ظلم کی حکومت ( گزشتہ سے پیوستہ)
شیئر کریں
حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں مملکت اسلامیہ کی حدود میں آدھے سے زیادہ یورپ ،فارس(ایران)، وسطی ایشیا کی ریاستوں سمیت بڑے علاقے شامل ہو چکے تھے، لیکن اس دور میں اتنی وسیع وعریض مملکت میں قیام انصاف نہ صرف خلیفہ کی اولین ترجیح تھی بلکہ اس پر عمل بھی ہوتا تھا اور ظلم ناپید ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ بکری اور شیر ایک ہی وقت میں دریا کے ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے لیکن شیر کو جسارت نہ تھی کہ وہ بکری کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ مدینہ سے سینکٹروں میل دور نیل کے کنارے ایک دن بکریوں کاایک گلہ بان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہا تھا کہ اچانک شیر نے ایک بکری کو دبوچ لیا،گلہ بان نے بلند آواز سے انا للہ وان الیہ راجعون کہا تو وہاں موجود دیگر افراد نے اس سے اس کا سبب جاننا چاہا۔گلہ بان نے کہا کہ امیرالمو¿مین عمرفاروقؓ ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے علم ہوا کہ امیر المو¿مین کا انتقال ہو چکا ہے۔گلہ بان نے کہا کہ اس علاقہ کے مملکت اسلامیہ میں شامل ہونے سے پہلے درندوں کا یہی وطیرہ تھا کہ وہ جب چاہتے تھے بھیڑ ،بکری کو پھاڑ کھاتے تھے ،حضرت عمر فاروقؓ کے دور آغاز اور مصر کے مملکت اسلامیہ میں شامل ہونے کے ساتھ ہی درندے اپنے اس چلن سے باز آگئے تھے لیکن آج اچانک شیر کا یہ حملہ بتاتا ہے کہ درندوں میں سے وہ ہیبت ختم ہو چکی جو انہیں اس ظلم سے دور رکھتی تھی ،بعدازاں ملنے والی اطلاع کے مطابق تقریباً اسی وقت امیرالمو¿مین کا وصال ہوا تھا کہ جس وقت شیر نے بکری کو دبوچا تھا، یہ تو ہےں دور اسلامی کے ابتدائی ایام کی چند یادگار مثالیں، جس کو یقین نہ ہو تاریخ ابن خلدون پڑھ لے ۔
عوامی جمہوریہ چین 1948ءمیں آزاد ہوا، چینی قوم آزادی سے قبل افیون کی اس قدر عادی تھی کہ مرد وخواتین تو کجا، بچے بھی ہمہ وقت افیون میں دھت رہتے تھے ۔چین بھی ایک نوآبادی تھا اور نوآبادی قائم کرنے والوں کا ایک اُصول ہے کہ جب باہر نکلو تو ایک ناسور وہاں ضرور چھوڑ جاو¿ جیسے تقسیم ہند میں کشمیر کو متنازعہ رکھ کر ایک دنیاوی جہنم بنا دیاہے، اسی طرح چین کی آزادی کے ساتھ ہانگ کانگ کو خودمختار حیثیت دے کر اور اقوام متحد ہ میں پانچ ویں سپرپاور کا حق دے کر ویٹو کا حق دلا دیا تھا۔ یوں ایک طویل عرصہ تک چین اور ہانگ کانگ میں شدید تنازعہ رہا، ہانگ کانگ کی آزادی میں ماوزئے تنگ کا کردار ایسا ہی ہے جیسا قیام پاکستان میں محمد علی جناح کا، اس نے ایک خوابیدہ قوم کو ناصرف بیدار کیا بلکہ انہیں آزادی کا وہ جوش وجذبہ بھر دیا کہ سامراج کو یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ آزادی کے ساتھ ہی چین نے سخت قوانین بنائے، خصوصاً کرپشن کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین بنائے گئے، جس کے مطابق معمولی سے معمولی کرپشن میں ملوث شخص کی سزا بھی موت ہے، وہاں گلے میں پھندا ڈالنے کی سزا کا طریقہ رائج نہیں ہے، جرم ثابت ہونے کے بعد مجرم کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اس کے جسم کو ٹارگٹ بورڈ جانتے ہوئے چھلنی کر دیتا ہے ۔
