میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محکمہ ٹیلی فون کے بعد اب پی آئی اے

محکمہ ٹیلی فون کے بعد اب پی آئی اے

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۰ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

ٹیلی فون کا محکمہ وہ تھا جس کے ریونیو سے ملک کا تقریباً آدھا بجٹ پورا ہوتا تھا مگر اسے ایسی نظر لگی کہ یہ محکمہ اب ڈوبتی کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا رہتا ہے چونکہ ہمارے ہمہ قسم سرکاری ،نیم سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر میں فون لگے ہوئے ہیں، اس لیے اس سے ہماری ساری سرگرمیاں غیر ملکی کمپنی اتصلات سے چھپی نہیںرہ سکتیں۔ویسے بھی جس قیمت پر اس کمپنی نے پورے محکمہ کا سودا کیا تھا وہ ساری رقم تمام عمارتوں اور مکینیکل پرزہ جات اور تنصیبات کی قیمتوں کادسواں حصہ بھی نہیں۔ اب تو ملحقہ موجود رہائشی مکانات پر بھی کمپنی نے قبضہ جما لیا ہے اور بعض جگہوں پر عمارات کے فرنٹ پر دوکانیں وغیرہ لاکھوں روپے ایڈوانس لیکر بنوا رکھی ہیں اور کئی مکمل سیل کی جاچکیں۔وہی بدو اور اونٹ والی بات ہے کہ ایک صاحب اپنے خیمہ میں مقیم تھے کہ بدو بمعہ اونٹ کے سخت بارش میں آیا اور کہا کہ سردی بہت ہورہی ہے ذرا میں اندر آجائوں اسے اجازت دی توآہستگی سے اونٹ کا سر اندر کر لیا گیاپھر کیا ہونا تھا۔ اونٹ اور اس کا سوار خیمہ کے اندر تھے اور مالک بالکل باہر۔
ہمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار نہیں بھولنا چاہیے جو کاروبار کی غرض سے ہندوستان پہنچی اور چپکے سے ہمارے ہی غداروں کی بدولت پورے ہندوستان کی مالک بن بیٹھی اور سونے کی چڑیا کہلانے والے ہندوستان کاسارا مال ومتاع لو ٹ کر بدیس لے گئی ۔عیاش و اوباش مسلم بادشاہوں کی سات سو سالہ حکمرانی ایسی چھنی کہ جاتے ہوئے انگریز صرف پانچواں حصہ دیکر چلتے بنے ۔بعد میں اپنوں اور اغیار کی ملی بھگت اور سازشوں سے مشرقی پاکستان چھن گیا۔ہمارے پاس اس کا دسواں حصہ باقی ہے جسے اسلام دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے جب سے فون پر بیرونی سرمایہ کار کمپنی نے قبضہ کیا ہے ملازمین ذلیل و خوار ہورہے ہیں جن کو گولڈن ہینڈ شیک دیکر فارغ کیا گیا تھاان میں سے بیشتر کی واجب الادا ء رقوم تک ادا نہیں کی گئیں۔تقریباً نصف ایکسپرٹ ملازمین فارغ کر دیے گئے ہیں۔فون کی خرابی پر لاکھ اطلاعیں دیتے رہیں کوئی مکینک فون درستی کے لیے نہیں آتا۔محکمہ نے نیا انٹر نیٹ سسٹم متعارف کروایا ہے اس کی ا سپیڈ خوامخواہ کم رکھی گئی ہے تاکہ لوگ مہنگے سسٹم کے کئی پرزے مزید لگوائیں۔کمپنی اس طرح کروڑ وں روپے کمارہی ہے۔ ملازمین سے رویہ مشفقانہ نہیں بلکہ انتقامانہ درشتگی اور رعونت والا ہے۔ کمپنی چھوٹے ملازمین کو تو کیا افسروں کو بھی لفٹ نہیں کرواتی۔ نجکاری کے بعدسودے میں طے شدہ رقوم مختلف قسطوں میں ادا کی جانی تھی مگر کوئی قسط بھی ادا نہیں کی گئی ۔
