سیاہ میڈیا اور سرخ میڈیا
شیئر کریں
اسے امریکا کی بدقسمتی کہیں یا چین کی خوش قسمتی کہ دنیا بھر میں بین الاقوامی اُمور پرتحقیقاتی نگاہیں مرکوز رکھنے والے کم و بیش تمام تھنک ٹینکس کے چین کے بارے میں اَب تک کے قائم کیے گئے تمام اندازے ایک ایک کر کے قطعی طور پر غلط ثابت ہوتے جارہے ہیں ۔1980 کی دہائی میں چین کے بارے ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک نے گمان ظاہر کیا تھا چونکہ چینی قوم خطرناک حد تک سست اور کاہل ہے۔ لہٰذا چین معاشی میدان میں کبھی بھی اپنے آپ کو ایک بہتر کھلاڑی کے طورپر پیش نہیں کرسکے گا۔ لیکن اِس تجزیے کے چند سال بعد یعنی 1990 کی دہائی کی ابتداء میں ہی چینی قوم نے مجتمع ہوکر معاشی میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دینا شروع کردیے کہ بالآخر چین کو بھی بین الاقوامی معیشت میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر تسلیم تو کرلیا گیا مگر ساتھ ہی چین کے متعلق یہ بھی کہاجانے لگا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی وہ مشکل میدان ہے جس میں چھوٹے قد و قامت اور نازک سا دماغ رکھنے والے چینی شاید ہی کچھ کرسکیں لیکن چین نے 2000 کے بعد خلا میں اپنے تیارکردہ درجنوں سیٹیلائٹ بھیج کر سائنس و ٹیکنالوجی کے باب پر بھی دستک دے ڈالی اور آج چین سائنسی طور پر اگر دنیا بھر سے آگے نہیں ہے تو بلاشبہ کسی سے پیچھے بھی نہیں ہے ۔اس وقت چین فائیو جی اور مصنوعی ٹیکنالوجی سے لیس صرف اسمارٹ فون ہی نہیں بلکہ روبوٹ تک تیار کر کے دنیا بھر کو فروخت کررہا ہے ۔
یاد رہے کہ چند برس قبل ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک نے چین کے سائنس کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموںکی آہٹ سن کر دنیا بھر کو دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ چین سائنس و ٹیکنا لوجی میں جتنا چاہے عروج حاصل کرلے لیکن وہ جدید اسلحہ بنانے کی دوڑ میں امریکا،اسرائیل ،روس اور جاپان سے کسی صورت آگے نہیں نکل سکے گا۔ لیکن چین کے بارے میں یہ رائے بھی زیادہ دیر تک درست ثابت نہ رہ سکی اوراب2020 کا نیا سورج طلوع ہونے کے بعد دنیا کو احساس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ چین جدید اسلحہ بنانے کے لحاظ سے بھی اپنے حریفوں پر زبردست فوقیت حاصل کرتا جارہاہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئیوں اور تجزیوں کے غلط ہوجانے کے بعد بھی پیشن گوئیاں کرنے والے تھنک ٹینکس باز نہیں آئے اور ایک برس قبل ایک معروف بھارتی و امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو اپنی تحقیق کی روشنی میں ترتیب دی گئی تجزیاتی رپورٹ کے ذریعے یہ باور کروانا شروع کردیا کہ چینی قوم چونکہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے صلح جو ، امن پسند اور جنگ و جدل سے کوسوں دور رہنے والی قوم رہی ہے ۔ اس لیے چین کبھی بھی عسکری میدان میں اپنے حریف ممالک کے خلاف جارحانہ رویہ نہیں اختیارسکے گا اور چین کی یہ ہی دفاعی حکمت عملی اُسے عالمی حکمرانی سے باز رکھنے میں معاون ثابت گی۔
مگر گزشتہ دنوں جس انداز میں چین نے امریکا کے عسکری حلیف بھارت کے خلاف وادی لداخ میں پیش قدمی کی ہے ۔ چین کے اسِ جارحانہ طرز عمل نے بین الاقوامی تھنک ٹینک کی یہ آخری خوش فہمی اور اندازہ بھی مکمل طو رپر غلط ثابت کردیاہے کہ چین جنگ کرنے سے گھبراتا ہے۔خاص طو پر جس طرح سے چینی میڈیا میں بھات کو سبق سکھانے کی باتیں تواتر کے ساتھ دُہرائی جارہی ہیں ۔انہیں دیکھ کر اور سن کر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سخت تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے ا ور اَب چین کی عسکری برتری کا خوف واضح طور پر عالمی ذرائع ابلاغ کی خبروں اور تجزیوںکی بھی زینت بننے لگا ہے ۔ یہاں تک کہ خود امریکی ذرائع ابلاغ میں بھی چین کو ایک بڑے عسکری خطرے کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے ۔اَب وہ الگ بات ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں چین کی عسکری و جنگی مہارت کو منفی انداز میں اُبھارا جارہاہے تاکہ سننے والے اور دیکھنے والے مستقبل میں چین کے عسکری غلبہ سے اس قدر خوف زدہ ہوجائیں کہ وہ چین کے خلاف ہونے والے متوقع عالمی گھیراؤ کو دنیا کے تحفظ اور بچاؤ کے لیئے ناگزیر قرار دے دیں ۔ یہ بالکل ایسی ہی صورت حال ہے، جو نائن الیون کے بعد اسلام کو درپیش تھی ۔ یعنی ورلڈ ٹریڈ بلڈنگ پر حملہ کے واقعہ کو اسلام کے خلاف اس طرح سے پیش کیا گیا تھا کہ دنیا یہ سوچنے لگی تھی کہ اگر اسلام پسندوںکے بڑھتے ہوئے قدم بروقت روکے نہ گئے تو شاید کرہ ارض سے انسانیت ہی ختم ہوجائے گی ۔ بدقسمتی سے یہ نظریہ اُس وقت بھرپور اندا میں فروغ بھی پاگیا اور ساری دنیا نے اِس پروپیگنڈہ پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی پشت پر کھڑا ہوجانے میں ہی اپنی عافیت جانی ۔ کچھ اس طرح کی ملتی جلتی مصنوعی صورت حال عالمی ذرائع ابلاغ میں اَب چین کو درپیش ہے۔
یہاں بس اچھی بات یہ ہے کہ چین اپنے خلاف اچانک سے شروع ہوجانے والی عالمی پروپیگنڈا مہم کانہ صرف بھرپور ادراک رکھتا بلکہ چینی قیادت نے اس مہم کا انسداد کرنے کے لیے عملی کوششوںکا آغاز بھی کردیاہے ۔ کیونکہ چینی قیادت بخوبی جان چکی ہے کہ معاشی میدان میں ناقابلِ تسخیر ہونا بہت اچھی بات سہی ، سائنس و ٹیکنالوجی بھی چین کی بقا کے لیئے اہمیت کی حامل سہی لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چین کو عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی اپنا اثرو نفوذ جلد سے جلد قائم کرنا ہوگا۔ کیونکہ مستقبل میں ایک ایسی جدید عالمی جنگ کا طبل بجنے والا ہے جسے چین، میڈیا کی مدد کے بغیر کسی بھی صورت نہیں جیت سکتا۔ مگر یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین عالمی ذرائع ابلاغ پر وہ گرفت نہیں رکھتا ،جو گرفت اس وقت چین کے حریف ممالک امریکا ، برطانیہ اور اس کے اتحادی رکھتے ہیں ۔ یعنی اگر دنیا کے دس بڑے عالمی ذرائع ابلاغ کے نام لینا شروع کریں تو اس میں فہرست ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہوگا جس پر چین اپنا اثرو نفوذ رکھتاہو ۔ اس کے مقابلہ میں چین کے حریف ممالک نہ صرف عالمی ذرائع ابلاغ پر مکمل اثرونفوذ رکھتے ہیں بلکہ وہ ان میں سے اکثر اداروں کے اصل مالک بھی ہیں ۔
مشتری ہوشیار باش ! کہ اَب چین نے بھی عالمی ذرائع پر غلبہ پانے کے لیے ایک موثر اور دیرپا حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیاہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آج سے پہلے ذرائع ابلاغ پر غلبہ کے چینی عزائم بڑی حد تک محدود تھے لیکن کووڈ 19 کی وبا کے بعد چین نے بھی ذرائع ابلاغ کی جانب تیزی سے پیش قدمی کرنا شروع کردی ہے ۔ اس سے یہ اندازا ہوتاہے کہ چین عالمی ذرائع ابلاغ پر اپنا اثرورسوخ بڑھا کر دنیا کو فتح کرنے کا پختہ ارادہ کر چکاہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چین کے ریاستی خبررساں ادارے دنیا بھر کے ممالک میں مالی سرمایہ کاری کے ذریعے مستحکم اور طویل المدتی شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔تاکہ چین کی مثبت تصویر پیش کرنے کے لیئے عالمی ذرائع ابلاغ کو بھرپور انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ ہمارے نزدیک عالمی ذرائع ابلاغ پر غلبہ کی اِس منفرد جنگ کو ’’سیاہ میڈیا ‘‘ اور ’’سرخ میڈیا ‘‘ کا معرکہ قرار دیا جاسکتاہے۔ یعنی مغربی میڈیا کو آپ ’’سیاہ میڈیا ‘‘ سمجھ لیں جبکہ اس کے مقابلہ میں چین ابلاغ کے جس نئے عالمی نظام کو کھڑا کرنے والا ہے اُسے ’’سرخ میڈیا ‘‘ سے زیادہ بہتر کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ گزشتہ ایک صدی میں جہاں مغربی میڈیا نے اپنی عالمی شناخت منفی پروپیگنڈا کرنے والے ایک ابلاغی آلہ کے طور پر قائم کی ہے ۔ اُس کے برعکس چینی میڈیا مثبت پروپیگنڈا کا ایک نیا روپ دنیا کے سامنے متعارف کروانے جارہاہے۔ کیونکہ چین ذرا مختلف اندا ز میں میڈیا پر سے مغرب کی اجارہ داری کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتاہے۔
یہ وہ اہم ترین وجہ ہے جس کے پیش نظر چین اپنے بین الاقوامی ناظرین کو جنگ،دہشت گردی اور طبقاتی و لسانی تفریق کو اُجاگر کرنے والی بریکنگ نیوز پیش کرنے کے بجائے خوب صورتی مناظر، رنگ برنگی تقریبات ،مارشل آرٹ کے اسباق، گھریلو ڈرامے ،کارٹون اور چینی تہذیب کو نمایاں کرنے والے دیگر اُمید افزا ،مثبت پہلوؤں پر مشتمل پروگرام بنانے پر زیادہ توجہ صرف کررہاہے۔ خاص طور پر مشرق وسطی میں قائم گئے ایک درجن سے زائد چینی چینلز پر بار بار پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور ترین حدیث کہ ’’علم حاصل کرو چاہے اس کے لیئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ‘‘ کثرت کے ساتھ ناظرین کو دکھا اور سنائی جارہی ہے۔ جس کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ یہ پروپیگنڈا کررہاہے کہ اس حدیث کو بار بارپیش کرنے سے چین کے ذرائع ابلاغ کو مشرقِ وسطیٰ کے ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں زبردست کامیابی ملی ہے،کہ تھوڑے ہی عرصے میں چائنا عرب ٹی وی کو 70 ہزار سے زیادہ فیس بک فالوورز اور 217000 یوٹیوب ویوز،جبکہ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل (سی آر آئی) کو 27 لاکھ سے زیادہ فیس بک فالورز، 17 ہزار سے زیادہ ٹویٹر فالوورز۔ نیز خبر رساں ادارہ شنوا کو آٹھ کروڑ پچیس لاکھ سے زیادہ گلوبل فیس بک پیچ پر فالوورز، عرب ٹویٹر پر ساڑھے 16 ہزار فالوورز حاصل ہوگئے ہیں ۔ذرائع ابلاغ کے میدان میں ایسی ہی کچھ نمایاںکامیابیاں چین بڑی تیزی کے ساتھ افریقی ممالک اور ایشیائی ممالک میں حاصل کرتاجارہا ہے۔واضح رہے کہ چینی ذرائع ابلاغ ہر اُس ملک میں اپنے قدم جماتے جارہے ہیں، جن کے بارے میں چین کو ذرہ برابر بھی یہ گمان لاحق ہے کہ یہ ملک مستقبل میں اس کے طاقت ور حریف بن سکتے ہیں ۔
عالمی ذرائع ابلاغ پر تسلط حاصل کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’’شنوا ‘‘ کے کندھوں پر عائد ہے ۔ جو پیپلز ڈیلی نامی اخبار کے ساتھ چین کا اہم ترین ابلاغی ادارہ ہے۔ رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے مطابق یہ دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ہے جس میں آٹھ ہزار افراد بیک وقت کام کرتے ہیں اور اس کی دنیا بھر میں 105 سے زائد شاخیں ہیں۔ان مختصر لیکن پر اثر اعداد و شمار سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ چین کا ’’سرخ میڈیا‘‘ کس برق رفتاری کے ساتھ مغرب کے ’’سیاہ میڈیا ‘‘کی جگہ لیتاجارہاہے ۔ گو کہ ہمیں یقین کامل ہے کہ ابھی بھی بعض عاقبت نااندیش لوگوں کو یہ گمان اور مغالطہ ضرور لاحق ہوگا کہ ’’سرخ میڈیا ‘‘ کا عالمی ذرائع میں اثرونفوذ ’’سیاہ میڈیا ‘‘ کے مقابلہ میں توقع سے بہت کم ہے لیکن یادرہے کہ ایسے ہی کچھ اندازے ماضی میں بھی چین کے بارے میں لگائے گئے تھے لیکن آج وہ تمام اندازے اپنی موت آپ مرچکے ہیں ۔ اس لیئے چین کے ’’سرخ میڈیا ‘‘ کی طاقت کو کم خیال کرنا، مستقبل میں بین الاقوامی تھنک ٹینک یا اُن سے وابستہ نام نہاد محققین کے لیے دائمی شرمندگی اور صدمہ کا باعث بھی بن سکتاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