جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)
شیئر کریں
محمد اقبال دیوان
بہت دن پہلے کی بات ہے۔اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں ، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت کی بنیاد پر نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں یہ وہ اسباب تھے جو پارٹی کی تشکیل کے اسباب بن گئے تھے۔ممکن ہے اس وقت کے حاکم جنرل صاحب (جیسے کہ بعد کے جنرل صاحب نے ثابت کیا کہ میرے لیے لامکاں اوروں کے لیے چار سوُ) اور دیگر پڑوسی ممالک بھی اپنے انداز اور مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہوں۔اس طرح کے آئوٹ فٹس بوتل کا جن ہوتے ہیں۔آپ گدگدی کرکے انہیں باہر نکالیں تو بہت مزا آتا ہے لیکن وہ جب گدگدی کریں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔اندرا گاندھی نے مکتی باہنی بنا کر مجیب کی ہلاکت کا سامان کیا ،دمدمی ٹکسال بنا کر اپنی موت کا بازار سجایا اور تامل ایلام بنا کر بیٹے کی چتا سلگائی۔
یہ پارٹی اپنا وجود تسلیم کرانے اوراپنے کیڈرز میں نوجوانوں کی میدان احتجاج میں صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے ہنگاموں میں بہت دلچسپی رکھتی تھی۔ہم ان دنوں لیاقت آباد کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھے۔یہ 1980ء کا پرُآشوب سال تھا۔
علاقے کے ہنگاموں میں آج کچھ افاقہ تھا۔ ایک بچی گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھی۔اس دفعہ ہنگاموں میں فائرنگ کا پہلونیاتھا۔ آتشیں ہتھیاروں کا استعمال کراچی کے ہنگاموں میں ایک نیا عنصر تھا۔ پہلے یہاں پتھرائو ہوتا تھا ، آتش زنی کی وارداتیں اور کچھ لوٹ مار۔اب کی دفعہ اسلحہ کا استعمال پولیس کے لیے پریشان کن بات تھی اور اہل علاقہ کے لیے حیرانی کا باعث۔سب یہ کہہ رہے تھے کہ یہ باہر سے آیا ہوا کوئی گروپ ہے جو ہنگامہ آرائی میں شامل ہوگیا ہے۔
پہلے یہاں ایسے نہیں ہوتا تھا۔ لڑکوں کی ٹولیوں میںکئی ایسے لوگ دکھائی دیتے تھے جو اپنے انداز اورعمر کے حساب سے بہت مختلف دکھائی دیتے تھے۔ ہنگامے سرد پڑنا شروع ہوئے تو تفتیش کا آغاز ہوا۔
ڈی۔ایس۔پی صاحب نے ہمیں بتلایا کہ فائرنگ سے جو بچی ہلاک ہوئی ہے اس پر فائرنگ کرنے والے لڑکوں کے نام مل گئے ہیں۔ چار کا نام تو مصدقہ ہے ، پانچویں پر پولیس کو کچھ شبہ ہے۔پانچواں نام ایک میڈیکل کے طالب علم کا ہے اور یہ نام ہے نبیل ہارون کا۔ خاکساراس نام پر کچھ چونکا اور اس نے ڈی۔ایس۔پی صاحب سے کہا کہ ایک دن بعد وہ انہیں یہ نام کنفرم کردے گا۔ وہ اسے جانتا ہے۔ فی الحال اس کا نام ایف آئی آر میں نہ ڈالا جائے۔ نبیل ہارون اس کے جاننے والوں کا بیٹا تھا۔ اس کی تحقیق سے یہ راز کھلا کہ ان تصدیق شدہ چار لڑکوں میں سے دو لڑکوں سے اسکی دوستی ہے مگر فائرنگ والے دن وہ اپنے کالج کے فن میلے میں اپنی کلاس کے اسٹال پر موجود تھا اور اس کی تصدیق کالج سے بھی کی جاسکتی ہے۔ وہ فائنل ایئر کا اسٹوڈنٹ ہے اور ایسی کسی کارروائی میں شریک ہونے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔خاکسار نے فون کرکے وہاں کالج کے اہم کرتا دھرتا مہر ہنسوٹیا سے تصدیق کی۔ وہ ہنگامے والی صبح واقعی میلے کے اسٹال پر موجود تھا۔
بات کھلی تو نبیل کے گھرانے میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ فیڈرل بی ایریا، صدیق آباد کا ایک امن پسند میمن گھرانہ تھا۔ جیسا کہ کاروباری گھرانوں میں ہوتا ہے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی شادی کردی جائے۔ آنے والی خود ہی اس کے کس بل نکال دے گی۔ بیوی بچوں کا بوجھ پڑے گا تو اس کی دوستیاں خود ہی ایسے لوگوں سے ختم ہوجائیں گی۔
نبیل ہارون کو شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر اس نے شرط رکھی کہ وہ برادری یا خاندان میں شادی نہیں کرے گا اور اسے کوئی لڑکی اپنے طور پر پسند بھی نہیں۔ والدین اس کے لیے کوئی باہر کی لڑکی تلاش کریں اگر وہ اسے پسند آئی تو وہ ہاں کردے گا۔
ایک شام کسی شادی کی مہندی کی تقریب تھی۔ جس وقت وہ وہاں اپنی امی کو لینے پہنچا تو ایک لڑکی جو برطانیا سے بطور مہمان آئی تھی۔ اور بڑی سر خوشی سے ناچ رہی تھی۔ لمبا اسکرٹ، ننگے بازو اور دلفریب نقوش، اسے جب نبیل ہارون نے دیکھا تو پہلی نظر میں ہی اس پر دل ہار گیا ۔ بعد میں ان لڑکیوں نے جو نبیل کے رشتے پر دانت گاڑے بیٹھی تھیں الزام لگایا کہ یہ تو لڑکوں میں بیٹھ کر چرس پی پی کر بمبئی کے ٹپوریوں کی طرح نعرے بھی مارتی ہے کہ جو نہ پیئے گانجا،سالا وہ چھکیّ( ہیجڑے ) کا بھانجا۔ مگر نبیل نے ان کی سنی ان سنی کردی۔
رشتے پر دیگر عوامل کی سازگاری کی وجہ سے لڑکی کے والدین کو کوئی اعتراض نہ ہوا۔ مگر انہوں نے ایک شرط رکھی کہ لڑکابرطانیامیں رہے گا۔ نبیل کے گھروالوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا کہ وہ اپنے اس ہونہار کوفیڈرل بی ایریا کی صحبت کے بُرے اثرات سے محفوظ رکھیں۔ شادی کے چند دن بعد ہی نبیل برطانیا سدھار گیا۔
برطانیا میںنبیل کی بیوی بشریٰ کی ایک بڑی بہن طوبیٰ بھی تھی جو ایک جرمن لڑکے کے عشق میں بُری طرح گرفتار تھی اور اس کی اس دل لگی سے نبیل کے سسرال والے پریشان تھے۔ انہوں نے اس کا ایک علاج یہ تلاش کیا کہ اسے ریمس Reims فرانس میں بھجوادیا یہاں ایک کانویننٹ اسکول تھا۔ جہاں کی کیتھولک ننزکچھ زیادہ ہی سخت تھیں۔ لڑکی کے ماں باپ کایہ خیال تھا کہ ان کی وجہ سے وہ اس جرمن لڑکے سے ملنے جلنے سے باز رہے گی۔
قسمت کے کارنامے بھی عجب ہوتے ہیں۔ طوبیٰ بیگم کو وہاں ہاسٹل میں رہنے کے لیے جو روم میٹ ملی اس کا تعلق الجزائر سے تھا۔ اسکے گھرانے کے کچھ افراد وہاں آئی۔ ایس۔ ایف (Islamic Salvation Front) کے بڑے سرگرم رکن تھے اور یہ بھی بہت ہی کٹر مذہبی لڑکی تھی۔ اس نے طوبیٰ پر نہ جانے کیاجادو کیا کہ وہ بھی اسی کے رنگ میں ڈھل گئی۔ آزاد خیالی ہوا ہوئی ،لباس اور طور اطوار بالکل اسلامی ہوگئے۔ دل کا معاملہ بھی کچھ قید شریعت میں آگیا۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ کچھ دنوں بعد وہ جرمن لڑکا وہاں بھی اس کی تلاش میں پہنچ گیا۔ طوبیٰ نے اپنی اس دوست کی رفاقت میں اس سے ملاقات کی اور اس سے کہا کہ اب وہ اس سے ایک شرط پر تعلق رکھ سکتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اس سے شادی کرلے لیکن شادی کے لیے تین شرائط ہیں ۔ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے، دوم شریعت کی پابندی کرے اور سوم یہ کہ وہ جہاد میں حصہ لے۔ لڑکے نے مہلت مانگی اور کہا کہ اگر وہ ان شرائط پر راضی ہوگیا تو وہ اس کے گھر دسمبر میں کرسمس کی چھٹیوں میں لندن آئے گا۔ دسمبر کی چھٹیوں میں لکاس کیون Lucas Kevin صاحب لندن پہنچے ہوئے تھے۔ طوبیٰ بیگم سے ان کا نکاح سادگی سے مسجد میں ہواجس میں اسکی والدہ بھی دل پر پتھر رکھ کر شریک ہوئیں ،شادی کے بعد ان کا نام حماد کیون رکھ دیا گیا۔
