بلوچستان میں بگاڑ کی سیاست !!
شیئر کریں
وزیراعلیٰ بلوچستا ن جام کمال خان عالیانی نادیدہ ہیں نا ہوس میں مبتلا ہیں۔ اپنی جماعت میں جام کمال ہی قیادت اور وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے اہل اور صلاحیتوں کی بدولت ممتاز ہیں۔انہیں اپنی صفوں سے مشکلات اور تخریب کا سامنا ہے۔ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی کی رقابت اول روز سے عیاں ہے۔ بعض دوسرے وزارتوں پر متمکن ہوکر مفادات سمیٹنے کے ساتھ کینہ و عناد بھی پالے رکھے ہیں۔ بالآخر ان کے باطن ظاہر ہوگئے۔ کوئی مے نوشی کی حالت میں مغلظات کہتا کہ جام، درمیان میں نہ ہوتے تو وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہوتے۔ کوئی وزارت چھوڑتا ہے تو کوئی کابینہ سے نکلنے کی دھمکی دیتا ہے۔ بعض دوسرے بھی حرکت میں ہیں ۔ ٹی وی واخبارات کے نمائندے طلب کئے گئے ،جہاں بعض نے سطحی گفتگوکے ساتھ جام کمال کی برائیاں بیان کیں۔ سو انہیں وزیراعلیٰ کے خلاف بولنے اور لکھنے کی شے دی گئی۔ دراصل جام کمال کے مخالفین اور نادیدہ کردار کے مابین اشتراک کار، ارادوں کا اظہار اور معقولات میں مداخلت عیاں ہوئی ہے ۔ ماضی قریب وبعید میں بھی بلوچستان کے اندر حکومتوں کو گڈی گڈیوں کا کھیل بنایا جاچکا ہے۔تماشا لگانے کی یہ مکروہ سعی اسی کا تسلسل ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف اس سیاہ کھیل میں دیدہ و دانستہ شامل ہے۔ جبکہ حزب اختلاف کے بڑے صبح شام سیاست میں عدم مداخلت، قانون ، آئین ، پارلیمنٹ کی بالادستی جمہور کی حکمرانی کے گن گاتے رہتے ہیں۔ کسی صاحب نے اپنی اپنی جماعت کے پارلیمانی رہنمائوں کی گوش مالی نہ کی کہ وہ کس اصول او ر کس کے اشارے پر مہر ے بنے ہوئے ہیں۔ کم از کم مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی سے اس بگاڑ کے تدارک کی توقع کی جاتی ہے۔ سردار اختر مینگل سے اس لیے نہیں کہ وہ صوبے میں نیشنل پارٹی، نواز لیگ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی حکومت کے خلاف پہلی رو میں کھڑے ہوکر ساتھ دے چکے ہیں۔ یقینا جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی اس گناہ میں شامل تھیں ،جس کے نتیجے میں عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے۔اس گناہ نے باپ پارٹی کو جنم دیا ۔
غرضیکہ 14ستمبر2021ء کو اسکرپٹ کے عین مطابق صوبے کی اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف کے23میں سے16ارکان نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ کھیل کے تحت اسپیکر عبدالقدوس بزنجو ، صوبائی وزیر بہبود آبادی و خوراک سردار عبدالرحمان کھیتران، سردار صالح بھوتانی، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ماہی گیری اکبر اسکانی، پارلیمانی سیکریٹری بشریٰ رند، محمد خان لہڑی، تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند، بی این پی عوامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر اسد بلوچ بھی متحرک ہوگئے ۔گویا حزب اختلاف اور ان کے درمیان ساز باز اور گٹھ جوڑ مزید مبہم نہ رہی۔صوبہ اضطرابی کیفیت کی لپیٹ میں آگیا۔سیاسی و صحافتی حلقوں میںبات عام ہوئی کہ باپ پارٹی کے اندر سے بغاوت ٹھنڈ اکرانے انٹر سروسزانٹیلی جنس کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، میجر جنرل شعیب اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد فرید کو آنا پڑا۔ خالد فرید ا س جماعت کے خالق ہیں۔ پیش ازیں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی معیت میں سینیٹر سرفراز احمد بگٹی،سینیٹر منظور کاکڑ ،سینیٹر احمد خان خلجی،سینیٹر نصیب اللہ بازئی ،سینیٹر عبدالقادر ،اراکین قومی اسمبلی خالد مگسی اور اسرار ترین بھی پہنچ گئے۔ چناں چہ مختلف سطح پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔۔اس طرح ان حکام کے روابط کے بعد اتنا ہوا کہ حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کی درخواست گورنر نے تکنیکی وجوہات کہہ کر واپس کردی۔ دیکھا جائے تو عدم اعتماد کے شور و غوغا بپا کرانے سے صوبے کے اندر مایوسی پھیلی اور عوام نے اعصابی طور منفی اثر لیا ہے۔درحقیقت وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی صورت میں صوبے کے اندر جاری ترقیاتی عمل میں یقینی ٹھہرائو کے با عث لامحالہ صوبہ نقصان سے دوچار ہوگا ۔ ذیل میںحزب اختلاف اپنے دعوئوں اور بیانیے میں سچی نہیں رہی ہے،نہ ا ن سے مصالحت کار مخفی ہیں ۔ یہ امر بھی پوشیدہ نہیں کہ جام کے ہٹائے جانے کے بعد کس کو کیا حصہ دینے اور دلانے کا سمجھوتہ ہوا ہے ۔ خامی جام کمال میں بھی ہوگی ،یقینا وہ مبرا بھی نہیں۔ مگر قصہ یہ ہے کہ مخالفین درحقیقت کُھلی من مانی چاہتے ہیں۔ برہم ہیں کہ ان کی فائلیں بغیر دیکھے پڑھے کیوں آگے بڑھنے نہیں دی جاتیں۔ کوئی زیر دست ڈپٹی کمشنر کا خواہاں ہے، کوئی ضلع کے ڈی پی او کا تبادلہ چاہتا ہے۔ کسی کو پرکشش وزارت نہ ملنے کا دکھ ہے۔ کوئی سرکاری محکموں میں من پسند افراد کی بھرتی چاہتا ہے ۔آسکانی کو سندھ سے بلوچستان کے سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لیے غیر قانونی ٹرالرز کی آمد کی اجازت دینے سے روکا گیا۔ کہ قدغن سے یومیہ لاکھوں روپے کا دھندہ بند ہوا۔ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔بڑے منصب پر فائز یہ شخص لے تو چکے ہیں، مگر دے نہیں پائے ہیں۔حال یہ ہے کہ ایک بار سردار آپس میں اس بنا اُلجھ پڑ ے کہ کیوں اس کی کرسی وزیر اعلیٰ جام کمال کی کرسی کے ساتھ نہ لگائی گئی ۔ تخلیق کار نے اول تو جام کمال کو حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے پر مجبور کیا۔ دوئم ان کے خلاف اسے استعمال بھی کررہے ہیں۔
در حقیقت اگر جام کمال حزب اختلاف سے معاملہ بہتر رکھتے بھی تو سب سے پہلے ان کی پارلیمانی جماعت ہی واویلا شروع کرتی۔ عبدالقدوس بزنجو وغیرہ اس طرز عمل کو ان کے خلاف بطور کارڈ استعمال کرتے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی بھی اس بازی میں شامل شمار کئے جاتے ہیں کہ جام کمال ان کی بے جا سفار شیں لائق اعتنا نہیں سمجھے ہیں۔ بہر حال وزیراعظم عمران خان حکومت نہ گرانے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ صوبے کے اندر اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کو بھی مزید کسی فساد کا حصہ نہ بننے کی تنبیہ کریں۔البتہ جام کمال خان پر عزم ہیں ۔ 27ستمبر کو افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ امید ہے کہ مزید کسی کو صوبہ بلوچستان اپنی خواہشات و اغراض کے حصول کے لیے تماشا گاہ نہ بننے دیا جا ئے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