ایف آئی ٹی کے بعد جے آئی ٹی
شیئر کریں
میاں نواز شریف کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ انہیں قومی خزانہ کی ڈکیتی ‘ ناجائز اثاثے بنانے ‘ منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں گرفتارنہیں کیا گیا ‘ پاناما کیس کی کئی ماہ طویل کارروائی نے ان کی پول کھول دی، ان کی کرپشن کی تفتیش کے دوران دس ضخیم والیم تیار ہو گئے اور سزا معمولی ’’جرم‘‘ دبئی کا اقامہ رکھنے پر ہوئی جو کہ در حقیقت کوئی جرم نہیں ہے ۔ پاکستان کی 13 لاکھ ورک فورس متحدہ عرب امارات میں کام کرتی ہے ۔ ان سب کے پاس اقامہ ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے ارکان اسمبلی اور وزراء سے لے کر صنعتکاروں ‘ تاجروں اور دیگر شخصیات کے پاس بھی یو اے ای کا اقامہ موجود ہے ۔ اس چھوٹے سے ’’جرم‘‘ میں سزا سے ان کی جان چھوٹ گئی تھی ۔ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے نا اہل ہونے کی سزا کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے امتحان یا اپنے کیے کا جرمانہ تصور کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلیتے اور اداروں کا احترام پہلے سے زیادہ کرتے لیکن وہ الٹا سوال پوچھ بیٹھے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ عدلیہ سے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کرلی ۔ اس معاملے میں ان کی معافی کی شہرت زیادہ اچھی نہیں ہے جب 1997ء میں مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان اسمبلی ‘ رہنمائوں اور کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کرکے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ (مرحوم) اور دیگر ججوں کو بھاگ کر جان بچانے پر مجبور کردیا تھا چنانچہ عدلیہ نے اپنی مدد کے لیے سیکورٹی اداروں کو الرٹ کر رکھا تھا جس کا عملی مظاہرہ اسلام آباد کی عدالت میں مریم نواز کی پیشی کے موقع پر ہوا جب رینجرز نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر بھی گیٹ بند کردیا تھا ۔
عدلیہ اور اداروں سے تصادم کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج میاں نواز شریف لندن میں چھپے بیٹھے ہیں24اکتوبر کو پاکستان نہیں پہنچے جہاں انہیں 26 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونا تھا ‘ چنانچہ احتساب عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ۔ اقامہ پر سزا کے بعد انہیں ’’محفوظ راستا‘‘ مل گیا تھا لیکن انہوں نے ازخود اس راستے میں کانٹے بچھا دیے ۔ اپنا جسم فگار اورد امن تار تار کرلیا ۔ اسی طرح کی صورتحال متحدہ قومی موومنٹ کے بانی قائد الطاف حسین کو درپیش ہے ۔ اتفاق سے وہ بھی لندن میں قیام پزیر ہیں ۔ ایم کیو ایم کے خلاف 25 سال قبل 1992ء میں ریاست نے ایک آپریشن شروع کیا تھا ۔ بریگیڈیئر آصف ہارون اس کے انچارج تھے ۔ آپریشن کے نتیجے میں پوری ایم کیو ایم زیر زمین چلی گئی اور الطاف حسین کراچی سے لندن منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ اب تک مقیم ہیں ۔ آپریشن کے دوران ایک تحقیقاتی ٹیم ’’ایف آئی ٹی ‘‘ کے نام سے تشکیل دی گئی تھی جو ایم کیو ایم کے گرفتار کارکنان سے تفتیش کرتی تھی ۔ بلوچستان بھی اس کے دائرہ عمل میں تھا ۔ متحدہ کارکنان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل عام بات تھی ۔ ایم کیو ایم کے کارکنان نے ثابت قدمی کے ساتھ جبر و استبدار اور قید و بند کا سامنا کیا اور اپنی جانیں قربان کیں ۔ اسی دوران انتخابات کا اعلان ہوا ۔ ایم کیو ایم حسب روایت کراچی ‘ حیدر آباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے پھر کامیاب رہی اور بتدریج ایک مرتبہ پھر قومی سیاست کا حصہ بن گئی اس دوران اس کی جگہ لینے والی ایم کیو ایم حقیقی بھی حکومت میں شامل رہی جس کے چیئرمین آفاق احمد ہیں ۔ آپریشن کے دوران بھی ایم کیو ایم کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ لانڈھی سے میجر کلیم کا اغواء ہوا۔ کور کمانڈر کو اس کی ایف آئی آر کٹوانے میں تین دن لگے تھے ۔ اس صورتحال میں ریاست نے آپریشن کلین اپ کا فیصلہ کیا اور ایف آئی ٹی جیسا ادارہ کراچی میں سرگرم ہو گیا ۔ اب جے آئی ٹی کا زمانہ ہے ۔ میاں نواز شریف کو ’’فارغ‘‘ اور ’’نااہل‘‘ کرنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائدین ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ بعض حلقوں کو شک ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کا ایم کیو ایم لندن سے رابطہ ہے ۔ جے آئی ٹی اس کی تفتیش کرے گی ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بار بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ 22 اگست 2016ء کے بعد ان کا یا ان کی تنظیم کا متحدہ لندن سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ 22 اگست 2016ء کی شب الطاف حسین کے ٹیلیفونک خطاب میں پاکستان اور اداروں کے خلاف باتیں شامل تھیں ۔ ان پر کراچی پریس کلب پر موجود خواتین اور کارکنان کو مشتعل کرنے کا الزام بھی ہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیو ایم نے اس خطاب سے اظہار لا تعلقی کرتے ہوئے اپنی الگ ایم کیو ایم کی بنیاد 23اگست کو پریس کانفرنس کے ذریعے رکھی تھی ۔جے آئی ٹی بننے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان اس کے رو برو پیش ہوں گے ۔ بیانات ہوں گے ‘ رپورٹ بنے گی ‘ اور متحدہ قائد کے حوالے سے تفتیش کو مزید آگے بڑھایا جائے گا ۔ ایم کیو ایم ایف آئی ٹی کے بعد اب جے آئی ٹی کا سامنا کرے گی ۔ سندھ کی سیاست میں ایم کیو ایم نے 1984ء میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے عروج پر پہنچ گئی ۔ اس کی قیادت 1947ء اور اس کے بعد آزمودہ نہیں بلکہ نو آموز تھی لیکن اسی کے فکرو فلسفہ ان محرومیوں سے جڑا ہوا تھا جو ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک سندھ کی شہری (مہاجر ) آبادی کو درپیش رہی تھیں ۔ ان میں اہم ترین شعبے درسگاہیں اور سرکاری ملازمتیں تھیں جہاں مہاجر آبادی سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا ۔ رفتہ رفتہ یہ محرومیاں ایک طاقتور سیاسی دھارے کی شکل میں سامنے آئیں اور پورا شہری سندھ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہوگیا ‘ آج بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ حال ہی میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں داخلوں کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ داخلے سندھ انسٹیٹیوٹ آف اورل ہیلتھ سائنسز ( بی ڈی ایس) کے لیے کیے جارہے ہیں ۔ اس اعلان میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے علاوہ سندھ کے طلبہ داخلہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ تعلیمی ادارہ کراچی میں قائم ہے لیکن اس شعبہ میں کراچی کے طلبہ پر داخلے کے دروازے بند کردیے گئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت اکثر کہتی ہے کہ کراچی اور اندرون سندھ کی اصطلاع استعمال نہ کی جائے کہ پورے سندھ کو ایک شمار کیا جائے ۔ جب پورا سندھ ایک ہے تو پھر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں کراچی کے طلبہ کو داخلے کیوں نہیں مل رہے ۔ اسی نوعیت کی محرومیاں تھیں جو ماضی میں ایم کیو ایم کے قیام کی بنیاد بنی تھیں ۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد قائم ہوا تھا جس نے عوام الناس اور ملک کی حالت بدلنے کے طویل و عریض وعدے کیے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق نے سب کو کرسی کی جھلک دکھا کر ان کی آنکھیں خیرہ کردیں اور پی این اے تقسیم ہو گیا ۔ قومی جماعتوں کی اس بے وفائی سے شہری سندھ کے عوام بدظن ہو گئے اور جب ایم کیو ایم کی نوجوان اور پرعزم قیادت سامنے آئی تو سب اس کی طرف لپکے ‘ دیکھتے ہی دیکھتے ایم کیو ایم اور الطاف حسین شہری سندھ کی آنکھ کا تارا بن گئے ۔ 1992ء کی ایف آئی ٹی 11 برس تک کام کرتی رہی اور ایم کیو ایم کو ختم نہ کرسکی ۔ 2002ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم پھر جیت گئی ۔ دراصل نا انصافیاں اور محرومیاں بغاوت کو جنم دیتی ہیں ۔ اب ایم کیو ایم کی قیادت کے لیے جے آئی ٹی تیار ہورہی ہے ۔ ایف آئی ٹی سے جے آئی ٹی تک کا سفر ضرور مد نظر
رکھنا چاہئے ۔ ایم کیو ایم کو تقسیم کرکے اس کی طاقت توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جب تک سندھ کی شہری آبادی ( مہاجر) محرومیوں اور نا انصافیوں کا شکار رہیں گے ۔ وہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے اپنی آواز ضرور بلند کریں گے ۔ بنگالیوں کی بغاوت اور بنگلہ دیش کی تشکیل ایک فلم کی مانند ہمارے سامنے ہے ۔ حق داروں کو ان کے حقوق کی ادائیگی اور انصاف کا قیام ہی معاشرے کو مطمئن ‘ مستحکم اور پر امن رکھ سکتا ہے ۔