پاک چین اقتصادی تعاون کے ثمرات عوام تک پہنچائے جائیں
شیئر کریں
جب تک عوام کو روزگار، تعلیم ، علاج کی سہولتوں اور بنیادی ضروریات کی تکمیل نہیں کی جاتی شکوک وشبہات جنم لیتے رہیں گے
ایچ اے نقوی
قوموں کی برادری میں باہمی دوستی کے تعلقات میں اتار چڑھاﺅ آتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے کی دوستی ،دشمنی اور مناقشوں کی نذر ہوجاتی ہے،جس کا اندازہ پاک امریکا تعلقات میں وقتاً فوقتاً آنے والے اتار چڑھاﺅ اورامریکی حکومتوں کی جانب سے پاکستان سے بے اعتنائی برتنے یہاں تک کہ اس پر پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات سے لگایاجاسکتاہے،لیکن پاک چین تعلقات قوموں کے درمیان تعلقات کے اس پیمانے سے ہمیشہ بہت بلند رہے ہیں اور چین وپاکستان نے انتہائی نازک مواقع پر بھی ایک دوسرے کا ساتھ بھرپور انداز میں نبھایاہے۔یہ وجہ ہے کہ قوموں کی برادری میں پاک چین تعلقات مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاک چین تعلقات کاپس منظر
پاک چین تعلقات کی ابتدا 1950 سے ہوئی ۔پاکستان تائیوان سے سفارتی تعلقات توڑ کر عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والے اولین ملکوں میں شامل تھا۔اس وقت سے آج تک دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور قوموں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ترجیح دیتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات ہر طرح کی آزمائش میں پورے اترے ہیں ، اور آزمائش کی ہر گھڑی میں عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کی بے لوث اور دو ٹوک حمایت کرکے خود کو پاکستان کاحقیقی دوست ثابت کیا ہے، عالمی سطح پر پاکستان نے بھی چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو ہر قیمت پر اولیت دی ہے ، اور چین امریکا تعلقات کی بنیاد رکھنے کاسہرا بھی پاکستان کے سر جاتاہے۔
سفارتی اور اسٹریٹجک تعلقات
پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات21 مئی1951 ہی میں قائم ہوگئے تھے،دونوں ملکوں کے تعلقات غیر جانبداری اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے آفاقی اصولوں پر قائم ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دونوںملکوں کے درمیان فوجی تعاون کاآغاز 1966 سے ہوا اور1972 میں دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک اتحاد قائم ہوا جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کا مظہر ہیں، 1979 میں پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون کاآغاز ہوا ،دونوں ممالک کی مضبوط دوستی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت چین پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک اورپاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے ۔چین پوری دنیا کو جتنا اسلحہ برآمد کرتاہے اس کا 47 فیصد حصہ پاکستان خریدتا ہے۔جبکہ حال ہی میں چین نے پاکستان کے سول نیوکلیئر پاور سیکٹر کو بہتر بنانے کیلیے بھی تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
9/11 کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دی اور کئی فوجی منصوبوں اور پراجیکٹ پر باہمی تعاون پر اتفاق کیا۔پاکستان کی اس پالیسی کامقصد اس خطے میں امریکا کے اثر ورسوخ اور امریکا پر پاکستان کے انحصارکو کم کرنا تھا۔جس کے بعد حالیہ برسوں کے دوران مختلف سول اور فوجی منصوبوں کے لیے چین کے ساتھ تعاون کے سمجھوتوں سے باہمی تعلقات میں مزید وسعت پیدا ہوئی ہے۔
فوجی تعلقات
چین نے پاکستان کی دفاعی پیداوار کو وسعت دینے کے لیے کئی منصوبوں میں پاکستان کی بے لوث مدد کی ہے ،حال ہی میں چین نے اپنے چنگدو جے 10 بی طیارے پاکستان کوفراہم کئے ہیں جو کہ امریکا کے ایف16 سی طیاروں کے مساوی بلکہ ٹیکنالوجی اور اس میں نصب راڈار اور اوایل ایس ٹارگٹ سسٹم کے اعتبار سے اس سے بہت بہتر ہیں۔ چین نے پاکستان کو جے ایف ۔17 تھنڈر لڑاکا طیارے ، کے ۔8 قراقرم ایڈوانس تربیتی طیارے تیار کرنے میں تکنیکی مدد فراہم کی۔اس کے علاوہ چین نے پاکستان کو ایروناٹیکل کمپلیکس ،ہیوی انڈسٹریز ٹیکسیلاکے قیام اور پاکستان آرڈی ننس فیکٹری کی پیداوار میں اضافہ کرنے ، پاک بحریہ کے لیے میری ٹائم پروجیکٹ کے قیام اور میزائل فیکٹری قائم کرنے میں بھی پاکستان کی نمایاں مدد اور معاونت کی ،چین پاکستان کو فوجی سازوسامان تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کے علاوہ سائنسی مہارت بھی فراہم کررہاہے ،یہی نہیں بلکہ چین کے مقامی ہونگڈو ایلا۔15 ،خلائی ٹیکنالوجی ،ایواکس سسٹم، الخالد ٹینک وغیرہ کی پاکستان میں تیاری چین کے تعاون واشتراک کی وجہ ہی سے ممکن ہوئی۔عوامی جمہوری چین نے پاکستان کو 1965 کی پاک بھارت جنگ اور1971 کے دور میں اس وقت بھی پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد جاری رکھی جب پاکستان سے دوستی کادم بھرنے اور اس وقت پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون کے معاہدوں میں شریک امریکا نے پاکستان کو ہر طرح کے فوجی سازوسامان کی ترسیل پر پابندی عاید کردی تھی۔
