جامعہ کراچی دھماکا،لاشوں کی شناخت کا عمل مکمل
شیئر کریں
سندھ فرانزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری (ایس ایف ڈی ایل)، جامعہ کراچی نے جامعہ کراچی میں خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کی شناخت کا تجزیاتی کام مکمل کرلیا ہے، جس کے بعد لاشوں کی شناخت ممکن ہوگئی ہے۔بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم(آئی سی سی بی ایس)جامعہ کراچی کے ترجمان کے مطابق سندھ فرانزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری جامعہ کراچی کو سانحہ والے دن کی شب محکمہ پولیس سے چار لاشوں کے نمونے ڈرائیور کے ریفرینس نمونے کے ساتھ موصول ہوئے تھے، ان میں تین چینی ماہرین اور ایک پاکستانی ڈرائیور کے نمونے شامل تھے۔ ترجمان کے مطابق آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کی ہدایت پرجلد از جلد تجزیاتی کام مکمل کر کے 26 گھنٹوں کے اندر رپورٹ جمع کروادی گئی ہے۔ جبکہ جامعہ کراچی خودکش حملے کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی جس کے مطابق بمبار خاتون شاری بلوچ اور شوہر ہیبتان بلوچ نے دھماکے سے قبل شادی کی سالگرہ منائی جبکہ وہ ایک روز پہلے جائے وقوعہ پر بھی گئی۔ خودکش بمبار خاتون شاری بلوچ اور شوہر ہیبتان بلوچ سالگرہ میں دونوں گنگناتے، ہنستے اور غبارے پھاڑتے دکھائی دئیے، خاتون بمبار دھماکے سے ایک روز قبل بھی جائے واردات پر موجود تھی، ٹھیک 2 بج کر 8 منٹ پر گاڑی کو کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوتے دیکھا گیا، خاتون خودکش بمبار ٹھیک اسی مقام پر کھڑی تھی لیکن نے اس نے دھماکا نہیں کیا۔خاتون خودکش بمبار نے گاڑی میں جھانک کر بھی دیکھا تھا، ہدف چائنیز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے جو اس روز گاڑی میں نہیں تھے، دھماکے والے روز شاری بلوچ دہلی کالونی والے فلیٹ سے روانہ ہوئی، خاتون بمبار رکشے میں سلور جوبلی گیٹ سے داخل ہوئی، رکشے کے آگے ایک سفید رنگ کی مشکوک گاڑی چلتی رہی، وہ گاڑی جامعہ کراچی میں داخل ہونے کے بعد رکشے کے آگے آگے چلتی رہی۔خاتون بمبار موقع پر پہنچ کر رکشے سے اتری اور لاسٹ منٹ ہینڈلر لیڈی سے ملی، خاتون بمبار نے اسے موبائل فون بھی حوالے کیا، یہ موبائل فون شاری بلوچ کو ممکنہ طور پر اسی کام کے لیے دیا گیا تھا، خاتون ہینڈلر وہ موبائل لے کر کسی سے بات کرتے ہوئے آئی بی اے کی جانب گئی، وہاں سے ممکنہ طور پر ایک بس میں بیٹھ کر فرار ہوگئی،شاری بلوچ کو بیگ پیک میں بم بنا کر دیا گیا، بم کہیں باہر بھی اس کے حوالے کیا گیا، بم میں انڈسڑیل ایکسپلوزو کے علاوہ فاسفورس کا استعمال بھی کیا گیا۔دھماکے کے بعد شاری بلوچ کے دہلی کالونی والے گھر سے کئی کتابیں ملیں، ان میں ایک ہندو سنسکرتی کی بھی کتاب تھی، گلستان جوہر والے فلیٹ میں وہ مارچ تک رہتی رہی، وہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھنٹوں فلیٹ کاریڈور میں بیٹھی باتیں کرتی رہتی، اس نے اپنی بیٹی کا قریبی اسکول میں داخلہ بھی کروایا لیکن 6 ماہ تک فیس جمع نہ کروائی۔