میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجٹ کے غیر معاشی پہلو

بجٹ کے غیر معاشی پہلو

ویب ڈیسک
منگل, ۳۰ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مئی کی تپتی دوپہرمیں جب کہ سندھ اور پنجاب سے احتجاج کے لیے وفاقی دارالحکومت کے مشہور و معروف ڈی چوک میں آئے کسانوں کی مارپیٹ کے چند گھنٹے بعد ہی وفاقی وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈارنے ن لیگ کی حکومت کااگلے مالی سال کے لیے مالیاتی تخمینہ (یعنی بجٹ) ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے سامنے پیش کردیا ۔ جناب اسحاق ڈار اپنی پارٹی کے ”ن “ کا اندرونی نکتہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کی حیثیت پارٹی میں کچھ ایسی ہی ہے کہ ان کے وجود کے بغیر ان کی پارٹی نون غنہ ہو جاتی ہے۔ اپنی پارٹی میں ان کی حیثیت نائب وزیر اعظم کی بھی ہے۔ پہلے چار بجٹوں میں موصوف صحافیوں سے لڑتے ،بھڑتے، اور افسرِ شاہی پر دانت کچکچاتے پائے گئے تھے۔ لیکن اب کی بار ان کی خندہ پیشانی ، برداشت اور خوش اخلاقی نے گزشتہ چار سالوں کی ساری کلفت دھو نے کی کوشش کی کیوں کہ یہ انتخابی بجٹ تھا۔
انہوں نے پہلے دن اقتصادی جائزہ پیش کیا، دوسرے دن وفاقی بجٹ اور تیسرے دن بعد ازبجٹ پریس کانفرنس اور درمیان میں ان گنت ٹی وی انٹرویوز، لیکن اس دوران ان کے جبین پر شکن شاید ہی کسی کو نظر آئی۔ جب ایک صحافی نے پوچھا کہ غیر ہنرمند کارکن کی کم از کم تنخواہ انہوں نے پندرہ ہزار روپے مقرر کردی ہے، تو مہربانی کرکے پندرہ ہزار میں ایک گھر کا بجٹ تو بنادیں، تو اس پر انہوں نے بے ساختگی سے کہا کہ ”یہ کام ہم آپ سے کروائیں گے“۔ شنید یہ بھی ہے کہ آخری وقت تک لیگی اراکینِ اسمبلی کا خیال تھا کہ کم از کم تنخواہ اٹھارہ نہیں تو کم از کم سولہ ہزار ضرور مقرر کی جائے اور اس پر تقریباً اتفاق ہو بھی گیا تھا لیکن عین وقت پر پنجاب کے خادمِ اعلیٰ صنعت کاروں کے نمائندے کے طور پر رو بہ عمل آئے اور اسے پندرہ ہزار تک محدود کروایا کیوں کہ پانچ سال پہلے ن لیگ کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں غیر ہنرمند کارکن کی تنخواہ کو پندرہ ہزار تک پہنچانے کا ہی وعدہ کیا تھا۔
اس سال چوں کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات پر ایک خاتون کی عمل داری تھی تو ان کا سگھڑ پن وزارت کے معاملات میں کچھ یوں نظر آیا کہ انہوں نے لاہور اور پنجاب کے علاوہ اندرونِ سندھ کے اکثر صحافیوں کو بذریعہ جہاز کے بجائے بذریعہ سڑک اسلام آباد تک ڈھونے کا اہتمام کیا۔ جی ہاں! لاہور کے سینئر صحافی جو ہمیشہ بذریعہ جہاز اسلام آباد پہنچا کرتے تھے، ان کو موٹروے ناپنے پر لگا دیا گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں متعین ایک دوست رابطے سے فون پر پوچھا کہ حکومت کے بجٹ پر اس دفعہ ”پرمقصد“ بحث کیوں نہیں ہو رہی تو انہوں نے فرمایا کہ حکومت نے پورے ملک سے ڈھونڈ کر ایسے صحافیوں کو اسلام آباد میں جمع کیا تھا کہ جن کی اقتصادی نامہ نگاری تو رہی ایک طرف خبر نگاری سے بھی دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ اس صورت میں بجٹ پر کوئی پر مقصد بحث نہ ہونے کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔ لیکن اس پورے میلے میں اندرونِ سندھ کے صحافیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کو دیکھ کر ن لیگ کے مستقبل کے سیاسی ارادوں کی نشاندہی ہو رہی تھی۔
