میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وسعت افلاک میں تکبیرِمسلسل

وسعت افلاک میں تکبیرِمسلسل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
جنوری2018میں برسلزکاشانداربوزارتھیٹرتاریخی لمحات سے متعلق عوامی جمہوریہ چین کی ویڈیوکابیک ڈراپ تھا۔یہ موقع تھاچینی نئے سال کے جشن کا۔ ایک گلوکارفن کامظاہرہ کررہاتھااوراس کی پشت پرچلائی جانے والی ویڈیو میں چین کی کامیابیوں کونمایاں طورپرپیش کیاجارہاتھا۔ویڈیومیں چین کے پہلے جوہری دھماکے،عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت، پہلے طیارہ بردار جہاز کی تیاری اوردیگرمعاملات سے دنیاکوآگاہ کیاجارہاتھا۔حاضرین میں موجود سفارت کار،فوجی نمائندے اوردیگر حکام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ سوال یہ نہیں تھاکہ وہ چین کی کامیابیوں کودیکھ کرمتاثر ہورہے تھے یانہیں۔ہوسکتاہے کہ متاثرہوبھی رہے ہوں مگراِس سے کہیں بڑھ کروہ حیرت زدہ بھی تھے اورتشویش میں بھی مبتلا تھے۔چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت، معیشت کے پنپتے ہوئے حجم اورٹیکنالوجی میں پیش رفت نے یورپ کے بہت سے پالیسی سازوں کوخوابِ غفلت سے جگادیاہے۔ یورپی یونین ایک زمانے سے غیراعلانیہ طورپر،مشنری اندازسے چین کے بارے میں سوچتی آئی ہے۔چین کے مستقبل کے حوالے سے مختلف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں مگراب اندازہ ہوتاہے کہ بیشتر اندازے خام خیالی یاخوش فہمی پرمشتمل تھے۔
چین کی معاشی وعسکری قوت میں غیرمعمولی اضافے کے ساتھ بیجنگ،واشنگٹن اوربرسلزکی اسٹریٹجک تکون میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکانے چین کو اسٹریٹجک مدمقابل کے روپ میں زیادہ دیکھاہے۔یورپ کے بیشتر قائدین کے مطابق ٹرمپ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اوران پرمکمل بھروسہ نہیں کیاجاسکتاجس کے نتیجے میں بیشتر یورپی ممالک نے حکمت عملی کے حوالے سے زیادہ خودمختاری کاراستہ اختیارکیا۔ٹرمپ نے افغانستان اور شام سے فوج نکالنے کااچانک اعلان کرکے امریکاکی 17سالہ ملٹری ڈاکٹرائن کے حوالے سے یو ٹرن لیکرجیمزمیٹس نے کواستعفی دینے پرمجبورکردیاکہ اب یورپ کی سلامتی کے حوالے سے معاملات پریشان کن ہوچلے ہیں۔
دسمبر2018میں بیجنگ نے یورپی یونین سے تعلقات کے حوالے سے وائٹ پیپرشائع کرتے ہوئے بتایاکہ کس طرح چین نے یورپی طاقتوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں مل کر کام کیابالخصوص ہائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ اب بیجنگ تائیوان اور تبت کے مسئلے پربرسلزسے کیا امید رکھتاہے اورکس طورچین نے اظہاررائے کی آزادی کیلئے خطرہ بننے والی جعلی اورمن گھڑت خبروں کے سدباب کیلئے بھی یورپی یونین کے ساتھ مل کرکام کیاہے۔وائٹ پیپرمیں یہ بھی درج ہے کہ امریکاکے یکطرفہ اقدامات کے آگے بند باندھنے کیلئے یورپ کوچین کاساتھ دیناچاہیے۔چینی قیادت نے اس وائٹ پیپرمیں یہ عندیہ بھی دیاکہ جہاں کہیں بھی امریکاکے انخلاسے خلاپیداہوگا،وہاں وہ اپنا کردار ادا کرکے خلاپرکرنے کوتیار ہے ۔ جرمی رفکن کے مطابق چین نے مابعدِجدیدیت کے لمحاتِ سعیدمیں دوعشروں تک یورپی خواب کوشرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔یورپی یونین کے بعض حکام کہتے ہیں کہ یورپی یونین جیوپالیٹکس نہیں کرتی اورجوکچھ بھی یورپی یونین کرتی ہے، اس کے سیاسی عواقب برآمد نہیں ہوتے۔یوں یورپی یونین اپنے علاقے کوبڑی طاقتوں کیلئے پلے گراونڈ کے طورپرپیش کرتی ہے۔یورپ نے خاصی مشقت سے جوخوئے اطاعت پروان چڑھائی ہے،اس نے چین کوبھی کھل کرکھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ روس نے یوکرین کے حوالے سے طاقت کاغیر معمولی مظاہرہ کیااوریوکرین سے جڑے ہوئے چند اوریورپی ممالک کوبھی کسی حدتک متاثر کیا مگر یورپی یونین کے مجموعی ماحول پراس کا کچھ خاص منفی اثرمرتب نہیں ہوا۔
