میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے امریکہ کو عملی اقدام کرنا ہوں گے

پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے امریکہ کو عملی اقدام کرنا ہوں گے

ویب ڈیسک
هفته, ۳۰ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ہندوستان ٹائمز نے گزشتہ روز کی اشاعت میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارتی ایجنسی را اور کالعدم تحریک پاکستان کے آپس میں گہرے تعلقات ہیںاوران تعلقات پر امریکہ کو شدید تحفظات ہیں اور امریکہ نے بھارتی خفیہ ایجنسی اور تحریک طالبان پاکستان کے تعلقات کم کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اخبار کے مطابق تعلقات کا انکشاف پہلی بار طالبان کمانڈر احسان اللہ احسان کی گرفتاری کے بعد ہوا اور امریکہ نے اس معاملے میں پاکستان کے موقف کو درست تسلیم کرلیا اور کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھارت کے دورے میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت سے را اور تحریک طالبان کے تعلقات کا مسئلہ بھی اٹھایا وربات چیت کے دوران تحریک طالبان پاکستا ن اور را کا تعلق احسان اللہ احسان کی گرفتاری کے بعد اس کے ویڈیو اعترافی بیان بھی سامنے آیا جس میں اس نے تسلیم کیا تھا کہ ’’وہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔‘‘
ہندوستان ٹائمز کی اس خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے بعد پاکستان کے غیر متوقع شدید ردعمل نے امریکہ کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے اور اب وہ اس حوالے سے اس قسم کے حربوں کے ذریعہ پاکستان کویہ باور کرانے کی کوشش کررہاہے کہ امریکہ کو پاکستان کے تحفظات کااحساس ہے اور وہ بھارت کو پاکستان کے حوالے سے اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دبائو ڈال رہاہے ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے امریکہ کی ہر ممکن مددکی۔ اس تعاون اور معاونت کے نتیجے میں پاکستان ایک سرے سے دوسرے سرے تک خونی دھماکوں سے گونجتا رہا۔ امریکہ کے مفادات کی اس جنگ میں پاکستان کے ایک لاکھ کے قریب شہری اور ہزاروں فوجی شہید ہوئے اورپاکستان کو125رب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا لیکن آج مریکہ پاکستان ا کا دشمن اور بھارت جس نے دہشت گردی کی جنگ میں ایک تنکا نہیں ہلایا امریکہ کا فطری اتحادی بنا ہواہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت کو دیا جانے والا اسلحہ بالآخر پاکستان کے خلاف استعمال ہونا ہے، امریکہ بھارت کو جدید ترین اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ پچھلے دس برس میں امریکہ اور بھارت کے درمیان عسکری ساز وسامان کی خرید وفروخت کا حجم 15ارب ڈالر یعنی 1500کروڑ ڈالر ہوچکا ہے۔ بھارت امریکہ کے تعاون سے اپنے دفاع کو جدید خطوط پر استوار کررہا ہے۔ اس مد میں بھارت اگلے سات برس میں 30ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان30 ارب ڈالر میں سے بھارت 10 ارب ڈالر امریکہ سے ایٹمی سازوسامان اور مواد کی خریداری پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ اس سودے میں امریکیوں کو 15ہزار ملازمتیں بھی حاصل ہوں گی۔ بھارت امریکہ اور جاپان کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں بھی کررہا ہے جن میں امریکہ کے بڑے بڑے دیو ہیکل جنگی طیارہ بردار بحری جہاز شامل ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جب امریکہ کے دورے پر تھے تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھارت کو ’’گارڈین ایئر کرافٹ سسٹم‘‘ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایسے طیارے ہیں جن میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا اور ان میں سمندروں کی سطح پر رواں بحری ٹریفک کو ریکی کرنے والے ریڈار نصب ہوتے ہیں۔ جن کا مواصلاتی رابطہ ساحلی ہیڈ کواٹر سے ہوتا ہے۔ بھارت اس قسم کے 22جاسوسی طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ڈیل کی لاگت کا تخمینہ دو بلین امریکی ڈالر ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے بھارت کو MQ-9B جاسوسی طیارے فروخت کرکے حقیقی خوشی ہوگی۔ امریکی بوئنگ اور لاک ہیڈ طیارہ ساز کمپنیاں پہلے ہی بھارت کو F-16 اور F-18 طیاروں کی پیشکش کرچکی ہیں۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان یہ تعلق محض عسکری معاملات اور اسلحہ کی خریداری تک محدود نہیںہے بلکہ امریکہ خطے میں بھارت کو مرکزی اہمیت کا حامل ملک دیکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں آنے اور قدم جمانے کا پورا پورا موقع دیا۔ جس سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے افغان سرزمین کو بے محابا پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے اکثر دہشت گرد حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھارت ہے۔ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کے خلاف پاکستان میں نفرت کی فضا پیدا کرنے کے لیے امریکہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا اور یہمہممکمل طور پر بھارت کے ساتھ رابطیکے تحت چلائی گئی۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا یکا یک انکشاف ہوا ہو۔ کیا امریکہ ان تعلقات سے بے خبر تھا؟ ہرگز نہیں۔ پھر پاکستان کے لیے امریکی ہمدردی کا تاثر دینے کی کیا ضرورت ہے؟
پچھلے دنوں صدر ترمپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بھارت امریکہ سے تجارت میں اربوں ڈالر کما رہا ہے لہٰذا وہ افغانستان میں کردار ادا کرے۔ افغانستان میں امریکہ کے پاس زیادہ مواقع نہیں۔ بھارت افغانستان میں امریکہ کی مدد کرے اس حوالے سے بھارت کا کردار بالکل بکواس ثابت ہوا ہے۔ امریکہ افغان مجاہدین سے مذاکرات کا خواہاں ہے۔ تاکہ فتح یاب مجاہدین کو مذاکرات کی میز پر شکست دی جاسکے۔ افغان طالبان کو اس حکومت اور سسٹم کا حصہ بننے پر مجبور کیا جاسکے جو امریکہ کا وضع کردہ ہے۔ افغان مجاہدین اس سسٹم کا حصہ بن گئے تو رفتہ رفتہ وہ اپنی طاقت کھونا شروع کردیں گے اور جو مقصد امریکہ 16 برس سے جاری جنگ میں حاصل نہیں کرسکا وہ حاصل کرسکے۔ لیکن اس مقصد کے حصول میں بھارت امریکہ کے لیے ایک مریل گھوڑے سے سوا کچھ ثابت نہیں ہوا۔
امریکہ کئی برس سے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹ حکمرانو ں کے ذریعے طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے اشتراک سے ہونے والی اب تک ایسی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ افغانستان میں جو کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے بھارت کبھی اس کا اہل نہیں ہوسکتا ۔ بھارت افغانیوں کو کیا دے سکتا ہے، فحش فلمیں اور چند تعمیراتی پروجیکٹ۔ افغان طالبان 16برس گزرنے اور امریکہ کی افغانستان میں آگ اور خون کی بارش کے باوجود آج بھی افغانستان کی سب سے بڑی طاقت اور افغانستان کے وسیع رقبے کے مالک ہیں۔ امریکہ اور اس کی تشکیل کردہ افغان حکومت کی عمل داری کابل تک اور افغان حکمرانوں کی حکومت ان کے محلات تک ہے۔16 سال کی ناکامیوں کے باوجود امریکہ تاحال مایوس نہیں ہوا۔ کیونکہ امریکہ کا جانی نقصان بہت کم ہوا ہے۔ بہت کم تابوت امریکا گئے ہیں۔ نقصان اتحادی افواج اور پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ اس لیے آج بھی وہ افغانستان کو تسخیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کبھی وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا نظر آتا ہے، کبھی پاکستان کو دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والا ملک باور کراتا ہے، کبھی صدر ٹرمپ پاکستان کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں، کبھی امریکہ پاکستان پر پابندیاں لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی ڈرون حملہ کرتا نظر آتا ہے۔ غرض ہر حیلے سے امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے تاکہ اس کے مقاصد کی تکمیل کرسکے۔ امریکا جانتا ہے کہ خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے۔ لہٰذا پاکستان کو ڈھب پر لانے اور اپنی مطلب براری کے لیے ہر حیلہ استعمال کررہا ہے۔ آج کل یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ عسکری اور سیاسی طاقتوں نے امریکہ کے مقابل سخت موقف اختیار کر لیا ہے، ڈومور کی مزید تعمیل سے انکار کردیا اور وہ افغان طالبان سے قربت اور ہمدردی رکھتے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی خبر میں پاکستان سے متعلق جو ہمدردی کا عنصر پایا جاتا ہے وہ بھی اسی سمت ایک کوشش ہے۔ ورنہ امریکہ کو پاکستان میں دھماکے کرنے والی ایک جماعت کی سرگرمیوں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے جب کہ وہ جماعت اس کی اپنی تخلیق ہے۔
اگر امریکہ پاکستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے منفی اثرات کاخاتمہ چاہتاہے اور پاکستان کے ساتھ حقیقی معنوں میںورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھنا چاہتاہے تو اسے افغانستان میں بھارت کے کردار کومحدو کرنے اور افغانستان کی حکومت کو اپنی سرحدوں کی نگرانی اس حد تک موثر بنانے پر مجبور کرنا پڑے گا جب تک امریکہ پاکستان پر افغانستان سے ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں پر موثر کنٹرول کے لیے بھرپور اقدام نہیں کرتا اورافغان حکومت کو بھارت کی ڈفلی پر ناچنے کے بجائے زمینی حقائق تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے پر مجبور نہیں کرتا پاکستان اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا جو پاکستان سے زیادہ امریکہ اور افغانستان کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔
امید کی جاتی ہے کہ امریکی حکام اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدام پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں