
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
بلوچستان میں دہشت گردی کی جو آگ بھڑک رہی ہے، اسے مقامی قیادت کے بغیر ٹھنڈا کرنا مشکل ہے ،بلوچ سرداروں کو قومی دھارے میںلاکر بلوچستان کو دنیا کا خوشحال خطہ بنایا جاسکتا ہے ۔دنیا کی قیمتی دھاتیں وہاں پر کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔بلوچستان کی موجودہ صورتحال اور اس کے حل پر بلوچستان کی معروف اور نامور شخصیت سردار نواب غوث بخش باروزئی سے فرزانہ چوہدری کے ساتھ گپ شپ ہوئی۔ نواب صاحب بلوچستان کے عبوری 20ویں وزیر اعلیٰ رہے۔ انہیں سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور قائد حزب اختلاف نوابزادہ طارق مگسی کی نامزدگی کے بعد اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا ۔نواب غوث بخش باروزئی بلیل زئی (پانی) باروزئی قبیلے کے رکن موجودہ تمندار اور سردار ہیں۔ ان کو سیاست اور سرداری وراثت میں ملی ہے۔ ان کے والد سردار نواب محمد خان باروزئی منجھے ہوئے سیاستدان اور بلوچستان کی سیاست میں نمایاں مقام رکھتے تھے جنہوں نے عوامی خدمت اور علاقائی ترقی کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں ،وہ بلوچستان اسمبلی کے دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور سپیکر منتخب ہوئے ان کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی لیڈروں میں ہوتا ہے۔
سردار غوث بخش باروزوئی بلو چستان کے ایک معتبر اور معروف سیاسی رہنما ہیں جن کا دامن خدمت ، سادگی اور خلوص سے لبریز ہے جنہوں نے بلوچستان کے مشکل حالات میں بھی اپنی بصرت سے وہاں کے عوام کی رہنمائی کی ۔انہوں نے اپنے والد کی سیاسی بصیرت ،عوام دوستی اور متوازن طرز قیادت کو نہ صرف اپنایا بلکہ اسے نئے انداز سے آگے بڑھایا ۔انہوں نے2007ء میں نگران وزیر مال کا قلمدان سنبھالا اور 2013ء میں بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے صوبے کی قیادت کی جہاں انہوں نے غیر جانبدارانہ اور ذمہ دار قیادت کا مظاہرہ کیا اور نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے صوبے میں شفاف انتخابات کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔سردار نواب غوث بخش نے ہمیشہ قومی یکجہتی ، شفافیت اور عوامی خدمات کو ترجیح دی اور اپنے مختصر عرصہ کے اقتدار میں صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کا کریڈٹ بھی ان کا ہی ہے ان سے بلوچستان کے موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال، بلوچستان کی ترقی اور حالیہ افسوس ناک واقعات سمیت ان کے ذاتی تجربات اور بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں کی گئی گفتگو بہت اہم ہے ۔اگر انکی تجاویز پر عمل کرلیا جائے تو بلاشبہ بلوچستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس کا واقعہ ایک افسوسناک المیہ ہے جو انسانی جان کی بے توقیری کا عکس ہے ۔یہ سانحہ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔یہ واقعہ بلوچستان کی ایڈمنسٹریش کی توقع کے برعکس ہوا ہے اور کسی کی بھی سمجھ میں ہی نہیں آیا ایڈمنسٹریشن کمزور ہو تو ایسے واقعے کی توقع کرنی چاہیے ۔ان حالات میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے جو بلوچستان کے حالات مزید خراب کر سکتے ہیں ۔بی ایل اے کو جہاں جہاں مواقع ملیں گے وہ وہاں وہاں حملے کریں گے۔ ناکامی کی پروا کیے بغیر وہ سمجھتے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں ،ان واقعات کی گونج دور تک تو جائے گی۔ اس وقت بلوچستان میں عوامی حکومت نہیں ہے اس لیے ایڈ منسٹریشن کو الرٹ رہنا چاہیے ،جہاں جہاں انتظامی کمزوری ہے وہاں وہاں کی سیکورٹی کو مضبوط کریں۔ ایڈمنسٹریشن کمزوری کی وجہ سے اس سانحہ میں ہمارے جوان اورغریب عوام بھی شہید ہوئے ہمیں سیکیورٹی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا جبکہ قبائل سوسائٹی کے بارے میںتاثر یہی ہے کہ یہ سو سال گزرنے کے بعد بھی بدلہ لیتے ہیں۔ اصل میں بلوچستان میں ایڈمنسٹریٹیو سیاسی پرابلم ہے۔ اس کو حل کیا جاسکتا ہے اگران
کے پاس وزڈم نہیں تو ہم سے پوچھیںیاکسی اور سے خان آف قلات لندن میں ہیںان سے رابطہ کریں۔ خان آف قلات کو آن بورڈ لیں اورمیری خدمات بھی حاضر ہیں ۔میں خان آف قلات سے بات کر سکتا ہوں اس کے علاوہ کوئی اورگنجائش نہیں ہے۔اسٹیبلشمنٹ اور ایڈمنسٹریشن نیوٹرل ہوجائیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھ نہیں آرہی غریب مر رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایکشن کا ری ایکشن بہت برا آتا ہے۔ سردار نواب غوث بخش باروزئی کا کہنا تھا کہ میری وزارت اعلی کا وقت بہت کم تھا۔ ان دنوں تو بلوچستان کے حالات موجودہ دور سے بھی بُرے حالات تھے ۔ایک نازک وقت تھا بطور نگران وزیراعلیٰ میری کوشش یہ رہی کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے مجھ سے کہا گیا کہ فیزز میں الیکشن کرواتے ہیں میں نے کہا نہیں پورے بلوچستان میں ایک ہی فیز میں الیکشن کراؤںگا جو میں نے کامیابی سے کروائے۔ اس وقت موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف حکمران خاندان سے ہیں۔ انہوں نے اقتدار کی ہر کرسی پر بیٹھ کر حکمرانی کی ہے ہر چیز کے بارے میں جانتے ہیں ۔اپنا سیاسی وزڈم یعنی حکمت عملی دکھائیں۔will power کی ضرورت ہے۔ بٹن آن آف کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ہم باہر بیٹھے ہیں ہم سے کوئی پوچھتا نہیں ہے۔ میں نے بھی حکومت کی ہے مجھے منسٹرز بھی نہیں دیئے تھے پھر بھی پرُامن ماحول میں الیکشن ہو گئے۔ میں بد نیت ہوتا تو معاملات ٹھیک نہ ہوتے۔ الیکشن اچھے طریقے سے ہو گئے کیونکہ میری نیت ٹھیک تھی۔ بی ایل اے کی آزاد بلوچستان کی خواہش پر پوچھے گئے سوال پر نواب صاحب کا کہنا تھا کہ ان کو آزاد بلوچستان کیوں چاہیے پہلے تو نہیں چاہیے تھا جب پاکستان بنا تو سارے کا سارا بلوچستان پاکستان میں آگیا ۔خان آف قلات نے1948ء میں اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کیا ۔خان آف قلات میرا رشتے دار بھی ہے ۔اصل ا سٹیک ہولڈر خان آف قلات ہیں ۔خان صاحب سے سب کچھ چھن گیا وہ تمام بلوچوں کے بڑے نواب ہیں۔ ان سے تو بات کریں کہ خان صاحب واپس آ جائیں ۔میں بھی ان کو کہتا ہوں سب کو ساتھ لے کر چلیں ۔ اس وقت بلوچستان کے مسئلے کا حل ایک ہی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اور بلوچ سب ایک ہو جائیں اور خان آف قلات کو واپس لائیں ۔ اگر بلوچ کی پسماندگی کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ حل ہو جائے گا۔ میں نے 28مئی 2013 کو ایوان اقبال میں میاں نواز شریف سے کہا تھا کہ ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنا ئیں آپ کی پارٹی کے جیتے ہوئے ایم پی اے کی تعداد زیادہ ہے۔ میاں نواز شریف نے کسی سے پوچھا کہ نواب غوث بخش کیا بات کہہ رہا تھا تو مجید نظامی نے کہا بہت زبردست بات کر رہا تھا۔میاں صاحب میری بات مان لیتے تو آج بلوچستان کے حالات بہت بہتر ہوتے مگر ان کو میر امشورہ پسند نہیں آیا اورانہوں نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں ۔زمین کے حساب سے آدھے سے زیادہ حصے کے ہم مالک ہیں ۔ میں نے میاں نواز شریف سے کہا رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ آپ بلوچستان کو کیا دے سکتے ہیں ۔موٹر وے بن رہا تھا بلوچستان میں بھی ہائی وے بنانا شروع کردیتے ۔بلوچستان میں اچھی ایجوکیشن کی ضرورت ہے ۔جب میرے والد چیف منسٹر تھے انہوں نے بلوچ نوجوانوں سے کہا تھا کہ اگر آپ کا استحصال ہو رہا ہے تو تعلیم حاصل کرو، اعلیٰ تعلیم حاصل کرو اور ان کی جگہ پہ آ جاؤ لیکن بلوچستان میں ایجوکیشن کاکوئی ادارہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان پیچھے رہ گیا ہے۔ بلوچستان کے پاس وسائل ہیں مگر ترقی نہیں کر پاتے ۔اب بھی بلوچستان دوسال میں ترقی کر سکتا ہے اگر چائنہ والی اسپیڈ لیں۔ 2012ء میں شہباز شریف چیف منسٹر تھے تو میں نے ان کو جنوری 2012 میں کہا کہ آ پ نے یہاں ہائی وے اور موٹر وے بنائی ہے ۔بلوچستان میں ایسی ہائی وے بنا دیتے تو ہم خوش ہوتے۔ عوام کو خوش رکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے چکر میںجو اسمبلی میں بیٹھے ہیں انہوں نے عوام کو معذور بنا کر رکھا ہے۔ سردار صاحب کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اجتماعی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریںیہاں کے نوجوان انتہائی باصلاحیت ہیں ۔زمین وسائل سے مالا مال ہے مگر ان سب کو مربوط حکمت عملی کے تحت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، روزگار اور امن ہماری اولین ترجیحات ہو نی چاہیے ۔اس موقع پر سردار نواب غوث بخش باروزئی نے نوجوانوں کو خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیم کو ہتھیار بنائیں ، منفی سوچ اور تعصب سے دور رہیں اور اپنے وطن سے وفاداری کو اپنا شعار بنائیں۔ قوم کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں ۔اگر آپ مضبوط ہوں گے تو بلوچستان بھی مضبوط ہو گا۔