وزیر خزانہ بعد از بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے جب بجلی کے شعبے کے سوا چار سو ارب روپے کی رقم کی زرِ تلافی (سبسڈی) کا اعلان فرما رہے تھے تو پتہ چلا کہ پی بلاک کے ہال کا ائیر کنڈیشنر کام نہیں کر رہا جس کی وجہ سے صحافیوں کے علاوہ وزیر خزانہ کے پسینے بھی چھوٹ رہے تھے۔ سال کے سال اس پریس کانفرنس کا مقام انعقاد بننے والے اس ہال کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں گئی تھی، بس یہی حال حکومت کے دیگر اعمال کا بھی تھا۔ لیکن یہ بات طے تھی کہ اقتدار کے پانچویں سال کے آغاز پر ن لیگ کی حکومت اس قدر تہی دامن بالکل نہیںلگی جتنی تہی دامن پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومت اپنے اقتدار کے پانچویں سال کی ابتدا میں تھی ، وہ الگ بات کہ عوامی توقعات پر نونی اس طرح پورے نہیں اترے، جتنے انہوں نے وعدے کر رکھے تھے۔
بجٹ اجلاس کی سب سے اہم بات حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا احتجاج تھا جو سکرپٹ کے مطابق ہوا۔ پہلے قائد حزبِ اختلاف کو موقع فراہم کیا گیااور احتجاج کرنے کے لیے اکٹھا کیے جانے والے کسانوں کو خطاب کرنے کا موقع فراہم کیا گیا اور پھر وزیر اعظم کی اجازت سے روایت کے خلاف قائد حزبِ اختلاف کو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سے پہلے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن جب اس خطاب کے بعد حزبِ اختلاف نے ایوان کے اندر بیٹھ کر شور مچانے کی کوشش کی تو قومی اسمبلی میں ن لیگ کے چیف وہیپ آفتاب احمد شیخ ، اٹھ کر حزبِ اختلاف کی نشستوں کے پاس پہنچے اور تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کو یاد دلایا کہ انہوں نے تو ”واک آوٹ“ کا وعدہ کیا تھا۔ ان کی آواز اس قدر بلند تھی کہ صحافیوں کی گیلری میں بھی سنی گئی۔ بس پھر کیا تھا، پیپلزپارٹی ، تحریکِ انصاف اور متحدہ کے ممبرانِ قومی اسمبلی کان لپیٹ کر اسمبلی سے باہر تشریف لے گئے۔ یوں اسحاق ڈار صاحب نے اپنی میٹھی میٹھی زبان سے بغیر کسی رکاوٹ اور شور شرابے کے ”سب اچھا “ کا وہ ترانہ گلا پھاڑ پھاڑ کر گانا شروع کیا جو سننے کے لیے ان کے قائد اور سمدھی میاں محمد نواز شریف اسمبلی میں تشریف لائے تھے۔
بجٹ کے تیکنیکی ، مالیاتی اور معاشی محاسن پر تو بحث وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پاس ہونے تک ہوتی رہے گی، لیکن اس کے خدو خال واضح طور پر سامنے آگئے کہ یہ سب ایک طے شدہ سکرپٹ کے تحت ہو گا، اس لیے جو بھی بات ہو گی اور ہو سکتی ہے وہ پرنٹ میڈیا میں ہی ہو پائے گی کیوں کہ الیکٹرانک میڈیا کو تو ریٹنگ کی دوڑ نے ناقابلِ برداشت بنا ڈالا ہوا ہے۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں