میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چوہدریوں سے انتقام

چوہدریوں سے انتقام

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۰ جولائی ۲۰۲۱

شیئر کریں

اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان آزاد ملک ہے مگر قلم قبیلے کے کچھ لوگ اختلافِ رائے اور تعمیری تنقید کی بجائے تذلیل کرنے کو آزادی کانام دیتے ہیں اگر اُن سے جواز یا ثبوت طلب کیا جائے تووہ جمہوری حق کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں لیکن کیا واقعی جمہوریت میں شہریوں یا سیاسدانوں کی تذلیل کی آزادی ہے میری سوجھ بوجھ کے مطابق تو یہ آزادی اظہار نہیں بلکہ انتقامی صحافت ہے جس کا کئی دہائیوں سے چوہدریوں کو سامنا ہے اور وہ انتقام کا شکار ہیںٹھیک ہے جواب میں وہ مروت اور خاندانی وضع داری کی بنا پر خاموش رہتے اوربدترین ناقد سے ملتے ہوئے بھی ظرف کا مظاہرہ کرتے ہیںمگر قلم کے ذریعے اندر کا زہر صفحات پر منتقل کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی اشد ضروری ہے لیکن میں پھر بھی شریکِ حیات کے علاوہ کسی کی کسی کے ساتھ شب بسری کی داستان نہیں سنائوں گا کیونکہ کم ظرفی کا جواب کم ظرفی سے دینابھی نیچ حرکت ہے مگر رئوف کلاسرا کے سولہ جولائی کوروزنامہ دنیا میں لکھے کالم ،چوہدری کا انتقام،میں لکھے تذلیلی پہلو کی درستگی ضروری سمجھتا ہوں میں حاکمانِ وقت کا قصیدہ گو نہیں نہ ہی کسی کو فرشتہ ثابت کرنے پر مامور ہوںکِس نے اپوزیشن کے دنوں میں کھائی قسمیں توڑیں یا کمپرومائز کرتے ہوئے یوٹرن لیے مجھے صفائی دینے سے کوئی غرض نہیں جس نے جو کیا ہے تاریخ اُسے ویسے ہی الفاظ میں یادکرے گی مجھے تو صحافت میں دَر آنے والی تذلیلی خباثت کی حوصلہ شکنی کا فرض انجام دیناہے۔
چوہدری کوئی فوج نہیں جن سے کسی کی طویل جنگ ہو لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر الزام لگانا روایت سی بن گئی ہے الزامات غلط ثابت ہونے پرمعافی تو دور کی بات، کوئی شرمندہ بھی نہیں ہوتا پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکوکہنا اور ہاتھ نہ ملانے کے عزم کی بات کا جواب یہ ہے کہ ایک طرف جب پورے ملک میں عدم برداشت کا رویہ ہے پھر بھی پنجاب میں سیاسی صورتحال کافی بہتر ہے یہاں بلامقابلہ سینٹر منتخب اور بجٹ بھی باآسانی منظور ہوجاتا ہے وجہ سیاسی مخالفت کے باوجوداسپیکرکااسیراپوزیشن لیڈرحمزہ شہبازکی اسمبلی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانا ہے پرویز مشرف کی طرف سے ناپسندیدگی کے باوجود میاں شریف کی وفات پر پُرسہ دینا اور موجودہ حکومت کے نہ چاہنے ہوئے بھی کلثوم نواز اور شمیم شریف کی وفات پر تعزیت کرنا ہے نواز شریف کے شدید بیمارہونے کی خبریں آتی ہیں تو حکمران اتحاد میں سابق وزیرِ اعظم کی بیرونِ ملک روانگی کے حق میں سب سے پہلی اور طاقتور آواز چوہدری شجاعت حسین کی ہوتی ہے یہ ہے وضع داری ،رواداری اور براشت ،جس کی ملک میں کمی ہوتی جارہی ہے اگر مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں تو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی دھرنا ختم کرنے اور گھرجانے پر مذاکرات کرتے ہیں انھوں نے سیاسی اختلاف کوکبھی دشمنی کے قالب میں نہیں ڈھالا بلکہ سنجیدہ اور اصولی سیاست کی ہے اسی لیے اُن کی عزت ہے حالانکہ سنجیدہ اور اصولی سیاست کمزوری نہیںپھر کیوں بے سروپا تنقید کے زریعے چوہدریوں سے انتقام لیا جارہا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف نیب مقدمات ختم کرنے میں وزیرِ اعظم کے کردار کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خان صاحب اِتنے ہی سیاہ وسفید کے مالک ہیں تو الیکشن کمیشن سے عطیات کی مد میں بیرون ِملک سے رقوم کی ترسیل کا کیس کیوں ختم نہیں کر سکے؟صدارتی ریفرنس عدالت کیوں رَد کر دیتی ہے؟