اس واقعے کو چند برس گزر گئے، افغانستان کے مجاہدین جنگ ختم ہونے کے بعد بکھر گئے کچھ تو بوسنیا پہنچ گئے اور کچھ کشمیر۔ ایک رات عدنان کے فلیٹ پر دو بجے دستک ہوئی۔ عدنان نے شیشے کی چھوٹی آنکھ سے دروازے کے باہر جھانکا تو اسے سفید کپڑوں میں ملبوس داڑھیوں والے چند نوجوان دکھائی دیے۔ پہلے تو اسے خیال آیا کہ یہ شاید کوئی تبلیغی گروپ ہے مگر اس نے سوچا کہ وہ ایسے بے وقت نہیں آتے۔ دروازہ کھولنے پراقبال بھائی کا نعرہ بلند ہوا اور نبیل ہارون اس سے لپٹ گیا۔ ہم نے سوچا کہ آپ سے ملتے چلیں۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے آپ کا تفصیلی تعارف کرادیا ہے کہ میرے اس بھائی کی مداخلت کی وجہ سے مجھے یہ راہ ہدایت ملی ۔بس اب اچھی سی کافی پلوائیں ۔ ان چھ نوجوانوں کو اندر بلایا، دو تو ان میں عرب تھے اور ایک شایدکوئی گورا تھا ،باقی دو شاید پاکستانی یا بنگالی لگتے تھے۔ سب کے سب تنومند اور اسلامی جذبات سے سرشار۔ بتلانے لگے کہ ” وہ کچھ دن افغانستان میں تھے اور پھر کشمیر میں، افغانستان وہ بوسنیا سے پہنچے تھے۔ مستار جو بوسنیا ہرزے گوینا کا حصہ تھا وہاں کی مسلمان خواتین کو انہی لوگوں نے سربیائی افواج کے مظالم سے بچایا تھا”۔
ہم نے پوچھا کہ "باجی بشری یعنی بیگم نبیل کہاں ہیں؟” تو کہنے لگا کہ ” وہ تزلا بوسنیا میں پھنسی ہوئی ہے ، وہاں میڈیکل سپلائز لے کر گئی تھی، اب پتہ نہیں وہ کہاں ہے۔ اللہ سب کا نگہبان ہے۔ ہم کسی کی جان کے نگران نہیں۔ جان و مال کی حفاظت اسی کا ذمہ ہے”۔
ہمیں نبیل کی یہ سوچ کچھ بے رحم سی لگی مگر یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لوگ سوچ کے ایک ایسے درجے پر ہیں جہاں اس کی شاید رسائی نہیں۔ دورانِ گفتگو ایک موقع پرجب ہم نے ان سے پوچھا کہ” کیا یہ ان کے نزدیک واقعی تہذیبوں کا تصادم ہے؟ "ان میں سے ایک عرب کہنے لگا کہ "اگر آپ بائبل کو موجودہ شکل میں بھی تسلیم کرلیں تووہ بھی ان تمام برائیوں سے روکتی ہے۔ مثلاًشراب نوشی، سود خوری، قمار بازی اور اسی قبیل کی تمام برائیاں اس میں بھی بری قرار دی گئی ہیں۔ مغرب میں لوگ بہت اچھے ہیں۔ ان کی کئی خوبیاں ایسی ہیں جن کو مسلم معاشروں میں تلاش کرنا مشکل ہوگا۔مگر ان کا کاروباری کارپوریشن کا مالیاتی سودی نظام ان کے معاشرتی زندگی کو اس بری طرح جکڑ کر بیٹھا ہے کہ اسکے کرتا دھرتا ہر جگہ وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے اور اپنی دولت میں اضافے کے لیے جگہ جگہ جنگیں برپا کرتے ہیں اور اس سے بہت ظلم ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بارہ بڑی تہذیبیں اب تک منظر عام پر آئی ہیں”۔چھ مٹ گئی ہیں یا اب ان میں وہ توانائی باقی نہیں۔ چھ تہذیبیں جن میں اسلام، عیسائیت، یہودیت، بدھ مت، ہندو مت اور لادینیت یعنی سیکورازم ہیں جو اپنا وجود منوانے پر تلی ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)