داغ۔دارا
شیئر کریں
دوستو،پنجابی فلموں میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ فلم کا ہیروبھرپور ایکشن والا پوز بناکرجب اپنی ماں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرکودھاڑ کر کہتا ہے۔۔اوئے داغ دارا۔۔۔ تو سینما ہال میں تالیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں۔۔ جس کا واضح مطلب لیاجاسکتا ہے کہ ڈاکٹروں کی ’’مارکیٹ ریپوٹیشن‘‘ ٹھیک نہیں اور عوام میں ان کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔۔ پنجاب اور سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتالوں اور ان سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے رویہ سے یہ نفرت کسی طور کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔۔
ایک ڈاکٹر کسی شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کی غرض سے دوسرے شہر گیا۔ واپسی پر ایک دوست سے اس کی ملاقات ہوئی تو کہنے لگا۔۔یار معاف کرنا تمہیں اطلاع دیئے بغیر میں شہر سے باہر چلا گیا۔ابھی آ رہا ہوں۔۔دوست نے مسکرا کو جواب دیا۔۔ہاں مجھے مقامی اخبار سے تمہاری غیر موجودگی کا علم ہو گیا تھا کیونکہ گزشتہ دو ہفتوں سے اپنے علاقے میں مرنے والوں کی تعداد برائے نام رہ گئی ہے۔۔کسی علاقے میں دو ڈاکٹروں کے کلینک آمنے سامنے تھے۔۔ ایک ڈاکٹر نے اپنی دکان پر ایک دن بڑا سا بینرلگادیاجس پر یہ الفاظ درج تھے۔۔یہاں پر شرطیہ علاج کیا جاتا ہے اور جو مریض یہاں علاج کرائے گا اس کے علاج پر پچاس فیصد فیس کا ڈسکاؤنٹ دیا جائے گا۔۔۔اگلے ہی روز دوسرے ڈاکٹر نے اپنے کلینک کے باہر ایک بینر آویزاں کردیاجس پر تحریر تھا۔۔ ’’سامنے والا ڈاکٹر جھوٹ بولتا ہے۔ وہ خود مجھ سے علاج کراتا ہے۔‘‘۔۔زیادہ پرانا قصہ نہیں چندماہ قبل کی بات ہے کہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے دوران مریض ڈاکٹروں کو برابھلا کہہ رہے تھے۔۔ایک ڈاکٹر کا اتفاق سے وہاں سے گزر ہوا، ڈاکٹر نے ان کی باتیں سن کر کہا۔۔ آہ! اس جہاں میں ڈاکٹروں کے بہت سے دشمن ہیں۔۔ایک مریض نے تپ کر کہا۔۔ جی ہاں، اور دوسرے جہاں میں اس سے بھی زیادہ ہیں۔۔
ہر ڈاکٹر سنجیدہ یا زندگی سے بے زار نہیں ہوتا، کچھ بذلہ سنج بھی ہوتے ہیں۔۔جب ایک ڈاکٹر کو خاتون نے کلینک میں گھستے ہی کہا کہ۔۔ ڈاکٹرصاحب! جلدی چلئے، میرے شوہر کو 108 بخار ہے۔۔ڈاکٹر نے برجستہ کہا۔۔ اب میرے جانے کا کوئی فائدہ نہیں، آپ فائر بریگیڈ کو فون کریں۔۔۔مریض نے جب ڈاکٹر سے کہا کہ ۔۔ میں جب بھی چائے پیتا ہوں،تو آنکھ میں اچانک بہت تیز چبھن کا احساس ہوتا ہے اور ایک ناقابل برداشت درد کا احساس جاگتا ہے، اس کا کیا علاج ہے؟؟ ڈاکٹر نے مریض کو بغور دیکھ کر جواب دیا۔۔ یہ تو بہت ہی آسان علاج ہے، بس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ چائے پینے سے پہلے چمچہ کپ سے نکال دیا کرو۔۔جب ایک مریض نے بڑے شکوے بھرے انداز میں ڈاکٹر سے کہا کہ ۔۔ ڈاکٹر صاحب آپ کی دوائی کڑوی بہت ہوتی ہے۔۔ ڈاکٹر مسکرا کر بولا۔۔نسخے میں دو کلو جلیبی لکھ دوں؟؟مریض کے طبی معائنے کے دوران ڈاکٹر نے اچانک مریض سے سوال کیا۔۔ آپ کا وزن کتنا ہے؟ مریض نے کہا۔۔ عینک کے ساتھ ساٹھ کلو۔۔ ڈاکٹر نے حیران ہوکر پوچھا۔۔اور بغیر عینک کے کتنا وزن ہے؟ مریض نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔ بغیر عینک کے مجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا ڈاکٹر صاحب۔۔