یورپی یونین کے حکام بھلے ہی کہتے رہیں کہ یورپی یونین کے اقدامات کے سیاسی نتائج برآمد نہیں ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بعض یورپی ممالک نے انفرادی سطح پراوریورپی یونین نے اجتماعی سطح پرچین کوایک بڑے حریف کے روپ میں دیکھنا شروع کردیاہے۔چین کے میڈاِن 2025حکمت عملی نے یورپ کی ہائی ٹیک انڈسٹری کیلئے بیداری کاکردار اداکیاہے۔
یورپ اوربھارت دونوں ہی چین کوسنجیدگی سے لے رہے ہیں۔دونوں کیلئے چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی،عسکری اورمعاشی قوت نے ویک اپ کال کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیابھارت کا”یواشکتی آدرش” اوریورپین ڈریم متصادم ہوں گے؟ دسمبر2018میں یورپین کونسل نے ”ای یو اسٹریٹجی آن انڈیا”کے حوالے سے اخذ کیے جانے والے خیالات کو قبول کیا۔کیااِس سے یورپی یونین اوربھارت کے تعلقات کاایک نیادورشروع ہوا؟اب تک عام خیال یہ تھاکہ یورپی یونین نے چین کو زیادہ اہمیت دی ہے اور بھارت کومجموعی طورپرنظراندازکیاہے۔بھارت کے حوالے سے نئی حکمت عملی اپنانے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ یورپی یونین بھارت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اورساتھ ہی ساتھ ایک ایسے نئے عالمی نظام کو پروان چڑھانے کے حق میں ہے،جواصولوں کی بنیادپرکام کرتا ہو۔ علاوہ ازیں یورپی یونین سلامتی سے متعلق سیٹ اپ کوبہتر بنانے کی بھی کوشش کررہی ہے لیکن مودی سرکارکی طرف سے کینیڈاکے علاوہ دیگر ممالک میں خفیہ ایجنسی”را”کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے بعدیورپی یونین کی سلامتی کے اداروں نے انڈیاسے فی الحال اپنے کئی تحفظات کااظہارکردیاہے۔دوسری طرف ابھی یہ دیکھناباقی ہے کہ اس وائٹ پیپرکے مندرجات کی بنیادپرچینی قیادت کس نوعیت کے اقدامات کی راہ ہموارکرتی ہے۔
فروری2017میں فرانس،اٹلی اورجرمنی نے یورپی یونین سے کہاکہ وہ یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے کمیشن قائم کرے۔ تینوں یورپی طاقتوں نے اگرچہ کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ چینی باشندوں کی طرف سے کی جانے والی براہِ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر معمولی تشویش میں مبتلا تھے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یورپ کے بعض ممالک میں چینیوں کی سرمایہ کاری اِتنی زیادہ ہے کہ فرانس،اٹلی اورجرمنی کی تجویزپرکھل کربحث نہیں کی جا سکی۔یورپی کونسل، یورپی کمیشن اوریورپی پارلیمان تینوں ادارے اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات اوربحث کی منزل سے دوررہے۔ناقدین کہتے ہیں کہ اس حوالے سے پائی جانے والی موجودہ دستاویزمیں ذرابھی دم نہیں کیونکہ اس کی ساری طاقت ختم کردی گئی ہے۔
یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ کے حوالے سے تجویزایسے وقت سامنے آئی ہے،جب یورپی یونین کے بہت سے رکن ممالک کے لوگوں کویہ شکایت ہے کہ یورپی ممالک میں توبراہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت ہے تاہم اس کے مقابلے میں چین میں سرمایہ کاری کی گنجائش دی جاتی ہے نہ کھلی منڈی تک رسائی ہی دی جاتی ہے۔ چین کے بیشتر کاروباری ادارے دراصل ریاستی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔یورپ میں چینیوں کی سرمایہ کاری2008میں 70کروڑڈالرتھی۔ 2017میں یہ 30ارب ڈالر کی منزل تک پہنچ چکی تھی۔یونان کی بندرگاہ ”پیراس” میں چینیوں کی سرمایہ کاری اصل بلغراداور بڈاپیسٹ سے ہوتے ہوئے باقی یورپ تک راہداری کومعرضِ وجودمیں لانے کیلئے تھی،مگراب صاف محسوس ہوتاہے کہ اس سرمایہ کاری کے شدیداثرات یونان اورہنگری محسوس کررہے ہیں۔ویسے چینیوں کی بیشترسرمایہ کاری جرمنی،فرانس اوربرطانیہ میں ہے اور زوراس بات پرہے کہ جوٹیکنالوجی امریکاسے حاصل نہ کی جاسکتی ہووہ یورپ سے حاصل کرلی جائے۔دوطرفہ سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملہ اس وقت زیادہ اجاگر ہواجب جرمنی کے معروف روبوٹکس میکر”کوکا”کوچینی ملکیت کے ادارے”میڈیا”نے خریدا۔تجزیہ کاروں کومعلوم ہواکہ جرمن انجینئراب پیپلزلبریشن آرمی کیلئے روبوٹکس تیارکرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھاسودانہیں تھا۔
اب جرمنی نے بھی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پرگہری نظررکھناشروع کردی ہے۔اس بات کوسمجھنااب کچھ دشوارنہیں کہ چینی قیادت اورپوری قوم چینی خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے کی راہ پرگامزن ہے۔یورپ کے اپنے آنگن کے نزدیک بحیرہ اسود اوربحیرہ روم میں روس کے ساتھ جنگی مشقوں کاپروگرام ہے اورساتھ ہی ساتھ بحیرہ بالٹک میں بھی مشقوں کا پروگرام ، جس کے نتیجے میں متعدد یورپی ریاستیں بھی لرزش محسوس کیے بغیرنہ رہ سکیں گی۔یورپی یونین کے حکام بھی اس بات کومحسوس کررہے ہیں کہ چین اب روس کے ساتھ مل کر یورپ کومتاثرکرنے والے ماحول میں کام کررہاہے۔فروری2018میں جرمنی کے دوتھنک ٹینکس نے بھی اپنی رپورٹس میں بتایاکہ چین اب یورپ کے معاملات پرغیر معمولی حد تک اثراندازہونے کی بھرپورکوشش کررہاہے۔یہ سب کچھ اس قدرواضح ہے کہ یورپی یونین کے پالیسی سازاسے کسی طورنظراندازنہیں کرسکتے۔
جرمن چانسلرنے بلقان کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حوالے سے تشویش کااظہارکیاہے۔میونخ سیکورٹی کانفرنس2018میں جرمن وزیرخارجہ سگمار گیبریل نے چینی صدرشی جن پنگ کے پیش کردہ بیلٹ اینڈ روڈمنصوبے پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ چین ایک ایسانظام تیارکررہاہے جوہمارے نظامِ جمہوریت،انسانی حقوق اورآزادی کے اصولوں کی بنیادپراستوارنہیں۔بہرکیف،چین نے اپنی بھرپورمعاشی قوت کوبروئے کارلاکر یورپ میں اختلاف رائے پیدا کردیاہے۔اب بہت سے معاملات پرتمام یورپی طاقتیں ہم آہنگ ہوکربات نہیں کررہیں۔مثلامارچ2017میں ہنگری نے ایک ایسے مشترکہ خط پردستخط سے انکارکیاجوزیرحراست وکلاپرتشددکے حوالے سے تھا۔ جون2017میں یونان نے اقوام متحدہ میں ایک ایسے بیان کی راہ مسدود کر دی،جس میں چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی گئی تھی۔جولائی2016میں یورپی یونین کے ایک ایسے بیان کو ہنگری،یونان اورکروشیانے ویٹوکیا،جس میں بحیرہ جنوبی چین میں چین کے ملکیتی دعوؤں پرتنقید کی گئی تھی۔ان تمام مثالوں سے یورپی یونین کی پالیسیوں پر اثر اندازہونے سے متعلق چین کی صلاحیت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
