کشمیر کی صورتحال۔ ہڑتال مضر یا مفید (قسط اول)
شیئر کریں
الطاف حسین ندوی
زندہ قوموں کی زندگی کارازصرف ’’خود احتسابی‘‘میں مضمر ہے ۔جو قومیں احتساب اور تنقید سے خوفزدہ ہو کر اسے ’’عمل منحوس‘‘خیال کرتی ہیں وہ کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتی ہیں ۔احتساب ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی فرد،جماعت اور تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا صحیح اور درست اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ،اسی ایک عمل سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ ہم ایک مقصد میں کتنا کامیابی کی جانب اور کتنا ناکامی کی طرف جارہے ہیں ۔جب امت مسلمہ کا ستارہ آسمان عالم پر چمکتا تھا تب اور بعد میں بنیادی فرق یہ رہا کہ امت مسلمہ میں تنقید کرنا ’’جرم عظیم‘‘ بن گیا۔کوئی لیڈر،کوئی دانشور،کوئی حاکم تو درکنار اب ایک عام انسان بھی اسے برداشت نہیں کر پاتا ہے اور اب عرصۂ دراز سے روایت یہ بنی ہوئی ہے کہ ہر منہ پھٹ کو بری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور بسااوقات اس کو ’’ہدایت‘‘کے راستے پر لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں تک کو استعمال میں لایا جاتا ہے ۔زمانہ قدیم سے لیکر اب تک یہ روایت قائم ہے۔ جدیدترین سائنسی دوراور نام نہاد ’’آزادیٔ اظہار رائے‘‘کے اس دور میں بھی تنقید کوبرداشت کرنے کا مادہ ہی ختم ہو چکا ہے ۔زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ’’وکی لیکس ‘‘ نامی ویب سائٹ کے ایڈیٹر کو برطانیہ نے چند ’’مشکوک راز‘‘افشأ کرنے کے نتیجے میں ایک من گھڑت کیس میں پھنسا کر گرفتار کر لیا۔دنیا کے بہت ہی طاقتور ملک چین میں حکومت کے خلاف لکھنے کی کوئی ہمت ہی نہیں کرتا ہے اور کئی لوگ جیلوں میں بند ہیں ۔مشرف نے اپنے دور اقتدار میں صحافیوں کو غیر ملکی آلہ کار قرار دیدیا ۔پاکستان طالبان نے کئی صحافیوںاور دانشوروں کو قتل کردیا ۔مسلم دنیا میں اس حوالے سے سب سے زیادہ شہرت جس شخصیت کو ملی وہ ’’ سید قطب شہید ؒہیںجنہیں جما ل عبدالناصر نے ’’معالم فی الطریق‘‘نامی عالمی شہرت یافتہ کتاب کے ایک جملے پرتختہ دارپر چڑھا دیا تھا۔
ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہماری مظلوم سرزمین میں بھی کئی صحافیوں کو قتل کردیا گیا اور کئی قلمکار آج بھی خوفزدہ ہیں ۔ آج حق لکھنا جرم بن گیا ہے ،حکومت اور قومی لیڈروں کی ثناخوانی اور قصیدہ گوئی کرنا قابل تعریف اور مستحسن کام بن چکا ہے۔ مجھے بھی بار بار نئے نئے بہانے تراش کر صرف اسی لیے گرفتار کیا گیا کہ میں لکھنے میں رعایت نہیں برتتا ہوں اور پھرظلم یہ کہ اس جرم کو دوسرا ’’حسین نام‘‘ دیکر مجھے پابند سلاسل رکھنے میں بعض لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ حکومتی ظلم ایک الگ داستان ہے مگر ہمارے اپنے بھی اس گناہ میں کچھ کم ملوث نہیں ہیں ۔کشمیر کے کئی اخبارات پر ’’اپنوں‘‘نے حملے کرائے ہیں ، میں خود ایک حملے کاچشم دید گواہ ہوں اور پولیس ریکارڈ میں میرا نام بطور گواہ آج بھی باضابط درج ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لکھنے والے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہوتے ہیں ان کے اندر بے شمار خامیاں اور کوتاہیاں ہیں اور ہو سکتی ہیں ۔ ان میں بعض بہت زیادہ غلط بھی ہو سکتے ہیں مگر قلم کا جواب قلم سے دیا جانا چاہیے، گولی،گرفتاری اور لاٹھی سے نہیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک صاحب نے کشمیر میں ایک اخبار پر حملہ کرایا اور پھر جب وہ پاکستان کی یاترا کے دوران ’’جیوٹی وی‘‘کے ایک پروگرام میں شامل ہوئے تو وہاں ان سے حملے کی بابت پوچھا گیا تو وہ صاحب صاف مکر گئے، حالانکہ ایک دنیا جانتی ہے حملہ انہی صاحب نے کرایاتھا۔قلمی تنقید یا مخالفت کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ ناقد بدنیت ہے اور کسی ایجنسی کی پیداوارہے یا اسے مراعات دیکر اس کے لیے آمادہ کیا گیا ہے ( حالانکہ اس بدبختی سے بھی انکار ممکن نہیں)۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ کشمیر کے پرنٹ میڈیامیں چھپنے والی تنقید کا زیادہ تر تعلق ’’ایجنسی وار‘‘سے کم اورفکری اختلافات سے زیادہ ہوتاہے اور اس فکری اختلاف کی آڑ میں ہم لوگ ایک دوسرے کی غلطیوں کو بے نقاب کرنے اوربازار میں لانے کے لیے بہت بے تاب ہوتے ہیں ۔اورجس سے فکری اختلاف ہوتاہے اس کی ایک بھی غلطی ہاتھ لگتے ہی وہ کوہ ہمالیہ بنا دیا جاتا ہے اور اس کے برعکس ہمالیہ جیسی غلطی کو ریت کا ذرہ ثابت کرنے میں بھی قلمکاراور صحافی اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔
آج کل اسی فن کا مظاہرہ بہت خوب ہو رہا ہے ، ایک طرف حکومت نے اپنا نشانہ ایک خاص طبقے کو بنارکھا ہے تو دوسری طرف کشمیر کی صحافتی برادری بھی موسمی تبدیلیوں سے متاثر نظر آتی ہے حالانکہ یہ اس کا وتیرہ نہیں رہا ہے ۔کچھ عرصے سے ہم اس وتیرے کی کثافت بری طرح محسوس کرتے ہیں ۔ہڑتال کشمیر کے اہل دانش کا موضوع گذشتہ بیس سال سے رہا ہے ۔اس کے کشمیر کی معیشت پر بوجھ سے انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس بات سے انکار ممکن ہے کہ کشمیر کی کمزور معیشت میں یہاں کا غریب عوام بہت بری طرح متاثر ہو جاتا ہے بالخصوص یومیہ مزدوری کرنے والے حضرات ؟؟؟نوے کے عشرے سے لے کر اب تک یہاں سینکڑوں ہڑتالیں ہوئی ہیں ۔ ابتدأ میں یہ ہڑتالیں ’’مجاہدین‘‘ کراتے تھے ،حریت کے وجود میں آنے کے بعد ہڑتالیں کرانے کا سارا پروگرام انھوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیااور اس طرح یہ کام اب تک انہی کے احکام پر جاری ہے۔ 2008 ء اور 2010ء میں یہاں ریکارڈ ہڑتالیں ہوئیں اور 2010ء کے بعد اب 2016ء نے گزشتہ سارے ریکارڈ توڑدیے، اس سال کی ہڑتال آج کل ہر عام و خاص کے لیے موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے ۔ایک خاص طبقے کو اس کے قبیح پہلو پیش کرتے ہوئے اس لیے لذت محسوس ہورہی ہے کہ یہ ہڑتالیں سید علی گیلانی کی قیادت میںہو رہی ہیں اور ان حضرات کو چونکہ حریت کے ساتھ فکری ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مشہوری ملی ہے لہذا بعض لوگ ان کی تنقیدوں کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہڑتا ل جیسے اہم ترین مسئلے پر بحث کرتے وقت اکیلے سید علی گیلانی کو ذمے دار ٹھہرانے کی بجائے وہ تمام تر حالات مدنظر رکھنے چاہییں جو مسلسل ہڑتال کا باعث بنے یا بن رہے ہیںاور پھر یہ بھی نہیں بھولنا چا ہیے کہ8جولائی 2016ء کو برہان وانی کی شہادت کے بعد جو صورتحال سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادتوں سے پیدا ہوئی اور اب تک جاری ہے اس میں سارا بوجھ حریت کے کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہیے ۔