اقتصادی تعلقات
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات تیزی سے توسیع پذیر ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان آزاد تجارت کا ایک معاہدہ موجودہے جس کے تحت پاکستان اورچین کے تاجر ایک دوسرے سے اپنی ضرورت کی اشیاکی آزادانہ طورپر خریداری کررہے ہیںاگرچہ پاکستان اورچین کے درمیان تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں نہیں ہے اور چین سے پاکستان کی درآمدات کی مالیت برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے لیکن دونوں ممالک کے رہنما یہ عدم توازن کم کرنے کے طریقہ کار تلاش کرنے اورپاکستان سے زیادہ اشیا کی برآمد کو یقینی بنانے کی کوششیںکررہے ہیں اورخیال کیاجاتاہے کہ جلد ہی دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تجارتی عدم توازن میں بڑی حد تک کمی آجائے گی۔
پاک چین اقتصادی کوریڈور
پاک چین اقتصادی کوریڈور زیر تعمیر ہے اس سے پاکستان کاچین اور وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ ہوجائے گا اور کاشغر خنجراب اور گوادر شاہراہ اور گوادر کی بندرگاہ جنوبی پاکستان میں چین کا تجارتی مرکز بن جائے گا۔ چین کی زیادہ تر تجارت خاص طورپر تیل کی تجارت گوادر کی بندرگاہ کے ذریعہ ہونے لگے گی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ مثالی تعلقات قائم ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہوتے رہے ہیں اور ہر آنے والا دن دونوں ملکوں کے درمیان قربت کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا ہے ،پاک چین دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے آڑے وقت میں وقتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر جس طرح ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے وہ قوموں کی برادری اور باہمی تعلقات کا روشن باب ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے جبکہ پاکستان زنجیانگ ،تبت اورتائیوان کے معاملے میں چین کے موقف کاحامی ہے۔پاکستان کے ساتھ چین کا تعاون وسیع البنیاد ہے، اور گوادر کی بندرگاہ اور شاہراہ ریشم دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ پاک چین تعلقات کے بارے میںیہ کہنا غلط نہیںہوگا کہ پاکستان اور چین کی دوستی مختلف سماجی نظام اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے ملکوں کے درمیان باہمی یکجہتی،یگانگت،تعاون ، قربت اوررواداری کی بہترین مثال ہے ۔بیشتر بین الاقوامی امور پر دونوں ملکوں کے خیالات میں یکسانیت پائی جاتی ہے ،1962 کی چین بھارت جنگ کے دوران پاکستان نے کھل کر چین کاساتھ دیاتھا۔
پاک چین تعلقات کے بارے میں ان حقائق کے پیش نظر چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے سی پیک یا اقتصادی کوریڈور منصوبے کے حوالے سے چینی رہنماﺅں کی نیتوں پر شک کرنے کی گنجائش باقی نظر نہیںآتی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی رہنما چین سے ملنے والی اقتصادی امداد اور تعاون کا ثمر فوری طورپر عوام کو منتقل کرنے پر توجہ دیں جب پاک چین اقتصادی امداد کی بدولت پاکستان کے غریب عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے گی ،ان کو تعلیم اور علاج معالجے کی بہتر سہولتیں بآسانی ملنا شروع ہوجائےں گی ،ان کو پانی، بجلی ، گیس اور ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کا انتظام ہوجائے گا تو پھر پاک چین تعاون کے بارے میں کسی کو شکوک وشبہات پھیلانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ لیکن اگر حکمرانوں نے پاک چین اقتصادی تعاون کے ثمرات عوام کو منتقل کرنے کے بجائے اسے سرکاری خزانے کو بھرا ہوا ثابت کرنے اور اپنی کامیابیوں کی ڈینگ ہانکنے کے لیے اپنے تک محدود رکھا تو پاک چین اقتصادی تعاون کی راہیں مسدود ہوتی جائیںگی اور ان کے بارے میں شکوک وشبہات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