کئی شعبے ایسے ہیں جن میں یورپ اب بھی واضح طورپربرتری کاحامل ہے۔نئی ہائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ اپنی برتری برقراررکھنے پرپوری تندہی سے کام کررہاہے اور یورپ سمجھتاہے کہ ایساکرناترقی اورسلامتی کے حوالے سے مستقبل کومحفوظ بنانے کی خاطرلازم ہے۔ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے یورپ بہت زیادہ محتاط ہے۔5۔جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ نے واضح حکمتِ عملی تیارکررکھی ہے اوراس پرمکمل طورپرکنٹرول برقراررکھے ہوئے ہے۔
یورپی یونین پرگہری نگاہ رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ہوسکتاہے کہ یورپی یونین کے حکام کواپنے آپشن بہت زیادہ پرکشش محسوس نہ ہوتے ہوں مگروقت آگیاہے کہ وہ محض تماشائی بنے رہنے کی روش ترک کریں اورمیدانِ عمل میں نکلیں۔یورپ کواب طے کرناپڑے گاکہ مابعدِ جدیدیت کے دورمیں سلامتی اورترقی دونوں حوالوں سے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ درست تھایایہ طریقہ ترک کرناپڑے گااوریہ بھی دیکھناپڑے گاکہ یورپی طاقتوں کامل جل کرچلنانئے عالمی نظام کوکسی حدتک بہتربناسکے گایانہیں۔تاہم چین نے یہ طے کررکھاہے کہ مستقبل میں دنیامیں سپرپاورکہلانے کیلئے جنگ اورجارحیت کی بجائے صلح جوئی سے تجارتی منڈیوں کواپنے حق میں استعمال کرناانتہائی ضروری ہے ، اس کیلئے چینی صدرنے2014 میں یورپی یونین کے صدردفترکادور کرکے چین اوریورپی یونین کے مابین چاراہم شراکت داریاں قائم کرنے کی ٹھوس تجاویزپیش کرتے ہوئے اپنے مستقبل وژن کاتعارف کروایاجس پروہ آج بھی سختی سے قائم ہے۔گزرتے وقت نے چینی صدرکی پیش کردہ تجاویزکودرست ثابت کردیااور موجودہ حالات میں اس کی عملی اہمیت اوربھی اہم ہوگئی ہے۔
افغانستان سے انخلا کے فوری بعدچین نے اپنی تجاری دانشمندی سے اس خلاکوبڑی تیزی کے ساتھ پرکیاہے اوراب اس خطے میں پاکستان، ایران، افغانستان کے ساتھ تمام ملحقہ ریاستوں میں اپنی تجارتی راہداری قائم کرکے ان ملکوں کی منڈیوں میں اپنا مضبوط مقام بنالیاہے جبکہ امریکا نے ایک بارپھریوکرین کے ذریعے روس کونیچادکھانے کیلئے اپنے کچھ یورپی اتحادیوں کی مددسے ایک نئی جنگ کاآغازکردیاہے لیکن جن مقاصدکے حصول کیلئے امریکاپرامیدتھا،وہ فی الحال خاک میں ملتے دکھائی دے رہے ہیں اورخودبین الاقوامی مالیاتی ادارے روس کی معیشت کوپہلے سے بہترقراردیتے ہوئے زمینی حقائق سے متفکرنظرآرہے ہیں جبکہ یوکرین کی جنگ کے آغازمیں سارے یورپ کوروس کی طرف سے گیس کی بندش کی سپلائی کاخدشہ لاحق ہوگیاتھااور یہی وجہ ہے کہ یورپ کھل کرامریکاکاساتھ دینے سے گریزاں نظرآتاہے۔
ادھردوسری طرف آج دنیامیں غیریقینی اورعدم استحکام بڑھتاجارہاہے جس کی وجہ سے چین اوریورپی یونین کے درمیان قریبی رابطے اور اس کے نتیجے میں باہمی تجارتی فوائداور مستقبل کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے زیادہ توجہ دی جارہی ہے اورچینی صدرکی دس سال قبل دی گئی تجاویزاورچینی وژن نے ثابت کردیاہے کہ باہمی اتفاق اورتعاون اورملکی ترقی کیلئے اپنے ممالک کے عوام کیلئے خوشحالی کے نئے باب کھولے جاسکتے ہیں جس کیلئے غیرضروری خدشات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب چین یورپی یونین کے سب سے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے،اوراس کے برعکس عالمی تجارتی مندی کے منفی اثرات کے باوجودچین اوریورپی یونین کے مابین مجموعی تجارتی حجم2023 میں783بلین ڈالرتک جاپہنچاہے جس میں دوطرفہ سرمایہ کاری کااسٹاک250بلین ڈالرسے تجاوزکرچکاہے۔
