ڈان لیکس ،تاریخ بہ تاریخ۔۔۔!!
شیئر کریں
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ہفتے کے روز ڈان لیکس سے متعلق انکوائری کمیٹی کی سفارشات منظوری دی ہے۔تاہم ‘ڈان لیکس’ کے بارے میں حکومت پاکستان اور فوجی قیادت میں باہمی اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آ گئے جب اس نوٹیفیکیشن کو فوج نے مسترد کر دیا ۔ڈان لیکس میں کب کیا ہوا،ذیل میں ہم آپکے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
6 اکتوبر
روزنامہ ڈان میں سیرل المائڈہ نے وزیر اعظم ہاو¿س میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دی۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا ۔
10 اکتوبر
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے ڈان کے اسسٹنٹ ایڈیٹرسرل المیڈاکی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے ان کی نشاندہی کی جائے۔
جنرل (ر)راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل رضوان اختر کے ہمراہ محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔وزیر اعظم ہاو¿س کے پریس آفس کی طرف سے سول اور فوجی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں جو بیان جاری کیا گیا اس میں ملک کے معروف انگریزی اخبار ڈان میں ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکاءاس بات پر مکمل طور پر متفق تھے کہ یہ خبر قومی سلامتی کے امور کے بارے میں رپورٹنگ کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دوسری طرف سرل المائڈا نے ٹوئٹر پر لکھاکہ مجھے بتایا گیا ہے اور شواہد دکھائے گئے ہیں کہ میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔’ انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا: ‘میں آج رات بہت اداس ہوں، یہ میری زندگی، میرا ملک ہے، کیا غلط ہو گیا۔ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ میرا کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ یہ میرا گھر ہے ،پاکستان۔صحافتی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے کے حکومتی اقدام کی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیاکہ ان کا نام ای سی ایل سے خارج کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
13 اکتوبر
وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ سرل المائڈہ کی ایک اہم اجلاس کے بارے میں خبر سے دشمن ملک کے بیانیے کی تشہیر ہوئی ہے لہٰذا اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ انہی تحقیقات کی وجہ سے سرل المائڈہ کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی گئی ۔
‘وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کی انکوائری ہوگی اور اس فیصلے کے ڈھائی گھنٹے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ اس معاملے کے مرکزی کردار (سرل) نے ملک سے باہر جانے کے لیے نشست بک کروائی ہے۔ اس وقت میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیتا۔’وزیرداخلہ نے کہا کہ اگر ایسے نہ کیا جاتا تو کہا جاتا کہ حکومت نے خود خبر لیک کی اور پھر خود ہی خبر دینے والے کو ملک سے بھگا دیا۔
14 اکتوبر
پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ راحیل شریف کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں وزیراعظم ہاو¿س میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس سے متعلق جھوٹی اور من گھڑت خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
وزیر داخلہ نے اخبارات کی دو تنظیموں کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے مشترکہ وفود سے ایک ملاقات میں سرل المائڈا کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق تاہم اس فیصلے سے اس خبر کے بارے میں جاری تحقیقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
30 اکتوبر
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو انگریزی اخبار ڈان میں قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ان کے مطابق پرویز رشید کے حوالے سے دستاویزی اور دیگر معلومات سے معلوم ہوا کہ جب انھیں پتہ چلا کہ ایک صحافی کے پاس وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کوئی خبر ہے تو انھوں نے اس صحافی کو دفتر طلب کیا اور اس سے ملاقات کی۔
7 نومبر
حکومت نے ڈان لیکس کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں بیوروکریٹس کے علاوہ خفیہ اداروں کے اہلکار بھی شامل تھے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق سات رکنی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کو سونپی گئی جبکہ دیگر ارکان میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور کے علاوہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔
12 نومبر
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ اہم اجلاس سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی انگریزی اخبار ڈان کی خبر سکیورٹی لیک نہیں تھی۔انھوں نے کہا تھاکہ صحافی سرل المائڈہ ملک واپس آ کر تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔دوسری طرف پاکستان میں حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں نے حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کو مسترد کر دیا تھا۔
25 اپریل
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کمیٹی کی سفارشات کو وزیر اعظم کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد عوام کے سامنے لایا جائے گا۔تاہم حکومتی حلقوں سے متضاد بیانات سامنے آئے ۔وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘تاحال رپورٹ وزیراعظم کو پیش نہیں کی گئی اور اس حوالے سے میڈیا کی رپورٹس درست نہیں ہیں۔’
29 اپریل
وزیراعظم نے ڈان لیکس سے متعلق انکوائری کمیٹی کی سفارشات منظور کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ امور سے متعلق معاون خصوصی طارق فاطمی سے عہدہ لے لیا گیاہے۔کل وزیر اعظم ہاو¿س سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کے 18ویں پیرے کی منظوری دی ہے۔وزیر اعظم ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو¿ تحسین کے خلاف 1973 کے آئین کے ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ظفر عباس اور سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کر دیا جائے جبکہ اے پی این ایس سے کہا جائے گا کہ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دے۔بعد ازاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم ہاو¿س کی جانب سے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیے کو مسترد کردیا۔انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ‘ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیا گیا اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