برکس اتحاد کا حال اور مستقبل ؟
شیئر کریں
یہ ضرب المثل تو آپ نے ضرور سنی ہی ہوگی کہ ’’اتحاد میں برکت ہے‘‘۔ماضی قدیم میں اِس مقولہ کی جھلک زیادہ ترانسان کی انفرادی زندگی میں ہی دکھائی دیتی تھی اور اجتماعی سطح پر یعنی دو مختلف ممالک کے درمیان اپنے معاشی اور دفاعی مفادات کے تحفظ کے لیے ’’ملکی اتحاد ‘‘ یا ’’ریاستی اتحاد ‘‘ قائم ہونے کی بازگشت خال خال ہی سنائی دیتی تھی۔دراصل قدیم نظام ہائے حکومت ، میں چونکہ ایک بادشاہ فقط اپنی ذات بابرکات کو ہی تمام تر ریاستی طاقت کا سرچشمہ سمجھتا تھا ،لہٰذا، اُس کے لیے، اپنی رعایا کے سامنے کسی دوسرے ملک کے بادشاہ کے ساتھ سیاسی و دفاعی اتحادقائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرنا بھی ایک بڑی خامی یا کمزوری پر محمول کیا جاتاتھا۔ مگر جدید نظام ہائے حکومت میں ’’اتحاد میں برکت ہے‘‘ والی ضرب المثل عالمی سیاسیات کا مرکز و محور قرار پاچکی ہے ۔ بلکہ یہ کہنا عین قرین قیاس ہوگا کہ آج کل تما م تر عالمی سیاست ہی مختلف ممالک کے درمیان قائم ہونے والے متنوع قسم کے معاشی ، دفاعی،ثقافتی اور سیاسی ’’ اتحادوں ‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے اور دنیا کے نقشہ پر موجود 197 ممالک میں سے کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے ،جو کسی نہ کسی عالمی اتحاد سے وابستہ نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب تو معاشی ،سیاسی اور عسکری جنگ بھی دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ دو مختلف عالمی اتحادوں کے درمیان شروع ہوتی ہے اور جو معاشی،سیاسی ا ور دفاعی اتحاد زیادہ طاقت ور ہوتاہے ،جیت اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔عالمی اعدادوشمار جمع کرنے والے تحقیقی ادارے ’’ورلڈ ڈیٹا انفو ‘‘ کے مطابق اِس وقت معاشی ،سیاسی،تہذیبی اور دفاعی معاملات کے تحفظ اور فروغ کے لیے 31 عالمی اتحاد موجود ہیں ۔جن میں سے ایک 5 ملکی سربراہی اتحاد برکس (Brics) بھی ہے۔ یاد رہے کہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی آفریقہ پرمبنی برکس دنیا کے بڑے ترقی پذیر ممالک کا عالمی اتحاد ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 41 فیصد، عالمی جی ڈی پی کا 24 فیصد اور بین الاقوامی تجارت کا 16 فیصد ہے۔گزشتہ ہفتہ برکس رُکن ممالک کا ورچوئل اجلاس چین کی سربراہی اور میزبانی میں منعقد ہوا۔حالیہ اجلاس میں چین کے خصوصی دعوت نامے پر پاکستان سمیت تقریباً دو درجن کے قریب ممالک کو 24 جون کو ہونے والے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر بدقسمتی سے 5ملکی سربراہی اتحاد، برکس کے ایک رکن ملک نے غیر رکن ممالک کے لیے منعقد ہونے والی مذاکراتی نشست میں پاکستان کو شرکت کرنے سے روک دیا تھا۔
مذکورہ برکس اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت پر ورچوئل میٹنگ میں موجود کئی ممالک نے سخت تعجب کا اظہار کیا۔کیونکہ پاکستان چین کا ایک اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہے اور فلیگ شپ بیلٹ اینڈ روڈ کا شراکت دار ہے ۔اس سنگین معاملے پر پاکستانی دفتر خارجہ نے سرکاری مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان برکس اجلاس کی کامیاب میزبانی پر چین کو مبارکباد دیتا ہے۔ افسوس کے ایک رُکن نے غیر رُکن ممالک کے ورچوئل اجلاس میں پاکستان کو روک دیا ۔ تاہم پاکستان پھر بھی اُمید کرتاہے کہ برکس تنظیم کے آئندہ کسی اجلاس میں کسی بھی ملک کی شمولیت کا فیصلہ ترقی پذیر دنیا کے مجموعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور تمام تر جغرافیائی و سیاسی تحفظات سے مبرا ہوکر کیا جائے گا‘‘۔بظاہر پاکستانی وزارت خارجہ نے کسی رُکن ملک کو موردِ الزام نہیں ٹہرایا مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ ملک یقینا بھارت ہی ہوگا۔
