سول‘ ملٹری خلیج!
شیئر کریں
مختار عاقل
کوئٹہ پھرلہولہان ہوگیا‘ دوماہ قبل ایسا ہی واقعہ مقامی سول اسپتال میں پیش آیا تھا جہاں دہشت گردوں نے دھماکہ کرکے160بیگناہ شہریوں کو موت کی نیند سلادیا تھا ان میں 80 سے زائد وکلاءبھی شامل تھے جو کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی میت کیلئے جمع ہوئے تھے۔ انہیں ایک دن قبل ہی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا‘ صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے قبل پشاور بھی ایسے ہی حالات کا شکار تھا لیکن اب کوئٹہ مسلسل نشانہ بن رہاہے‘ یہ کون لوگ ہیں جو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کا چہرہ لہو سے دھورہے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ ان خونیں واقعات اور دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے ‘ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی جاسوس کل بھوشن کوئٹہ سے پکڑاتھا۔ اس نے اداروں کے آگے سب کچھ اگل دیا۔ سندھ اور بلوچستان میں اس کا سارا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ اس کی فراہم کردہ معلومات پر کارروائیاں عمل میں لاکر دہشت گردی کے کئی منصوبے ناکام بنائے گئے لیکن دہشت گردوں کے سیل کئی جگہوں پر متحرک ہیں اور اپنا کام دکھا جاتے ہیں کوئٹہ کا حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان ‘ ضرب عضب اور کراچی آپریشن نے دہشت گردوں کو بے دست وپا کردیا ہے۔ ان کارروائیوں میں فوج اور رینجرز نے بڑا جرا¿ت مندانہ اور مجاہدانہ کردار ادا کیا ہے۔ اسی لئے عوام کی ہمدردیاں اور محبتیں ان اداروں کے ساتھ ہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے60شہید زیرتربیت پولیس کیڈٹس کی نماز جنازہ میں وزیراعظم میں نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف دونوں شریک تھے۔ نماز جنازہ پڑھنے کے بعد نوازشریف تو اپنے قافلے سے جاملے لیکن جنرل راحیل شریف انہیں رخصت کرنے کے بعد واپس پلٹے اور شہداءکے ورثاءو لواحقین میںگھل مل گئے۔ آہوں اورسسکیوں کے درمیان جنرل راحیل سب کو گلے لگاکر تسلی دے رہے تھے‘ ایک آواز آئی” سر‘ میرا بیٹا شہید ہوگیا“ دوسرے غمزدہ شخص نے کہا ”سر‘ میرا بھائی ماردیاگیا“ تیسری آواز ابھری”سر‘ میرا اکلوتا بیٹا تھا جسے دہشت گردوں نے شہید کردیا“ وہ جنرل راحیل کے سینے سے چمٹ کر اپنا غم بیان کررہے تھے۔ پاکستان کے سپہ سالار نے ضبط کا بند باندھتے ہوئے غمزدہ لوگوں کو دلاسہ دیا ”میں خود شہید کا بھائی اور بھانجا ہوں“ آپ کی کیفیت سمجھتا ہوں‘ آپ فکر نہ کریں‘ ان ظالموں سے ہم حساب لیں گے۔ آپ کا بیٹا ہمارا بیٹا او ربھائی تھا۔“ جنرل راحیل شریف کی خلوص اور محبت سے سرشار آواز ابھری تو پورا مجمع انہیں تحسین بھری نظروں سے دیکھنے لگا جیسے وہ ایک شفیق باپ اور بھائی کے زیرسایہ کھڑے تھے۔ ایک ضعیف شخص نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی میت تربت لے جانا چاہتا ہے جو کافی فاصلے پر ہے۔ سپہ سالار نے فوری طور پر حکم دیا کہ دور دراز رہنے والوں کیلئے فوری طورپر پرC-130جہاز اور ہیلی کاپٹر مہیا کئے جائیں۔ یہ روح پرور اور جذباتی منظر دیکھ کر سمجھ میں آگیا کہ پاکستان کے عوام سیاستدانوں سے زیادہ اپنی فوج سے کیوں والہانہ محبت کرتے ہیں‘ پاک فوج کو سلام کیوں کرتے ہیں۔ سیاسی بحرانوں‘ کرپشن اور لوٹ مار سے نجات کیلئے کیوں فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ شیخ رشید‘ چوہدری شجاعت‘ چوہدری پرویز الٰہی دور بیٹھ کر زبانی ہمدرد طاہرالقادری اور درمیان میں کھڑی پیپلزپارٹی کی ہمدردی بھی عمران خان کے ساتھ ہے لیکن سب کا الگ الگ ایجنڈا ہے۔ عوام تصادم کی بڑھتی اس صورتحال کوحیرت وتشویش سے دیکھ رہے ہیں ان کی اکثریت سیاستدانوں کی بجائے فوج کے ساتھ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ لوٹ مار پر مشتمل سیاسی نظام لپٹ جائے اور فوج ملک وقوم کوبچانے میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ وہ فوج کے خلاف کچھ سننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ انگریزی اخبار کے رپورٹر سیرل المیڈیا کیس میں ان کی ساری ہمدردی فوج کے ساتھ ہے یہ کیس سامنے آنے کے بعد فوج نے وزیراعظم ہاﺅس میں کسی بھی سیکورٹی میٹنگ میں شرکت سے انکار کردیا۔ سیاسی وعسکری قیادت کا تازہ ترین اجلاس آرمی ہاﺅس میں ہوا ہے۔ جہاں جنرل راحیل شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف ‘ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے کہا کہ واقعہ میں ملوث وفاقی وزیر اور وزیراعظم ہاﺅس کے پریس سیکریٹری کو فوج کے حوالے کیا جائے جن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ فوج نے مریم نوازشریف کی8وائبر کالز پکڑی ہیں جس میں انہوں نے رپورٹر سیریل سے خبر کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔
”خبر لیکس“ اسکینڈل کی برق وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویزرشید اور پرنسپل انفارمیشن افسر راﺅ تحسین علی خان پر گری اور واقعہ کی تحقیقات تک دونوں کو عہدوں سے فارغ کردیاگیا۔ یہ حکومت کی جانب سے فوج کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش ہے۔ ایک طرف عمران خان کی تلوار دوسری طرف تحقیقات کیلئے فوج کا اصرار‘ معاملہ گڑبڑ ہے۔ وزیردفاع خواجہ آصف بڑے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ فوج نہیں آئے گی۔ اسلام آباد میں فوج تعینات نہیں کریں گے لیکن اگر2نومبر کو وفاقی دارالخلافہ کے حالات خراب ہوئے تو پاکستان کی داخلی اورخارجی سلامتی کی محافظ فوج کو مجبوراً قدم آگے بڑھانا پڑے گا۔ گو کہ نواز حکومت نے وفاقی وزیر اوروفاقی سیکریٹری کو عہدوں سے فارغ کرکے فوج کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت نیوزگیٹ اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے۔ اب یہ کام تحقیقاتی کمیٹی کا ہے کہ وہ اصل صورتحال اور حقائق معلوم کرے‘ اس کمیٹی میں آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کے افسروں کو شامل کیاگیا ہے جن کی تحقیقات نتیجہ خےز ہوگی۔
حکومت ابھی ان الجھنوں کی شکار تھی کہ ہفتہ کی شام کراچی کے علاقے ناظم آباد میں مجلس عزا پر فائرنگ کا المناک واقعہ پیش آیا۔ ٹارگٹ کلرز کی فائرنگ سے موقع پر ہی ایک خاندان کے تین بھائیوں سمیت5افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ کراچی میں اس نوعیت کے واقعات 1982ءسے جاری ہیں جب ضیاءحکومت کے دوران سرکاری سرپرستی میں کراچی کے عوام کو فرقہ وارانہ اور بعدازاں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایاگیا تھا اب تک سینکڑوں افراد اور علماءاس سازش کا شکار ہوچکے ہیں۔ تازہ واقعہ کو بھی اس سلسے کی کڑی کہا جاسکتا ہے۔ سیاسی لڑائی کو ماضی میں بھی فرقہ وارانہ رخ دیا جاتا رہا ہے اور ایک بار پھر سیاسی محاذ گرم ہے‘ کوئٹہ اور کراچی کے واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
پیپلز پارٹی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ 1980 کی دہائی میں ضیائی حکومت کے دوران ضیاءالحق کے 5 اوپننگ بیٹسمین تھے جن میں حیدر آباد کے میر علی احمد تالپور‘ ارباب جہانگیر‘ غلام دستگیر خان اور راجہ ظفر الحق شامل تھے۔ 1985 کے عام انتخابات میں ان پانچوں کی شکست کا اہتمام کیا گیا تھا اقتدار کی قربان گاہ میں بھینٹ چڑھایا گیا تھا دسمبر 1984 کے صدارتی ریفرنڈم کو منصفانہ‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ دکھانے کیلئے ان پانچوں کی بلی چڑھائی گئی تھی۔ بعد میں میر علی احمد تالپور کہتے تھے
ہم تو زخمی ہی ہوئے خیر ہوئی
عشق میں جان چلی جاتی ہے
مستعفی وزیر پرویز رشید ہوں یا چوہدری نثار علی خان ان کا معاملہ بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ اقتدار کی چوکھٹ پر تو اورنگ زیب جیسے متقی بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید میں ڈال کر اندھا کردیا تھا۔