ہڑتال کی ابتدأکب اور کیسے ہوئی ساری دنیا جانتی ہے مگر نامعلوم بعض لوگوں کی یہ عادت کیوں بنی ہے کہ وہ حالات کے اصل رخ کو پیش ہی نہیں کرتے ہیں یا پیش کرتے وقت تحریف سے کام لیتے ہیں حالانکہ یہ صحافت نہیں بلکہ ایک قسم کی بد دیانتی ہے ۔گیلانی صاحب نے متحدہ حریت کی تائید پر برہان کی شہادت کے بعد ہڑتال کی اپیلیں شروع کیں مگر حالات کی حدت اتنی شدید تھی کہ انکی جانب سے اپیل نہ کرنے پربھی یہ سلسلہ نہ رکتا ۔کیا یہ درست نہیں ہے کہ جب سید صلاح الدین نے2010ء میں ہڑتالوں کو روکنے کی بات کی تو ان کے پتلے سر ینگر میں نذر آتش کر دیے گئے؟ نوجوان آتش غضب کا استعارہ بن چکے ہیں بسا اوقات یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ گیلانی صاحب نے ہڑتال نہ رکھنے کے جو اوقات مقرر کر رکھے ہیں ان میں بھی نوجوانوں زبردستی ہڑتالیں کراوتے ہیں۔اصل میں کشمیر کی ساری لیڈر شپ،علماء ،صحافی اور ہم قلمکار اس بات کے ذمہ دار ہیں جنھوں نے قوم کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اگر 2008ء اور 2010ء میں ہم نے ہڑتال ختم نہ کی ہو تی تو شاید بھارت ریاست جموں و کشمیر سے دم دبا کر بھاگ جا تا۔۔۔۔۔ ناقدین 2008ء اور2010ء میں لکھے گئے سبھی مضامین از راہ کرم دوبارہ نکال کر پڑھنے کی زحمت گوارا کریں تو انھیں پتا چلے گا کہ انہی کے ’’رشحات مبارکہ‘‘ کے نتیجے میں ہی یہ مظلوم قوم 2008ء اور 2010ء کے سالوں کو آزادی کے سال قرار دینے لگی تھی حالانکہ ایسا نہیں تھا ۔دانشور حضرات خود حالات کے رحم وکرم پر اپنی کشتیاں ڈال کر الفاظ و اصطلاحات کا دریا بہاتے ہیں ۔
ہڑتال کے مضمرات سے کسی بھی صاحب ہوش انسان کو انکار نہیں اور اگر کوئی آج کے معاشی ترقی کے دور میں ایسا کہتا ہے تو یہ اس کے بیوقوف اور احمق ہونے کی بڑی دلیل ہے پھر یہ کیوں اور کیسے فرض کر لیا گیا ہے کہ گیلانی صاحب ہڑتال کے برے اثرات کو محسوس ہی نہیں کرتے ہونگے۔گیلانی صاحب ہی نہیں بلکہ یہاں کی ساری قیادت ہڑتال سے کشمیر کی کمزور معیشت اور تعلیم پر مرتب ہونے والے برے اثرات کو بخوبی محسوس کرتی ہے ۔ہڑتال اپنی ذات میں بری نہیں یہ ایک مؤثر طریقہ احتجاج ہے مگر اس کے مضر اثرات کو ختم یا کم کرنے کی ذمہ داری سے کوئی لیڈر یا دانشور بری الذمہ نہیں کہ ہم اس کے قبیح پہلو کو پیش کرتے وقت صرف لیڈرشپ کو ذمہ دار قرار دیدیں ۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر گیلانی صاحب ہڑتال کے خراب پہلو سے واقف ہیں تو انھوں نے اسے کیوں جاری رکھا اس سلسلے میں مجھے سب سے پہلے کشمیر میں رہنے والے دانشوروں ، قلمکاروں اور صحافیوں سے شکایت ہے کہ قیادت سے قبل وہ اپنی اصلاح کرلیں، اس لیے کہ یہ لوگ بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے ہیں ۔ہڑتال سے ہونے والی تباہی اور ان سے بچنے کی تجاویز دینے کی ضرورت جب تھی تب یہ لوگ خاموش رہے اور جب وہ اختتام کو پہنچی تب انھیں اس سے ہونے والی تباہی نظر آنے لگی ۔۔۔تعریفوں کے قابل بس اللہ کی ذات ہے البتہ میں آج یہ بتانے میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ میں نے 2010ء کی ہڑتال میں نا صرف اس کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور بربادی کو کئی اخبارات کے صفحات پر لکھابلکہ ہڑتال سے تعلیم اور معیشت کو ہونے والے نقصان کے بچاؤ کی چند تجاویز بھی پیش کیں ،اتنا ہی نہیں میں بطور خود محترم گیلانی صاحب کے گھرگیا اور انھیں اپنے طور پر حالات سے باخبر کیا اس کے چند روز بعدسابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر شیخ محمد حسن صاحب بھی چند تجاویزلیکر گیلانی صاحب کے پاس گئے اور اللہ کا فضل یہ کہ میری لکھی گئی تجاویز سے ان کی تجاویزکافی حد تک مماثلت رکھتی تھیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ گیلانی صاحب اور ان کی دوسری چودہ اکائیوں نے ان کواپنانے کی بجائے قومی سطح پر ہونے والی ایک سوپچیس شہادتوںاور نوجوانوں کے جذبات کے عین مطابق ہڑتال جاری رکھی۔
یہ ایک المیہ ہے کہ کشمیر کی تحریک میں دانشوروں کو ابتدأ سے ہی کو ئی کردار تفویض نہیں کیا گیا وہیں یہ بھی ہمالیہ جیسا ناقابل تردید سچ ہے کہ کشمیر کے دانشوروں نے سو فیصد اپنے آپ کو تحریک سے الگ رکھا اور عسکریت تو عسکریت حریت کانفرنس کے ساتھ آزادی کے’’ یک نقاطی قومی کاز‘‘ پر بھی کوئی رابطہ رکھنا گوارا نہیں کیا سوائے چند ایک کے جو اخبارات میں لکھنے لکھانے تک ہی محدود ہیں ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حریت اپنی صوابدید کے مطابق آزادی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ایک پروگرام پیش کرتی ہے جس میں بہت ساری غلطیاں اور خامیاں موجود ہو تی ہیں اور خامیاںموجود ہونے کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے تو کافی دیر کے بعد تنقیدی ’’چیخ و پکار‘‘کا کیا مطلب ؟؟؟جو کام آج کیا جا نا چا ہیے وہ کام ہم لوگوں کو بیس سال بعد یا دآتا ہے یہ خود ہمارے قومی نکمے پن کو ظاہر کرتا ہے ۔ہڑتال کے خلاف جو شور آج برپا ہے اس پر تحریک کے ابتدائی ایام میں ہی غور کرنے کی ضرورت تھی ۔
چلئے مانا کہ تب بھی کو ئی زیادہ دیر نہیں ہو ئی ابھی نا معلوم کتنے ماہ وسال اسی طرح بیت جائیں گے لہذا بہتر ہے کہ ہم آج ہی غور کریں ۔۔۔مجھے یاد ہے اور یقیناََدانشوران کشمیر کو بھی یہ بات بہت ہی اچھی طرح یاد ہو گی کہ جب صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سے سید علی گیلانی کو 2010ء میںرہا کیا گیا تو انھوں نے دانشوروں سے اپیل کی کہ وہ ہڑتا ل کے بجائے دوسرے ’’احتجاجی طریقہ کار ‘‘ اپنانے کی تجاویز پیش کریں ۔کیا کوئی دانشور کوئی ایک آدھ تجویز بھی تب پیش کر پایا؟؟؟؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم نے حریت قیادت کی ’’دانشوروں کی ناقدری کی آڑ‘‘میں صحیح وقت پر خاموشی اختیار کی اور قوم کو لیڈروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو پھر وقت گزر جانے کے بعد تنقید کا کیامطلب ؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ قوم ’’دانشورانہ بصیرت‘‘ سے ہی محروم ہو چکی ہے اور مثبت رویئے کے برعکس منفی رویہ اپنا کر سارا دانشورانہ زور تنقید میں ہی صرف کرنے کی عادی ہو چکی ہے ۔یا ایسا تونہیں کہ ہم ہڑتال کے برعکس دوسرے احتجاجی پروگرام پیش کرنے میں چونکہ ’’دانشور ‘‘ہونے کے باوجود عاجز ہیں لہذا ہم اپنے نقص پر پردہ ڈالنے کے لیے صرف ہڑتال پر تنقید کر کے اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا سارا ملبہ حریت کانفرنس پرگرانا چاہتے ہیں ۔ (جاری ہے)