اسلام آباد ہائیکورٹ،ٹیلی کام کمپنیز پر فون کال، ڈیٹا تک رسائی پر پابندی
شیئر کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے ٹیلی کام کمپنیز کو نگرانی کے لیے فون کال ، ڈیٹا تک رسائی سے روک دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دونوں درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی ۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کے وکیل سے استفسار کیا کہ پی ٹی اے نے جواب جمع نہیں کروایا ؟ وکیل نے بتایا کہ چھٹی کے باعث ہم اپنا جواب داخل نہیں کرواسکے ۔بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل روسٹرم پر آ ئے ۔جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ یہ بتایا جائے کہ شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت کون ریکارڈ کرتا ہے ؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 54 کے تحت پی ٹی اے کو اختیار ہے کہ وہ کالز ریکارڈ کرسکتا ہے ۔عدالت نے دریافت کیا کہ قانون بتائیں کس قانون کے تحت پی ٹی اے نگرانی کر رہا ہے ؟ کس سیکشن کے تحت پی ٹی اے والے سرویلنس کر رہے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لیگل فریم ورک کے ذریعے کر رہے ، عدالت نے کہا کہ جو بھی ہے آپ بتائیں شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت ریکارڈ کر رہے ہیں؟ زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں، آپ بتائیں آپ نے کس کو اجازت دے رکھی ہے ؟ کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ لوگوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں؟ اس پر منور اقبال دوگل نے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دے دیں میری استدعا ہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت برہم ہوگئی جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کتنا وقت چاہیے ؟ کب درخواست دائر ہوئیں ہیں؟ یہ 2023 میں درخواستیں آئیں ہیں، آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی، اگر آپ اب اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے ، قانون کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپ کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی۔