چین کی آزادی کے کچھ عرصہ بعد چیئرمین ماو¿ کابیٹا کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوتا ہے، مقدمہ چلتا ہے اور الزامات ثابت ہو جاتے ہیں، یہ چیئرمین ماو¿ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ عدالت قانون کے مطابق موت کی سزا سناتی ہے اور فیصلہ توثیق کے لیے سپریم کونسل کے چیئرمین ” چیئرمین ماو¿زے تنگ” کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ رفقائ، جن میں ماو¿ کے قریب ترین ساتھی وزیراعظم چواین لائی، جو جانتے ہیں کہ چیئرمین کے بیٹے کا آزادی کی تحریک میں کتنا بڑا کردارہے، اس کا حوالہ دیتے ہوئے چیئرمین سے مجرم کو معاف کر دینے کی درخواست کرتے ہیں لیکن یہ وقت چیئرمین ماو¿ کے لیے آزمائش کی گھڑی تھی اور چیئرمین ماو¿ کی کامیابی نے آج چین کو دنیا کی سپرپاور بنا دیا۔ چیئرمین ماو¿ نے تمام ساتھیوں کا مشورہ مسترد کرتے ہوئے قانون پر عملدرآمد کو ترجیح دی اور یوں اکلوتا بیٹا فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردیا۔ لیکن اس قربانی نے چیئرمین ماو¿ کا مقام چینی قوم کی نظر میں اتنا بلند کیا اس کا انداز ہ کوئی نہیں کر سکتا ۔تھائی لینڈ میں وزیراعظم کرپشن کے الزام میں پکڑا جاتا ہے اور پھر سزائے موت پا جاتا ہے ،جاپان تو اس معاملے میں بہت آگے ہے ایک سے زائد وزرائے اعظم نہ صرف کرپشن کا الزام عائد ہونے کے بعد ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے ہیں بلکہ حوالہ¿ زندان بھی ،کہ جاپان میں سزائے موت کا قانون نہیں ہے یہ ظلم کے خاتمہ کی ایسی کوشش ہے جس کے بغیر کوئی قوم برقرار نہیں رہ سکتی ۔
پھر ذرا اسلامی دنیا کی طرف آتے ہیں ،ایران میں رضا شاہ پہلوی کا دور ختم ہو چکا ۔ امام خمینی کا دور اقتدار تھا، یہاں بھی کرپشن پر موت کی سزا کا قانون منظور ہو چکا تھا ۔خمینی کا داماد کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوا اور الزام ثابت ہو کر مجرم قرار پایا۔ خمینی کو ایرانی دستور کے مطابق وہ اختیارات حاصل تھے کہ وہ پورے قانون کو لپیٹ کر ایک جانب رکھ سکتے تھے کہ وہ سپریم کمانڈر تھے اور سپریم کمانڈر کا حکم ہی آخری قانون کا درجہ رکھتا ہے ،اب ایک طرف بیٹی کا سہاگ تھا اور دوسری جانب قانون کی بالادستی۔ سپریم کونسل کے اراکین نے مشورہ دیا کہ اپنا اختیار استعمال کیجیے اور بیٹی کو بیوہ ہونے سے بچا لیجیے ،امام خمینی نے سپریم کونسل کی سفارشات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا، فیصلہ توثیق کے لیے پیش ہوا اور خمینی نے فوری عمل کے حکم کے ساتھ فیصلے کی توثیق کر دی۔ داماد تہران کے چوک پر پھانسی میں جھول گیا۔ بیٹی بیوہ ہو گئی لیکن قانون کی بالادستی رشتہ پر غالب نہ آسکی۔ یوں آج ایران دنیا کی واحد سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکار رہا ہے ۔1974ءمیں شاہ فیصل بن عبدالعزیز بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہوئے اور بھتیجے کی بھی قصاص میں گردن اُڑا دی گئی، یوں ظالم اپنے انجام کو پہنچے اور انصاف کا بول بالا ہوا۔ یہ مملکتیں آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں لیکن پاکستان، جس نے آزادی کے بعد انتہائی نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا اور تقسیم ہند میں ملنے والے اثاثوںکی بھاری مقدار سے آج بھی محروم رکھا گیا ہے ۔اس کے باوجود1964ءتک قرضہ لینے نہیں، دینے والے ممالک میں شامل تھا اور 1964ءمیںاب G8 (ترقی یافتہ ممالک کی پہلی فہرست)میں شامل جرمن کو 50 لاکھ ڈالر کا قرضہ دیا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان میں کرپشن کا ناسور ناپید تھا آج کرپشن کنگ ہی اصل کنگ ہے ۔
ظلم بھی ہو امن بھی رہے
تم ہی بتاو یہ کیسے ممکن ہے