ایمرجنسی وارڈ میں اس وقت ڈاکٹروں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا ۔۔ہر شخص حیران تھا ،سامنے ایک مریض پڑا تھا ۔۔ایک ایسا نوجوان جو کچھ دیر قبل موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ میں ہسپتال لایا گیا تھا، بہت زیادہ شور کر رہا تھا درد سے۔۔شورمچانے پر ایک ڈاکٹر نے اسے بیہوش کردیا۔۔جب مرہم پٹی شروع کی تو لڑکے نے بڑبڑانا شروع کردیا۔۔ یہ کوئی اتنی اہم بات نہ تھی کہ ڈاکٹر اس پر توجہ دیتے۔۔پر ایک نوجوان ڈاکٹر اس وقت چونکنے پر مجبور ہوا جب لڑکے کے بے ربط جملے اس نے سنے۔۔۔لڑکا بڑبڑا رہا تھا۔۔۔ صبر جانو، میں روٹی پکا کر آئی۔۔ ۔میں کزن کے ساتھ بیٹھی ہوں پلیز ابھی کال مت کرو۔۔مہمان آئے ہوئے ہیں میں چائے بنانے جارہی ہوں۔۔۔آج بہت تھک گئی۔ پلیز ابھی بات کرنے کا موڈ نہیں۔۔۔میں لڑکوں سے بات نہیں کرتی۔۔بیلنس کم ہے، کارڈ بھی نہیں مل رہا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔نوجوان ڈاکٹر یہ سب جملے سن کر پریشان ہوگیا اور اس کا ہاتھ بے اختیار لڑکے کے سر کا جائزہ لینے لگاشاہدکہ سرپر کوئی ایسی چوٹ تو نہیں آئی جس سے نوجوان کی یادداشت متاثر ہوئی ہو۔۔لیکن سر پہ تو کوئی چوٹ ہی نہ تھی اگر ہوتی تب بھی اس کے علم کے مطابق میڈیکل کی تاریخ میں کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ کسی حادثہ کی وجہ سے جنس تبدیل ہوگئی ہو اور وہ مرد سے زنانی بن جائے۔ڈاکٹر کا گھبرا جانا فطرتی امر تھا۔ اس نے سب ڈاکٹروں سے یہ بات کی۔کچھ دیر میں یہ خبر پورے ہسپتال میں پھیل گئی ۔۔ سب بڑے ڈاکٹر اس مریض کے پاس جمع ہوگئے۔۔ اس کے دماغی ٹیسٹ لیے گئے،سٹی اسکین بھی کیاگیا۔۔ سب رپوٹیں اوکے نکلیں۔ پر مریض کی بڑبڑاہٹ ابھی تک ’’زنانہ‘‘ تھی اور اب سب ڈاکٹر اس کے گرد جمع ہوکر اس کے ہوش میں آنے کے منتظر تھے۔اور جوں جوں وہ ہوش کی وادی کے طرف بڑھ رہا تھا،اس کی آواز و رفتار میں تیزی آرہی تھی، اب تو اس کے منہ سے کچھ ایسے جملے نکل رہے تھے۔۔۔جانو میں ویٹ کر رہی ہوں۔۔۔ابھی آئی۔۔۔بولا نا کل پکچر دوں گی۔۔۔اور کچھ ایسی باتیں بھی تھی جس کی وجہ سے لیڈیز ڈاکٹر کو وہاں سے کھسکنا پڑا۔۔ بالآخر لڑکے کو ہوش آگیا اور اب وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سب کو دیکھے ۔۔ادھر ڈاکٹر منتظر تھے کہ لڑکا اب کچھ بولے تاکہ پتہ چلے کہ مریض کی دماغی حالت کیسی ہے؟؟آخر لڑکے نے بولنا شروع کیا تو وہ بالکل نارمل تھا۔۔ ڈاکٹر حیران تھے کہ پہلے زنانہ جملے اب نارمل ہو کر مردانہ جملے۔۔۔ یکایک مریض لڑکے کا موبائل فون بج پڑا۔۔۔ایک ڈاکٹر نے جلدی سے کال اٹھائی تاکہ جوبھی لائن پر اسے مریض کے بارے میں آگاہ کرسکے تاکہ مریض کے گھر والوں کو اطلاع دے سکیں۔۔۔ فون ریسیو ہوا تو آگے سے آواز آئی۔۔ہائے سوئیٹی، کیسی ہو؟ جانو میسیج نہیں دیکھا تم نے میرا ابھی تک۔۔ ڈاکٹر اس اوباشانہ اندازگفتگو پر حیران رہ گیا اور پوچھ بیٹھا۔۔جی آپ کون؟؟ ڈاکٹر کا اتنا کہنا تھا کہ لائن کٹ گئی۔۔ڈاکٹر نے جلدی سے فون لاگ میں سے آخری نمبر کو ملایا اور اسے بتایا کہ۔۔ یہ لڑکا ہسپتال میں ہے، اس کے گھر والوں کو بتادیں تب آگے سے اچھی خاصی گالیوں کے بعد جواب ملا کہ۔۔اس دو نمبرکو مار دو ہمیں لڑکی بن کر دھوکہ دیا کنجر نے۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔پہلے ہی اس ملک کی سیاست نے قوم کو ذہنی مریض بنایاہوا ہے،رہی سہی کسر قومی کرکٹ ٹیم پوری کردے گی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