واضح رہے کہ رواں برس مئی میں برکس کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ برکس میں مزید ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ بھارت اس وقت بھی برکس کی توسیع کے خلاف پیش پیش رہا تھا اور بھارتی وزیر خارجہ نے برکس کی ممکنہ توسیع کو روکنے کے لیے یہ توجیہہ پیش کی کہ ’’پہلے اس کا ایک خاص معیار طے کیا جانا چاہئے کہ کون کون سے ممالک اس میں شامل ہوسکتے ہیں، اس کی مخصوص شرائط طے ہوں، پھر اس پر بات ہو سکتی ہے‘‘ ۔ لیکن بھارت کے تمام تر تحفظات کے باوجود چین نے برکس کے حالیہ ورچوئل اجلاس میں تبادلہ خیال کرنے کے لیے دو درجن کے قریب ممالک کو شرکت کی دعوت دے دی تھی۔ چین کا یہ فیصلہ بھارت کو سخت ناگوار گزرا اور اُس نے دیگر تمام غیر رُکن ممالک کی ورچوئل اجلاس میں شرکت تو پھر بھی چارو نا چار، برداشت کرلی مگر پاکستان کو مذکورہ اجلاس میں شرکت سے روک کر ہی دم لیا ۔
بھارت کا یہ معاندانہ سفارتی اقدام مستقبل میں اُس کے لیے کتنا نفع بخش اور پاکستان کے لیے کس قدر خسارہ کا باعث ہوگا ،اِس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا ،مگر ایک بات طے ہے کہ برکس کے حالیہ ورچوئل اجلاس میں شرکت نہ کرکے پاکستان کے نام کا عالمی ذرائع ابلاغ میں جتنا شہر ہ اور چرچاہو ا ہے، شاید اتنی کوریج تو پاکستان کو برکس کے اجلاس میں شریک دو درجن ممالک کے درمیان بیٹھ کر بھی نہیں ملتی ۔ بہرکیف چینی صدر شی زی پنگ کی سربراہی میں ہونے والی برکس کا نفرنس اِس لحاظ سے یقینا فائدہ مند رہی کہ برکس کے ذریعے چین اور روس اپنا مشترکہ موقف دنیا بھر کے سامنے بہترین انداز میں پیش کرنے میں کامیاب رہے ۔ چینی صدر شی زی پنگ نے برکس بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین جنگ کو ویک اپ کال قرار دیا اور چین کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اپنی سلامتی کو محفوظ کرنے کی غرض سے کسی دوسرے ملک کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے اور فوجی اتحادوں کو اس غرض سے توسیع دینے کے رویے کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔نیز روس کے خلاف عائد پابندیوں کا بھی ذکر ہوا اور حد سے زیادہ پابندیوں کے سنگین نتائج پر بھی زبردست اندا ز میں اظہار خیال کیا۔
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ سفارتی و معاشی پابندیوں کے تناظر میں برکس ممالک سے اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہمارے ملک کے تاجروں کو انتہائی سخت معاشی حالات میں کاروبار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیونکہ مغربی ممالک آزاد تجارت کے ساتھ ساتھ نجی املاک کے بنیادی اصولوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے روس بہت اپنے اقتصادی روابط اور تجارت کو قابل بھروسا بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ بڑھانا چاہتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دوست ممالک کو روسی تیل کی ترسیل ہی بڑھانا نہیں چاہتے بلکہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ رقم کی منتقلی کا کوئی متبادل نظام بنائے گا تاکہ ڈالر اور یورو پر انحصار کو کم کیا جا سکے‘‘۔چینی صدر شی زی پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے رویے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ برکس اتحاد کو دنیا بھر کے سامنے امریکا کے بنائے گئے دفاعی اتحاد’’ناٹو ‘‘ اور ’’کواڈ‘‘ کے نعم البدل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ برکس اتحاد کے رُکن ممالک کی تعداد میں بہت جلد اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ابتدائی طور پر ارجنٹائن اور ایران نے برکس اتحاد میں شمولیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دے دی ہے۔ برکس اتحاد کی توسیع خطے میں امریکا مفادات کے لیے ایک سنگین چیلنج ثابت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