یواے ای کی اس کمپنی کے اندر حکومت پاکستان کے وافر حصص ہیں اس لیے کون پوچھ سکتا ہے؟جو ملازم ذرا سی بھی کسی تکلیف کا اظہار کرے یا جائز مطالبہ کرے اسے بغیر کسی اظہارِ وجوہ کا نوٹس دیے محکمہ سے فارغ سمجھیں۔اسے پنشن بھی نہیں ملے گی ۔کئی سابقہ پنشنرز بھی روتے پھرتے ہیں۔ ہر سال بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر ادھر اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ دراصل پاکستان دشمن قوتون کا یہ کریہہ پلان تھا کہ پاکستا ن کی تباہی کے لیے اس کے سبھی اعلیٰ قومی اداروں ، محکمہ فون،پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز کی نجکاری کروا کرا پنے مخصوص ایجنٹوں کا قبضہ کروادیا جائے۔ اس طرح سے قومی رازوں سے پردہ اٹھناایجنٹوں کے ذریعے آسان ہو جائے گاجس سے مذکورہ ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
اب پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شروع ہے حکمران اس کو بھی ملک کے لیے بوجھ سمجھتے ہیں۔راوی بتاتا ہے کہ دراصل اسے خود ہی خریدنے کا منصوبہ ہے بس ذرا ملکیتی نام ہی کسی بیرونی کمپنی کا ہو گا ۔پی آئی اے ملازمین و افسران سب ہی پریشان ہیں ۔انہوں نے ہڑتالیں کر رکھی اور دھرنے دے رکھے ہیں مگر حکومت اس کی نجکاری پر تلی بیٹھی ہے۔ سوا لاکھ معصوم کشمیریوں کے قاتل بھارتیوں سے یاری نبھانے کی غرض سے پی آئی اے کی ٹکٹیںاور ان کی ریزرویشن بھارتی کمپنی کو دینے کے ارادے ہیں۔ جس میں حکمرانوں کا اپنا حصہ بھی ہوگا۔ضیاء الحق مرحوم کے حادثہ کی طرح پی آئی کی نجکاری کے بعد کسی نئی کمپنی کو کنٹرول حاصل ہوجانے کے بعد عملہ بھی ان کا ہو گا اگر پرانا عملہ ہوا بھی تو وہ کمپنی کی غلامی ہی کریں گے۔ یہ ان کی صوابدید ہو گی کہ وہ جسے چاہیں سیٹ دیں یا نہ دیں ٹکٹیں بلیک ہوا کریں گی ۔کرایہ تو ڈھیروں زیادہ منافع کمانے کے لیے لازماً بڑھائیں گے جس سے ہم نے آج تک جو پی آئی اے کی ساکھ بنائی ہوئی ہے بلڈنگوں پر اور ادارہ کی بہتری کے لیے سرکاری خزانہ سے بھاری رقوم خرچ کی ہیںان سبھی کا فائدہ دشمن ہی اٹھائیں گے ۔کرایہ کی زیادہ وصولی سے پاکستانی لٹتے رہیں گے مگر اف تک نہ کرسکیں گے۔ کسی زمانے میں پی آئی اے کی مزدور یونین پیاسی و دیگر بہت مضبوط ہوتی تھی مگر نجکاری کے بعد لازم ہے کہ نئے مالکان مزدور یونینز کو ہی ختم کردیں جس سے ملازمین لازماً بے یار و مددگار ہو کر چھانٹیوں کے ذریعے مزید بے روزگار ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اورپاکستانی افواج کے کمانڈر اس کا فوری نوٹس لیں تاکہ پاکستانی مفاد کے خلاف نجکاری کا یہ عمل مکمل طور پر رک جائے۔
٭٭……٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں