بائیو آملہ شیمپو کے متعدد دعویدار،مینوفیکچرنگ،ڈسٹری بیوشنز اصل و جعلی کمپنیوں میں پہچان مشکل
شیئر کریں
رپورٹ: قاضی سمیع اللہ: پاکستان ا سٹینڈر اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) اور انٹیلیکچول پراپرٹی آرگنائیزیشن (IPO)کے درمیان با ضابطہ رابطہ کا نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے مینوفیکچرنگ اور ڈسٹری بیوشنز کی اصل اور جعلی کمپنیوں کے درمیان پہچان کرنا مشکل ہوگیا جس کا فائدہ ایک جانب جعلی کمپنیاں اٹھارہی ہیں تو دوسری جانب اصل اور جعلی کمپنیوں کی آپس کی لڑائی پی ایس کیو سی اے کے متعلقہ افسران کے لیے بھاری کمائی کا ذریعہ بھی بن گئیں ، پی ایس کیو سی اے میں کمپنیوں کی رجسٹریشن کے عمل میں کمپنیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ سرٹیفیکٹس آئی پی او سے تصدیق نہیں کرائے جانے کی وجہ سے ماضی کے مشہور برانڈ ’’بائیو آملہ کے شیمپو ‘‘ کی ملکیت کے ایک سے زائد دعویدار سامنے آگئے ، رجسٹرار انڈسٹریز( پشاور ) سے رجسٹرڈ فارول کاسمیٹکس کمپنی 2013میں تحلیل ہوجانے کے بعد 2016میں کراچی کے ایک تاجر نے مذکورہ کمپنی کو اپنے نام رجسٹرڈ کرالیا جس کی اطلاع پی ایس کیو سی اے کو بروقت دیئے جانے کے باوجود پی ایس کیو سی اے (لاہور) کے ڈائریکٹر کی جانب سے تحلیل شدہ کمپنی مالکان کو رجسٹریشن جاری کردیا گیا ،کمپنی کے نئے مالک نے معاملہ کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے میں درخواست دیدی،بائیو آملہ شیمپو بنانے والی کمپنی فارول کاسمیٹکس کے مبینہ مالکان کی آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ڈسٹری بیوٹرز اور تاجر برادری بھی غیر معمولی ذہنی کوفت کا شکار ہوگئی۔
باوثوق ذرائع سے جرأت کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق بائیو آملہ شیمپو بنانے والی کمپنی فارول کاسمیٹکس 2013تک سعیدہ جبین زوجہ صلاح الدین ،خالدہ پروین زوجہ ذکاء الدین اور ضیاء الدین (کاشف ضیاء کے والد)کی ملکیت تھی اور یہ کمپنی رجسٹرار انڈسٹریز( پشاور) سے رجسٹرڈ تھی جو کہ 2013میں تحلیل ہوگئی جس کے بعد 2016میں ندیم مرزا نامی شخص نے اس کمپنی کو اپنے نام پر کراچی سے رجسٹرڈ کروالیا۔
ذرائع کے مطابق اس وقت فارول کاسمیٹکس کمپنی کی ملکیت کے دعویداروں میں مذکورہ بالا مالکان کی اولاد اور رشتہ دار کاشف ضیاء ،اویس صلاح الدین اور ذکاء الدین کے علاوہ ندیم مرزا شامل ہیں ۔ذرائع کے مطابق پی ایس کیو سی اے کی جانب سے تحیل شدہ فارول کاسٹمیکٹس کمپنی کے مالکان کو رجسٹریشن لائسنس جاری کیے جانے خلاف کمپنی کے نئے مالک ندیم مرزا نے پی ایس کیو اے کے خلاف ملیر ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور اس مقدمہ (Civel Appeal No 07/2018)کا فیصلہ ندیم مرزا کے حق میں آیا جبکہ اس مقدمہ میں تحلیل شدہ کمپنی کے مالکان بھی انٹر ونر کی حیثیت سے شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق معزز عدالت کے فیصلہ کی نقول ندیم مرزا کی جانب سے پی ایس کیو سی اے کے حکام کو بھیجی گئی اور ساتھ ہی ایک خط کے ذریعے ان سے درخواست کی گئی کہ تحلیل شدہ کمپنی کو رجسٹریشن کی تجدید کرکے نہ دی جائے جو رواں برس ستمبر میں ختم ہورہی ہے اس کے باوجود پی ایس کیو سی اے (لاہور) کے ڈائریکٹر نے قبل از وقت رجسٹریشن کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی رجسٹریشن کی تجدید کرکے دے دی اور اس معاملہ کا نوٹس لینے اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک درخواست کمپنی کے نئے مالک نے ایف آئی اے میں جمع کرادی ہے۔
ذرائع کے مطابق فارول کاسمیٹکس کمپنی کی ملکیت کے دعویداروں کے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ڈسٹری بیوٹرز اور تاجر برادری بھی غیر معمولی ذہنی کوفت کا شکار ہوگئی اس ضمن میں ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ تحلیل شدہ کمپنی کے مالکان کی جانب سے نئے مالک ندیم مرزا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف متعدد ایف آئی آر ز بھی درج کرائی گئی ہیں جبکہ پی ایس کیو سی اے متعلقہ حکام کے ساتھ ساز باز کرکے فاورل کاسمیٹکس کراچی کے مینو فیکچرنگ یونٹ اور گوداموں پر چھاپے بھی مارے گئے جس کے بعد سے ندیم مرزا کی کمپنی نے مینو فیکچرنگ بند کردی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے وزیر اعظم عمران خان کو وزارت برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے بریفنگ بھی دی ہے جس میں سب سے زیادہ وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان ا سٹنڈر اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو فوکس کیا گیا اور سینیٹر اعظم خان سواتی کی جانب سے اپنی بریفنگ میں پی ایس کیو سی اے میں ہونے والی کرپشن کو محور بنایا گیا ہے جس کے وزیر اعظم عمران خان نے پی ایس کیو سی اے میں کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے کا واضح اشارہ دیا گیا ہے ۔