وزیرِ اعظم کی تنقید کے باوجود اِدارے اپنی روش تبدیل کیوں نہیں کرتے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ چوہدریوں کے خلاف دو دہائیوں سے نیب متحرک ہے کبھی اثاثے چیک کیے جاتے ہیں اور کبھی گھروں کی تعمیر کے اخراجات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے حتٰی کہ باتھ روم میں لگی پانی کی ٹونٹیوں(نل)کی قیمت سینٹری سٹوروں سے معلوم کی جاتی ہے یہ بدترین انتقام ہے لیکن چوہدری برسوں سے اِس انتقام کا سامنا کر رہے ہیں اگر یہ کیس سچے ہوتے تو مسلم لیگ ن اپنی حکومت کے دوران کب کی چوہدریوں کو پابندِ سلاسل کر چکی ہوتی جہاں حمزہ شہباز کے کہنے پر پولیس کے زریعے چوہدری مونس الٰہی کاکاروبارمحدود کرنے کی کاروائیاں ہوئیں دکانداروںکو پرائما دودھ رکھنے کی صورت میں جیل جانے کی دھمکیوں سے زمانہ آشنا ہے لیکن جن سے جانے کیوں رئوف کلاسرالاعلم ہیں ارے بھئی صحافی تو بہت باخبر ہوتا ہے دودہائیوں سے چلنے والے کیسوں نے آج نہیں تو کل ختم ہی ہونا تھا کوئی کیس ہمیشہ تو جاری نہیں رہ سکتا ویسے بھی اگر چوہدریوں نے کیس ختم کرانے کے لیے دبائو ہی ڈلوانا تھا تو بہترین موقع پرویز مشرف دور تھا جب چوہدری پرویز الٰہی وزیرِ اعلٰی اور پرویز مشرف کی آنکھ کا تاراتھے موجودہ دورِ حکومت اختیارات کے حوالے سے بہت کمزور ہے نیب ،الیکشن کمیشن اورعدالتیں جب وزیروں کی سرزنش کرتے ہوئے کوئی لحاظ نہیں کرتیں توکوئی چوہدریوں کی خاک مدد کر سکتا ہے؟۔
چوہدری مونس الٰہی میں خدمت کا جذبہ ہے لیکن وہ جب سے سیاست میں آئے ہیں انھیں کسی نہ کسی حوالے سے تنقید کا سامنا ہے جسٹس افتخار چوہدری کو چوہدری پرویز الٰہی پر غصہ تھا کہ وہ پرویز مشرف کے ہاتھ کیوں مضبوط کررہے ہیں افتخار چوہدری نے حمایت کے لیے ایک سے زائد بارخود اور مختلف زرائع سے روابط بھی کیے لیکن چوہدریوں سے بات نہ بنی وجہ چوہدری کسی کو ڈبل کر اس نہیں کرتے صاف گو لوگ ہیںیہ خوشی یا غصہ چھپا ہی نہیں سکتے چوہدریوں کو بدنام کرنے کے لیے اُن کے ہونہار سپوت چوہدری مونس الٰہی پر این آئی سی ایل کیس بنوایا گیاجب یہ کیس بنا تب چوہدری مونس الٰہی برطانیہ مقیم تھے اور یہ کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ تھا پھر بھی چوہدری مونس الٰہی واپس وطن آئے گرفتاری دی اور کیس کا سامنا کیا جسٹس افتخار چوہدری نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس اعجاز چوہدری کو چوہدری مونس الٰہی کی ضمانت نہ ہونے کا ٹاسک سونپ رکھا تھاجس کااُن کی اہلیہ شبنم چوہدری نے نجی محفل میں پاکستانی نژادنارویجن سے اظہار بھی کیا لیکن من گھڑت کیس کو کب تک التوا میں رکھا جاتا آخر کار چوہدری مونس الٰہی سرخرو ہوئے ۔
جہاں تک چوہدری مونس الٰہی کے وفاقی وزیر بننے کا تعلق ہے اوراِس پرکچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھناہیں یہ لوگ دراصل کسی کو کامیاب ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتے موجودہ حکومت کی مدت ہی دوبرس رہ گئی ہے ایسے میں کوئی کیونکر وزارت کی خواہش کر سکتا ہے چوہدری مونس الٰہی کوتو وزارت کی ہوس ہی نہیں حلف اُٹھاتے ہی بیرونِ ملک روانگی بے نیازی کی دلیل ہے درا صل اتحاد کرتے وقت دونوں جماعتوں کے درمیان کچھ عہدو پیمان ہوئے تھے جوتین برس سے تشنہ تکمیل تھے پنجاب میں ق لیگ کا دوسرا وزیر بھی کافی تاخیر سے بنایا گیا یہ کِس کا کِس سے انتقام تھا اِس پر پھر کبھی رئوف کلاسرا دوچار اور جھوٹ بول سکتے ہیں مگر ایک باکردار اور خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشاردلیر نوجوان چوہدری مونس الٰہی کے اُجلے کردار کو داغدار بنانا مزموم حرکت ہے جو چوہدریوں سے انتقام کی مُہم کے حصے کے سواکچھ نہیں۔
ملک میں ہلے گلے اورشورشرابے کے دلداہ لوگوں کوسیاسی استحکام بے چین کر دیتا ہے اتحادی ایک دوسرے کے گریبان نوچیں ،لٹھ لیکر سیاستدان ایک دوسرے پر حملے کریں دنگا وفساد ہوتویہ لوگ خوش رہتے ہیں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں اگر محمد خان جو نیجو صدر کے مالی یاکک کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دیتے تو ملک کا کیا نقصان ہوتا ؟ جہاں تک وزیرِ خارجہ یعقوب علی خان کی سبکدوشی کو صدر ضیاالحق سے جوڑنے کی کوشش ہے اِس میں رتی برابر صداقت نہیں بلکہ استعفٰی طلب کرنے کے پسِ پردہ افغان معاملات تھے جن سے وزیر ِ اعظم اور صدر کے درمیان ناخوشگوار حالات نے جنم لیا وزیرِ اعظم نے ایک دوبار یعقوب علی خان سے شکوہ بھی کیا جب روش تبدیل نہ کی تو کابینہ سے باہر کردیا گیا لیکن شکر ہے اِس بات کو بھی چوہدریوں کے کھاتے میں شمار نہیں کیا گیاوگرنے شرفا کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں ضرورت اِس امرکی ہے کہ چوہدریوں سے انتقام کی روش پر چلنے کی بجائے دلیل اور اخلاق بات کریں اور مسائل اُجاگر کرنے والے قلم کو انتقام لینے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں