میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومتی ترجیحات(قسط نمبر1)

حکومتی ترجیحات(قسط نمبر1)

ویب ڈیسک
منگل, ۳۰ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

بجٹ بظاہر تو اعدادوشمار کا ایسا گورکھ دھندہ ہے جو عام آدمی تو کیا عمومی طور پہ ماہرین معاشیات کی بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔یہ اصل تو ملک کے آمدوخرچ کا تخمینہ اور آمد کو کن مدات میں خرچ کرنا ہے کی حکومتی ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتی ہے پاکستان میں پیش کردہ بجٹ کبھی بھی حقیقی اعدادوشمار کے مطابق نہیں ہوتے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال ضمنی بجٹ کی صورت میں اخراجات کی ان رقوم کی منظوری دی جاتی ہے جو حکومت بجٹ میں مختص رقم سے زائد کر چکی ہوتی ہیں اور اسمبلی سے ضمنی بجٹ کی صورت میں منظوری حاصل کر لی جاتی ہے ۔
راقم ماہرین معیشت تو کیا معیشت کے بنیادی اصولوں سے بھی نابلدہے لیکن کہتے ہیں کہ ہندسے خود بولا کرتے ہیں، وفاقی بجٹ میں سینکڑوں مدات ہےں جن پر تقریباً48 کھرب روپے کے اخراجات کا تخمینہ ہے یہ ایک بہت بڑی رقم ہے لیکن اتنی بڑی رقم کے بجٹ کے باوجود عوام کی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں کہ اس بجٹ میں دشمن سے جنگ کے لیے 9 سو20 ارب اور اللہ سے جنگ کے لیے 16 کھرب روپے رکھے گئے ،قوم کو بغیر محنت کی کمائی پر آمادہ کرنے کے لیے 121 ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن حکومت کی ترجیحات میں تعلیم شاید آخری ترجیح ہے جس کے لیے صرف 35 ارب اور 70 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں صحت کے لیے کیا رقم رکھی گئی ہے اس کی تفصیلات اخباری حد تک دستیاب نہیں جب بجٹ دستاویزات عام ہوں گی تومعلوم ہو گا 20 کروڑ پاکستانیوں کی صحت کے لیے کیا رقم رکھی گئی ہے ۔
بجٹ کا تخمینہ تقریباً48 کھرب روپے ہے اور اس کا 34 فیصد حصہ قرضوں اور اس پر عاید سود کی ادائیگی پر خرچ ہو گا اب اس میں اصل کتنی واپسی ہے اور سود کتنا ہے ابھی اس کا اندازہ نہیں ہے لیکن جتنا سود اور اصل واپس کیا جارہا ہے اس کا تقریباً70 فیصد نئے قرضوں کی شکل میں لیا بھی جارہا ہے ،2013ءمیں جب میاں صاحب نے اقتدار سنبھالا تھا تو پاکستان پر قرضوں کا حجم14 ہزار ارب سے کچھ زیادہ تھا جو 2016-17ءکے مالی سال کے اواخر تک بڑھ کر تقریباً21 ہزار ارب کے قریب جا پہنچا ہے یعنی اس کا چار سال میں کوئی 7 ہزار ارب کا نیا قرضہ لیا گیا ہے اور قوم پر قرضوں کے بوجھ میں اس عرصہ میں تقریباً 50فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے یہ رقم کہاں گئی اس کا کسی کو اندازہ نہیں کہ عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے ہے مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آسکا ہے، لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں اضافہ ہوا ہے، بے روزگاری کی شرح بڑھی ہے ،کاغذی صفحہ پر افراط زر کچھ بھی ظاہر کیا جائے لیکن اصل افراط زر 27 سے 28 فیصد ہے ۔
میں ماضی کی بات نہیں کرونگا کہ 1964ءتک جب کہ پاکستان ناصرف تشکیل کے مراحل سے گزر رہا تھا بلکہ تقریباً2 کروڑلوگوں کی نقل مکانی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات سے بھی نبردآزما ہو رہا تھا اور تقسیم ہند کے وقت ملنے والے وسائل سے بھی محروم تھا، لیکن اس کے باوجود پاکستانی قوم قرضہ لینے نہیں دینے والی تھی اور اس وقت کے مغربی جرمنی کو 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا تھا۔ 1964ءمیں پاکستان سے قرضہ لینے والا جرمن آج دنیا کے 8 ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے اور پاکستان پسماندہ ممالک کی فہرست میں بھی نچلے درجوں پر آتا ہے یعنی اسے ابھی پسماندگی سے نکلنے کے لیے بیسیوں ممالک سے اوپر آنا ہو گا لیکن ایسا کب ممکن ہو گا جب بجٹ بنانے والے بالغ نظری کا مظاہرہ کریں گے ۔
مخصوص اشیاءپر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی کمی سے واضح ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والوں کی ترجیحات کیا ہےں، قوم کے مفادات یا کسی مخصوص گروہ کی چاپلوسی کیا گاڑیاں عوامی ضرورت ہے جو ان پر ٹیکس کم کیے گئے ،گاڑیاں اشیائے تعشیات میں آتی ہیں ،غریب آدمی تو کیا متوسط آدمی بھی گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پولٹری کی صنعت پر کس کا راج ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سب جانتے ہیں کہ پولٹری کی صنعت بھی اب شریف راجدھانی کا حصہ ہے، شوگر ملیں باری – باری والوں کی ہیں ،انہیں مراعات دینے کا مطلب کیا ہے۔ کیا اس سے شکر کی قیمت کم ہو جائے گی، شکر انسانی ضرورت ہے لیکن بنیادی ضرورت نہیں بنیادی ضرورت گندم،چاول،دالیں،سبزیاں اور اشیاءخوراک ہے ان سب کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے خصوصاً گندم کی حالیہ فصل کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اور چھوٹے زمیندار کو جس طرح سے لوٹا گیا وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ محکمہ خوراک سندھ نے صرف اتنا کیا کہ گندم کی خریداری کے وقت نہ تو خریداری مرکز بنائے نہ ہی کسانوں کو باردانہ دیا ،کسانوں کا باردانہ دینے کا کام ہندو ساہوکاروں نے سنبھالا اب یہ ہندو ساہوکار کس کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے ہیں یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے ورنہ چند سال قبل تک ایک چھوٹا سا فریٹلائزر ڈیلر ایک سے زائد شوگر مل اور کئی ٹیکسٹائل ملوں کا مالک کیسے بن گیا؟ یہ کام راقم کا نہیں نیب اور دیگر متعلقہ اداروں کا ہے کہ وہ معلومات کریں اور اس کو قانون کی گرفت میں لائیں ۔
حکومت کی ترجیحات میں پہلی ترجیح سود کی ادائیگی ہے کہ آئینی اورقانونی ماہرین اپنی رائے کا اظہار کریں کہ کیا یہ دستور پاکستان کی خلاف ورزی نہیں اور کیا دستور پاکستان کی خلاف ورزی کرنے والا آرٹیکل 6 کا مجرم ہوتا ہے یا نہیں دستور پاکستان میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ تمام امور بشمول قانون سازی قرآن وسنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے انجام دیے جائینگے۔ سود کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور اس کے حرام ہونے کی شدت اس قدر ہے کہ اسے اللہ سے جنگ قرار دیدیا ہے ۔کسی بھی معاملے میں دستاویز لکھنے والااس کے گناہ کا ذمہ دار نہیں ہوتا لیکن سود کے معاملے میں حکم یہ ہے کہ سود لینے والا، دینے والا، اس کی دستاویز تیار کرنے والا، اور اس پر گواہ بننے والا تمام جہنمی ہیں ۔1992ءمیں اللہ کے احکامات اور آئین کی اسی دفعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے 6 ماہ میں سودی نظام کے خاتمہ کا حکم دیا تھا لیکن اس وقت بھی میاں محمد نواز شریف جو 1988 ءاور1990ءکے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھے اور جس کے پلیٹ فارم سے ملک میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا تھا اس اتحاد کی جانب سے وزیراعظم کے منصب پر فائز تھے آئینی،اصولی طور پر میاں صاحب کو اس فیصلے پر فوری عمل کرنے کا انتظام کرنا چاہیے تھا لیکن میاں صاحب نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر کے اللہ سے جنگ ختم کرنے اور صلح کرنے کا سنہری موقع گنوا دیا اور ملک اللہ سے حالت جنگ میں ہے اور جو اللہ سے حالت جنگ میں ہو تباہی وبربادی ہی اس کا مقدر بنتی ہے ۔
دشمن سے دفاع کے لیے 920 ارب روپے رکھے گئے ہیں یہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اصل ضرورت سے کم ہے لیکن اگر ملک کا دفاع مستقل بنیادوں پر مستحکم بنانا ہے تو ان مدات پر خرچ کرنا ہو گا جوحکومتی ترجیحات میں کہیں نہیں ہےں جیسا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے صر ف 35 ارب 70 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں پاکستان کی آبادی میں کم وبیش 30 لاکھ طلبہ وطالبات یونیورسٹی کے درجہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یوں ان طلبہ وطالبات کے لیے ماہانہ صرف 445 روپے کی گراں قدر رقم رکھی گئی ہے اس رقم سے یہ طلبہ وطالبات کس اعلیٰ درجہ کی تحقیق اور تصنیف کا کام کر سکیں گے یہ کوئی مسئلہ فیثاغورث نہیں کہ جس کو حل کرنا ناممکن ہو ۔
1964ءمیں جس جرمنی نے پاکستان سے قرضہ لیا تھا وہاں پر تعلیم کو اول ترجیح دی گئی بجٹ اخراجات میں سب سے بڑی رقم تعلیم کے لیے رکھی جاتی ہے یوں اعلیٰ تعلیم یافتہ جرمن اعلیٰ ترقی یافتہ جرمن بھی بن گیا لیکن تھرڈ کلاس گریجویٹ اعلیٰ تعلیم کی افادیت کیا جانیں۔
حکومت کی ترجیحات میں صحت کا شعبہ بھی شامل نہیں ہے ادویات کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی بلکہ خدمات پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے شعبہ طب سے وابستہ افراد سے خدمات پر عائد ٹیکس لیا جاتا ہے یوں ان افراد پر عائد ٹیکس میں اضافہ ہو گا اور اس کا نزلہ بھی عام آدمی پر ہی گرے گا کہ ارکان پارلیمنٹ ،وزراءاور حکومت کے منظور نظر تو عام آدمی کو دستیاب سہولیات سے 10 گنا بہتر خدمات اپنی مراعات کے طور پر وصول کرتا ہے جس کی کوئی ادائیگی انہیں نہیں کرنی ہوتی بلکہ ان کو دی جانے والی ان سہولیات کا ہرجانہ بھی عوام نے ہی بھرنا ہوتا ہے ۔ادویات کی قیمتوں میں کمی کیونکر ممکن تھی کہ ایفیڈرین عباسی اس وقت شہنشاہ وقت کے منظور نظر اور لخت جگر بنے ہوئے ہیں اور ادویہ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد بھی (ن) لیگی ہے یا پھر ان کا تعلق باری – باری شراکت داری ٹولے سے ہے ۔
ایک جانب پولٹری کی مصنوعات کو ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹ دی گئی ہے تو دوسری جانب ڈیری مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس گھر میں کلو آتا اور پانچ روپے کی شکر جاتی ہو وہ پولٹری مصنوعات سے تو فیضاب ہونے سے رہا لیکن چائے کے لیے دودھ اس کی بھی ضرورت ہے اب جب ڈیری مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے تو دودھ اور اس سے متعلقہ اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ لازمی امر ہو گا یوں غریب کی جیب مزید ہلکی ہو گی چائے کی رنگت میں سیاہی کا اضافہ ہو گا ۔گوشت جو غریب آدمی کے لیے عیاشی بن چکا اب اس کے لیے گوشت کھانے کا خواب دیکھنا بھی عیاشی بن جائے گا ۔عوام کو سہولیات دینے کا ”حکومتی عزم“ بہت نمایاں ہیں۔ ریل، جو عام آدمی کی سواری ہے اور اکانومی کلاس جو عام آدمی کی معراج ہے اس کا کرایہ بھی اس قدر کر دیا گیا ہے کہ اب سفر وسیلہ ظفر نہیں ایک خوفناک خواب بن چکا۔
ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر جو لات ماری گئی ہے ہم اس کے لیے حکمران طبقہ کے خصوصاً اراکین قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ انہوں نے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کا گرانقدر اضافے کو قبول کیا ہے لیکن بس انہوں نے اتنا ہی توکیا ہے کہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 200 فیصد اضافہ کرایا ہے یہ 10 فیصد اضافہ بھی سرکاری ملازمین کے لیے ہے جبکہ نجی شعبہ کے ملازمین کے لیے کیا جانے والا اضافہ صرف 7 فیصد ہے جبکہ نجی شعبہ کے ریٹائرڈ ملازمین جو ای او بی آئی سے پینشن لے رہے ہیں ان کی پنشن میں کسی قسم کے اضافہ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اب یہ 7 فیصد اضافہ نجی شعبہ کے ملازمین کی زندگیوں میں کیا انقلابی تبدیلی لائے گا اس کا فیصلہ تو ارباب اختیار ہی کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم ہاو¿س کے لان کی دیکھ بھال کا خرچہ2 کروڑ روپے سے زائد ہے جس میں ملازمین کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں، صدر مملکت کی تنخواہ میں 6 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے اور نجی شعبہ کے محنت کش کی تنخواہ میں ہزار روپے کا اضافہ یہ وہ فرق ہے جو غریب کو غریب تر بنا رہا ہے اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک دروازے سے غربت داخل ہوتی ہے اور دوسرے دروازے سے ایمان نکل جاتا ہے گویا حکمران غربت میں اضافہ کر کے شیطان کے کام میں مددگار بن رہے ہیں۔
(جاری ہے)
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں