محکمہ ماحولیات میں سیپاایکٹ کی دھجیاں، ''ماحول دوستی ''ایوارڈدینے کا گورکھ دھندا شروع
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ نے سیپا ایکٹ کی دھجیاں اڑادیں، ڈی جی سیپا نعیم مغل نے صنعتوں اور صنعتکاروں سے لاکھوں روپے رشوت وصول کرکے ماحول دوستی کے ایوارڈدینے کا گورکھ دھندہ شروع کردیا ، محکمہ کے اعلیٰ افسران نے وزیر ماحولیات محمد اسماعیل راہو کو بھی ماموںبنا گئے۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائر منٹ پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نے ایک نام نہاد این جی او(نیشنل فورم فار ہیلتھ اینڈ انوائرنمنٹ) کے سالانہ ایوارڈ فنکشن میں من پسند صنعتکاروں کو ماحول دوستی کے ایوارڈ دینے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ مذکورہ این جی اوگزشتہ 10 سال سے ماحول دوست صنعت اور ماحول دوست صنعت کار کا ایوارڈ ‘پیسے دو اور اور ایوارڈ لو’ کی بنیاد پر کراچی سمیت سندھ بھر کے صنعتکاروں اور صنعتوں کی انتظامیہ میں تقسیم کررہی ہے ، ایوارڈ تقسیم کرنے کی سرپرستی سیپا کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل کررہے ہیں۔ماحولیاتی ایوارڈ کا فنکشن ہر سال کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کرایا جاتا ہے جس میں صنعتوں کو بذریعہ مارکیٹنگ مہم ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ مذکورہ فنکشن کو کامیاب بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی تعاون کریں تاکہ ماحول دوستی کو فروغ دیا جاسکے اور بدلے میں تمام اسپانسرز کو ایک شیلڈاور سرٹیفکیٹ کی صورت میں ماحولیاتی ایکسلنس ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ ایوارڈ کی صنعتوں کے ذیلی سیکٹرز کے حساب سے اتنی زیادہ کٹیگریز بنائی گئی ہیں کہ اسپانسر کرنے والی تمام صنعتوں میں ایوارڈ بہ آسانی بانٹ دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ سیپا ایکٹ 2014کے مطابق سند ھ کابینہ سمیت کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ ماحول دوستی یا ماحولیاتی قوانین کے احترام کے حوالے سے کسی بھی فرد یا ادارے کو ایوارڈسے نوازے،مذکورہ قانون کی شق6 اور7میں تفصیل کے ساتھ ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کے اختیارات درج ہیں جس میں کہیں ایسا کوئی ذکر نہیں کہ ادارہ یا اس کا ڈی جی کسی بھی فرد یا صنعت یا ادارے کو کسی بھی حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی ایوارڈ یا سند دے سکتا ہو۔ ماحولیاتی پالیسی سازی کے لیے بنائی گئی اعلیٰ ترین اختیاراتی باڈی سندھ ماحولیاتی کاؤنسل کے مذکورہ قانون کی شق 3 اور 4 میں تفصیل سے اختیارات درج کئے گئے ہیں۔ ان میں بھی کہیں ایسا اشارہ تک نہیں ملتا ہے کہ وہ کسی کو بھی ماحولیاتی ایوارڈ یا سند دے سکتی ہو۔رواں سال بھی ماحولیاتی ایکسلنس ایوارڈز ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں دیے گئے اور اس بار ڈی جی سیپا نعیم مغل نے حال ہی میں ماحولیات کا قلمدان سنبھالنے والے وزیر اسماعیل راہو کو ان ایوارڈز کی قانونی حیثیت بتائے بغیر ایوارڈ فنکشن کا مہمان خصوصی بنوادیا تھا، جنہوں نے مذکورہ ایوارڈز کی حقیقت جانے بغیر فنکشن میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور اپنی شرکت کا تصویری ٹوئٹ بھی کردیا تھا۔ایک اور ماحولیاتی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس سال ماحولیاتی ایکسلنس ایوارڈ میں میں72کمپنیوں نے اسپانسر شپ دی تھی، جن کی اوسط اسپانسر شپ کم سے کم 2 لاکھ روپے بھی لگائی جائے تو اسپانسر شپ کی رقم ڈیڑھ کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے، جبکہ تقریب کا پورا خرچہ دس لاکھ سے زائد ممکن نہیں۔ ذرائع کے مطابق ایوارڈ فنکشن کے لیے موصول ہونے والی رقم کا نہ آڈٹ کرایا جاتا ہے اور نہ ہی ان ایوارڈز کی کسی بھی سطح پر رجسٹریشن ہے جس کی روشنی میں اس پورے سلسلے کو ماحولیاتی بھتہ خوری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