چین نے ثابت کیاہے کہ وہ کاروباری تعاون،سائنس اورٹیکنالوجی میں تعاون اورسپلائی میں یورپ کاقابل اعتماد،کلیدی،ترجیحی اورصنعتی شراکت داربننے کیلئے تیارہے کیونکہ دونوں فریقین باہمی کامیابی اورمشترکہ خوشحالی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوردونوں کے مابین
تعاون ڈیجیٹل معیشت،سبزترقی اورماحولیاتی تحفظ،نئی توانائی اورمصنوعی ذہانت جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھنے کی مکمل صلاحیت ہے۔
یورپی یونین چیمبر آف کامرس ان چائنا (ای یوسی سی سی)کی جانب سے جاری کردہ بزنس کانفیڈنس سروے2023کے مطابق سروے میں شامل90فیصدسے زائدیورپی کمپنیاں چین کواپنی سرمایہ کاری کی منزل بنانے اورسروے میں شامل80فیصدسے زیادہ چینی کمپنیاں یورپ میں اپنے کاروبارکو بڑھانے کاہوم ورک مکمل کرچکی ہیں۔چین دنیاکاسب سے بڑاترقی پذیرملک ہے اوریورپ کسی بھی دوسرے براعظم کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ممالک کاخطہ ہے۔چین اوریورپی یونین دونوں بکھری ہوئی عالمی معیشت اورتحفظ پسندی کی بڑھتی ہوئی لہرکے سامنے محتاط رہ کرکھلے پن کے ساتھ منصفانہ مسابقت اورآزادتجارت کوبرقراررکھنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔سلامتی کے تصورکو بڑھا چڑھا کرپیش کرنے سے گریزکی پالیسی اختیارکرتے ہوئیگلوبلائزیشن کے خلاف مشترکہ مزاحمت کیلئے تیاری کے مراحل میں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین بیلٹ اینڈروڈانیشی ایٹو اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹوکے حصول کیلئے مشترکہ ہدف کے تعاقب میں یورپی یونین اوردیگریورپی ممالک کی فعال شرکت کابھی خیرمقدم کررہاہے اوریورپی یونین کی گلوبل گیٹ وے حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کیلئے بھی تیارنظرآتاہے تاکہ ترقی پذیر ممالک ترقی کے اپنے سفرکوتیزکرنے میں مدد کیلئے متعلقہ طاقتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔بدلتی ہوئی اور غیرمستحکم بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظرچین اوریورپ کومزیدتعاون کی ضرورت ہے۔دونوں فریقوں کو کثیرالجہتی پرعمل کرنے،کھلے پن اورترقی کی وکالت کرنے اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو آسان بنانے کیلئے مل کرکام کرناہوگا۔انہیں مشترکہ طورپرایک مساوی اورمنظم کثیرقطبی دنیاکی تعمیرکرناہوگی اورعالمی سطح پرفائدہ منداورجامع اقتصادی عالمگیریت کوفروغ دیناہوگا۔
قدرت نے پاکستان کوایک بارپھرایک سنہری موقع دیاہے کہ وہ اپنے جغرافیائی وجودکی وجہ سے ان فوائدکوسمیٹ سکے اوراب تک سی پیک پراجیکٹ کی تکمیل میں مجرمانہ تاخیرکافوری ازالہ کرتے ہوئے ایسے ہنگامی اورانقلابی اقدامات اٹھائے تاکہ برادرعرب ممالک کی طرف سے آنے والی سرمایہ کاری کوبھی ایک ایسارخ میسرآجائے جس کے بعدیورپی ممالک کی سرمایہ کاری بھی پاکستان کارخ کرے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری اوربدامنی کوختم کرنے کاسازگارماحول پیداکیاجائے اورتمام سیاسی جماعتیں کم ازکم ملکی معیشت پراتفاق کرتے ہوئے ایک ایساباہمی لائحہ عمل تیارکریں کہ ملک میں جوبھی حکومت آئے لیکن ان معاشی اہداف کوکبھی بھی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایاجائے گا۔علامہ اقبال یادآگئے:
اندازبیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شایدکہ اترجائے ترے دل میں مری بات
یاوسعت افلاک میں تکبیرِمسلسل
یاخاک کے آغوش میں تسبیح ومناجات
وہ مذہب مردان خودآگاہ وخدامست
یہ مذہب ملاوجمادات ونباتات


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں