کرنے کی کوششو ں میں لگ جا تے ہیں،اس طرح نہ توامریکاختم ہوتاہے اورنہ ہی اسرائیل،امریکاغدارمسلم حکمرانوں کے ذریعے اس بات کوممکن بناتاہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوجی قوت منشتر رہے اور پھر یہ مسلم افواج آپس میں بھی قومیت اور وطنیت کی کفریہ بنیادوں پر لڑتی رہیں،مسلمانوں کوجان لیناچاہیے کہ جب تک وہ اپنی گردنوں پرمسلط غدارامریکی ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل نہیں کرتے، امریکااوراس کے سرمایہ داری نظام سے چھٹکارانہیں پاسکتے۔
یہاں یہ بتانابھی بہت ضروری ہے کہ یہاں امریکااوراسرائیل حکومتوں کی طرف اشارہ ہے۔جس طرح اسلامی حکومتیں مسلم عوام کی خواہشات کی علمبردارنہیں بلکہ اسی طرح مغرب اورامریکاکی حکومتیں بھی یہاں کے عوام کی مکمل خواہشات کی آئینہ دارنہیں۔اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جب امریکا،برطانیہ اوران کے دیگراتحادیوں نے عراق پرحملہ کرنے کا اعلان کیاتویورپ کی تاریخ کاسب سے بڑا”ملین
افراد”کامظاہرہ برطانیہ میں ہواجہاں ہرمکتبہ فکرکے افرادنے اس حملے کی بھرپورمخالفت کی اورآج بھی آئے دن برطانیہ،یورپ اور امریکا میں ہزاروں افرادسڑکوں پر بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام روکنے کیلئے سراپااحتجاج ہیں لیکن یہاں بھی سب سے بڑی رکاوٹ اس سرمایہ داری نظام کی پیداکردہ جمہوری نظام ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ دنیامیں جاری اس ظلم وستم کے خلاف جوادراک پیداہورہاہے،اس کوفوری طورپربہتراورجاری جمہوری اندازمیں حاصل کرنے کیلئے یہاں کی تمام سیاسی جماعتوں میں عملاً شمولیت اختیارکی جائے اورسیاسی سفرمیں قانون سازاداروں میں پہنچ کرحق وصداقت کیلئے قانون سازی میں اپناکرداراداکیاجائے۔ یقیناً ایک دن ضرورآئے گا کہ جب مظلوم کوانصاف ملے گا اوریہی افرادجوآج سڑک پردنیامیں ہونے والے اسرائیلی،امریکی جارحیت کے خلاف اپنااحتجاج ریکارڈکروارہے ہیں،وہ آئندہ انتخابات میں اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہرامیدوارسے یہ وعدہ ضرور لیں گے کہ وہ پارلیمنٹ میں جاکرایسی قانون سازی کریں جن کی بنیادپرہرظالم کولگام ڈالی جاسکے۔
یقینارسول اللہۖکی وہ پیش گوئی بھی پوری ہوگی جس کے تحت مسلمان بیت المقدس پرقابض یہودیوں کوچن چن کرجہنم رسید کریں گے اوروہ ان یہودیوں کے ظلم وستم کاآخری دن ہوگا۔رسول اللہۖنے فرمایا۔:مسلمان یہودیوں سے لڑیں گے اورپھران کوقتل کریں گے یہاں تک کہ ایک یہودی کسی پتھریادرخت کے پیچھے پناہ لے گا تووہ پتھریادرخت پکارے گا،اے مسلم اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے ہے،آؤاوراسے قتل کرو۔
کچھ بھی تونہیں رہے گا،کچھ بھی تونہیں،بس نام رہے گااللہ کا!
ستیزہ کاررہاہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفویۖ سے شرارِبولہبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں