میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیب اربوں لوٹنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا، 10ہزار کرپشن کرنے والوں کو پکڑ لیتا ہے، چیف جسٹس سندھ

نیب اربوں لوٹنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا، 10ہزار کرپشن کرنے والوں کو پکڑ لیتا ہے، چیف جسٹس سندھ

ویب ڈیسک
بدھ, ۳۰ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی (کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے ججوں نے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب اربوں لوٹنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا 10 ہزار کی کرپشن کرنے والے کو پکڑلیتا ہے سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ،جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں زیر التواء نیب کے تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصم حسین کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عاصم حسین کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) سے خارج کرنے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قراردیدیا۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصم کو 60 لاکھ روپے زرضمانت کے عوض ایک ماہ کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔علاوہ ازیں سماعت میں سپریم کورٹ نے نیب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو نے اپنے ہاتھوں اپنی ساکھ ختم کردی۔ سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے اپنی ساکھ کو خراب کرلیا، نیب دل سے کام کرتا تو اب تک کیس ختم ہو جاتا، احتساب عدالت میں اب تک ٹرائل مکمل کیوں نہیں ہوا، لگتا ہے کہ نیب خود کیس کو طویل کرنا چاہتا ہے، اداروں کو تباہ نہ کیا جائے، مقدمے کے شریک ملزم کو کاروبار کے لیے باہر جانے دیا گیا، کیا کاروبار کا حق زندگی کے بنیادی حق سے بالاتر ہے، نیب جب مرضی سے کسی کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور کسی کے خلاف نہیں کرتا تو حیرانی ہوتی ہے۔جسٹس دوست محمد نے استفسار کیا کہ کیا نیب ملزمان کو چھوڑنے کے لیے پکڑتا ہے۔ علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے ایف بی آر میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق درخواست پر ڈی جی نیب الطاف باوانی کی سرزنش کرتے ہوئے چودہ ستمبر تک سندھ بھر میں زیر التوا انکوائریوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ایف بی آر میں غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف نیب انکوائری سے متعلق سماعت ہوئی۔ عدالتی حکم پر ڈی جی نیب محمد الطاف باوانی پیش ہوگئے۔ چیف احمد علی احمد شیخ نے ڈی جی نیب کی سرزنش کی۔ عدالت نے دو سال سے سندھ میں زیر التوا انکوائریوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو غیر قانونی بھرتیاں کرتے ہیں نیب والے انکو نہیں پکڑتے۔جن کو بھرتی کیا جاتا ہے ان کیخلاف تحقیقات شروع کردی جاتی ہے۔ چیف جسٹس احمد علی شیخ نے ڈی جی نیب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا جو تفتیشی افسر ماتحت عدالتوں میں ملزمان کے حق میں بیان دیتے ہیں وہ اعلیٰ عدالتوں کی خاک معاونت کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ دس ہزار روپے کرپشن کرنے والوں کو پکڑ لیتے ہیں جس نے اس ملک سے اربوں لوٹے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ دس ہزار روپے کرپشن کرنے والا سکھر سے کراچی تک ہزاروں روپے خرچ کرکے انصاف مانگنے آتا ہے چیف جسٹس نے ریماکس دیے لوگ نیب سے تنگ آچکے ہیں۔ تفتیشی افسران نے زندگیاں اجیرن کررکھی ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے معاملات عدالت پیش کیے جائیں اور غیر ضروری تاخیر کی وضاحت پیش کی جائے، عدالت جائزہ لے کر خود غیرضروری انکوائریوں کو ختم کر دے گی، اس صوبہ میں نیب جو کچھ کررہا ہے اس کی تفصیل پیش کریں۔ علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ میں نیب نے سابق سیکریٹری لینڈ اور ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی اور دیگر خلاف ریفرنس کی تفصیلات عدالت میں جمع کرادیں۔ چیف جسٹس نے تفتیشی افسر کی عدم حاضری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریماکس دیے نیب افسران ملازمتیں انجوائے کررہے ہیں جیسے مہمان خانے میں ہوں۔منگل کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سرابراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو سابق سیکریٹری لینڈ اور ایم ڈی واٹر ہاشم رضا زیدی اور دیگر کے خلاف زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق سماعت ہوئی۔نیب نے ریفرنس کی تفصیلات عدالت میں جمع کرادی۔ زمینوں کی انکوائری میں مسلسل نام آنے باوجود نیب ایم ڈی واٹر بورڈ کا نام ریفرنس میں شامل نہیں کیا۔ عدالت نے ہاشم رضا زیدی کی درخواست ضمانت نمٹا دی۔ پراسیکوٹر نیب نے کہا کہ ملزم نذیر احمد کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن میں بھی انکواہری زیر التوا تھی جو ختم ہوگئی۔ ریفرنس میں ملزم نزیر احمد، اللہ بچائیو چانڈیو اور دیگر نامزد ہیں۔ ملزموں نے ڈریم لینڈ سوسائٹی کے نام پر غیر قانونی زمین الاٹ کی۔ تفتیشی افسر پیش نا ہونے عدالت نے شدید اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے کرپٹ عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نیب افسران ملازمتین انجوائے کررہے ہیں،ایسا لگتا ہے جیسے مہمان خانے آئے ہوں۔ چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ جو انکوائری ایک دن میں مکمل ہونی ہے اس پر دس دس سال لگا دیتے ہیں۔ بوگس انئری کے لیے دو ہی تو چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں،اس پر بھی وقت کا ضیاع کیا جارہا ہے۔ عدالت نے چھبیس ستمبر تک نیب تفتیشی افسر کو ریکارڈ کے ساتھ طلب کرلیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں