میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کوفیہ فلسطینی مزاحمت کی علامت ہے !

کوفیہ فلسطینی مزاحمت کی علامت ہے !

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

اسرائیل اور حماس جنگ کی آغاز کے بعد سے سیاہ اور سفید اسکارف جسے کوفیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، فلسطینوں کے حامی مظاہروں میں بہت چھایا رہا ہے۔ آسٹریلین سیاستدانوں میں سینیٹر مہرین فاروقی اور لیڈیا تھوڑا نے اسے پارلیمنٹ میں پہنا ہے اور اسے واشنگٹن میں بینجمن فرینکلن کے مجسمے پر بھی چڑھایا گیا ہے ۔امریکہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا اور مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ اور وہاں کے مقامی لوگوں نے فلسطین کے حق میں ہونے والی ریلیوں اور مظاہروں میں سیاہ اور سفید کوفیہ بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں اور اسے شانے پر گردن کے ارد گرد پہنا جا سکتا ہے یا پھر سر کے اوپر یا چہرے کے ارد گرد لپیٹا جا سکتا ہے ۔یہ روایتی اسکارف فلسطینیوں کے لیے کوفیہ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور اسرائیل اور حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے یہ بہت لوگوں کے لیے مزاحمت اور آزادی کی علامت بن چکے ہیں۔
دنیا بھر میں مظاہرین اسے یکجہتی کے طور پر پہنتے ہیں۔ اگرچہ اس لباس کو فلسطینیوں کے ساتھ سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ پہچانا جاتا ہے لیکن اس کا آغاز مشرقِ وسطی میں اس جگہ سے ہوا جہاں آج عراق موجود ہے۔ لفظ کوفیہ خود عراق کے شہر کوفہ سے جڑا ہوا ہے جو بغداد کے جنوب میں دریائے فرات کے کنارے واقع ہے۔ اس اسکارف کو کوفیہ کو عرب دنیا میں بہت سے لوگ پہنتے ہیں۔ یہ لباس شروع میں زیادہ تر کسان پہنتے تھے۔ فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد چاہے وہ عرب ہوں یا نہ ہوں کو روایتی کوفیہ پہنے دیکھا گیا۔ کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے ۔یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے ۔کچھ لوگ اسے فلسطین کا غیر سرکاری پرچم بھی کہتے ہیں ۔چند مورخین کے مطابق 1930 کے آس پاس کوفیہ کی اہمیت فلسطینی معاشرے میں بڑھنا شروع ہوئی اور تب ہی اس کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔ 1930میں فلسطین برطانیہ کے زیر اثر ا چکا تھا۔ پہلے جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطین سمیت مشرقی وسطی کا بیشتر حصہ لیگ آف نیشن کے فیصلے کے تحت مختلف اتحادی قوتوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ۔فلسطین 1920 سے 1948 تک برطانیہ کے زیر اثر رہا ۔تاہم اس دوران مقامی فلسطینیوں میں بے چینی بڑھتی گئی کیونکہ ان کے خیال میں برطانیہ صہیونی منصوبے کی حمایت کر رہا تھا جس کے تحت اس خطے میں ایک یہودی ملک قائم کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب یورپ سے مشرقی وسطی کی جانب بڑی تعداد میں یہودی آباد کاروں نے بھی رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس بے چینی کے باعث ہی عرب قوم پرستوں نے بغاوت کی اور یہ 1936 سے 1939 تک جاری رہی جیسے جیسے فلسطینیوں کی اجتماعی شناخت اور ان کی زمین پر ان کے حق کو لاحق خطرات بڑھتے گئے ۔کوفیہ جیسی ثقافتی علامات جو اتحاد اور شناخت کی علامت تھی زیادہ اہم ہوتی چلی گئی ۔یوں فلسطین کے حق میں بننے والے پوسٹرز اور سیاسی تصاویر میں کوفیہ نظر آنے لگا اور خواتین نے بھی اسے اوڑھنا شروع کر دیا۔ 1973کی ایک تصویر بین الاقوامی طور پر کافی مشہور ہوئی جس میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی رکن لیلیٰ خالد کلاشنکوف تھامے کوفیہ پہنے نظر آئیں۔ لیلیٰ نے بعد میں برطانوی اخبار گارڈین کو وضاحت دی کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ دکھانا چاہتی تھیں کہ مسلح جدوجہد میں وہ مردوں کے برابر ہیں۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں میڈیا کی وجہ سے کوفیہ مشہور ہوا اور پھر فیشن بن گیا۔ 1970میں مغرب میں بہت سے نوجوانوں نے کوفیہ کو اپنایا جسے وہ نو آبادیاتی نظام اور سرمایہ کاری نظام کے خلاف مزاحمت کی حمایت دکھانا چاہتے تھے۔ 1990 کی دہائی میں بہت سی مشہور شخصیات نے بھی کوفیہ پہنا جن میں برطانوی فٹ بالرز ڈیوڈ سکیم اور سنگر راجر واٹر شامل ہیں۔ امریکی اسٹورز میں اسے بطور فیشن بیچا جانے لگا جبکہ گوچی اور لوئی وٹان جیسے ڈیزائنر نے بھی اسے استعمال کیا ۔یہ کپڑا اتنا مشہور ہوا کہ چین تک میں اس کی تیاری شروع ہو گئی۔ اب فلسطین میں کوفیہ بنانے والی صرف ایک ہی فیکٹری باقی ہے۔ غرب اردن کے شہر ہبران میں 1961میں اس فیکٹری کو یاسر ہر بادی نے قائم کیا تھا ۔اگرچہ کوفیہ فیشن کا حصہ بھی بن گیا لیکن مورخین کے مطابق اس کی سیاسی اور ثقافتی اہمیت میں کبھی بھی کمی نہیں ہوئی۔ غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کے بعد سے اس کی اہمیت حالیہ دور میں ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے ۔کوفیہ تناؤ کا مرکز بھی بنا ہے اور دنیا کے چند حصوں میں اسے اوڑھنے پر پابندی بھی لگائی گئی۔ جیسا کہ جرمنی کے دارالحکومت برلن کے چند اسکولوں میں کوفیہ کی طاقت فلسطینی مزاحمت کی علامت کے طور پر کافی اہم ہے اور فلسطین کے حامی اس کی مدد سے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ 1930کی بغاوت کے بعد کوفیہ فلسطینی شناخت کا لازم و ملزوم حصہ بن گیا۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ نپکا کے باعث جب اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا۔ اس علامت کی شدت میں اضافہ ہوا۔ 1960سے قبل کوفیہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ مشہور نہیں تھا ۔عالمی سطح پر کوفیہ کی شہرت کا سہرایاسر عرفات کو دیا جاتا ہے ۔جو بذات خود فلسطینی مزاحمت کا چہرہ بنے یا سرعرفات کی کوئی تصویر ایسی نہیں جس میں ان کو کوفیہ کے بغیر دیکھا جا سکے۔ شام اردن اور لبنان میں انہوں نے یہی رومال پہنے لڑائی لڑی۔ جبکہ 1974 میں اقوام متحدہ میں فلسطین حق خود ارادیت پر تقریر کرتے وقت بھی انہوں نے کوفیہ پہن رکھا تھا ۔20 سال بعد جب ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تب بھی وہ یہ اوڑھے نظر آئے۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کوفیہ کی کڑھائی اور ڈیزائن فلسطینی ثقافت کے لیے علامتی معنی رکھتے ہیں۔ اس کے فریم کے گرد سیاہ پتے زیتون کے درخت کے پتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو لچک طاقت اور ہمت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ماہی گیر کے جال کا نمونہ بحر روم اور فلسطینیوں کے علامت ہے جن کا ذریعہ معاش ما ہی گیری پر منحصر ہے۔ وسیع لائن تجارتی راستوں کی عکاسی کرتی ہے جو خطے سے گزرتے ہیں اور تجارت سفر اور ثقافتی تبادلے کی ایک طویل تاریخ کی علامت ہیں۔ جنگ کے دوران لباس پہننے کے سیاسی مفہوم کے باوجود کوفیہ کی بھرپور تاریخ کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے ۔دنیا بھر میں ایک مخصوص کپڑے سے جڑی لوگوں کی اتنی دلچسپی نہایت غیر معمولی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی جو عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کی علامت بنا ہوا ہے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں