میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جعلی تناظر ، مصنوعی لڑائیاں

جعلی تناظر ، مصنوعی لڑائیاں

ویب ڈیسک
منگل, ۳۰ مارچ ۲۰۲۱

شیئر کریں

زرتشت قدیم فارس کے مفکر اور مذہبی پیشوا تھے۔ ایک افغان شہر سے ایران کا رخ کیا اور وہیں کے ہورہے۔ کوروش اعظم اور دارا نے اُن کے مذہب کو ریاستی حکم سے نافذ کیا ۔ بہت قلیل تعداد میں اُن کے ماننے والے آج بھی موجود ہیں ، جنہیں پارسی کہا جاتا ہے۔ زرتشت کی زندگی کے مطالعے میں ایک جگہ آدمی ذرا دیر کے لیے رُکتا ہے۔ دو ہزار سال قبل از مسیح میں جناب زرتشت کا تجربہ سیاست دانوں کے ساتھ کیسا رہا ہوگا کہ وہ کہتا ہے: سیاست دان کھٹی قے ہیں”۔ اللہ اللہ یہ پاکستان کے سیاست دان!!!
پی ڈی ایم کی سیاست قومی نہیں، ذاتی مفادات سے جڑی تھی۔ یہ ایک ناکام حکومت کے خلاف بھی کوئی بڑا تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ وزیراعظم عمران خان خود اپنی ناکامی کا ایک کامیاب اشتہار ہے۔ اُنہیں اور اُن کی ناکام حکومت کو بے نقاب کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ عوامی رجحانات عمران خان حکومت کے خلاف از خود متشکل ہو چکے تھے۔ مہنگائی کے بعد حکومت کے خلاف پہلی بددعا عورت کی زبان سے نکلتی ہے۔ عمومی تجربے میں عورتوں کی زبان سے عمران خان حکومت کے خلاف کوسنے سنائی دینے لگے تھے۔ عمران خان کی جعلی رومانیت دم توڑ چکی تھی۔ وہ اپنی ناکامیوں کی توجیہ و تقدیس میں مصروف تھے۔ اُن کے طرزِ حکومت کے باعث نواز شریف اور آصف زرداری کے حق میں فضا بننے لگی تھی۔ ایک حکومت کی ناکامی اس سے زیادہ عریاں کیا ہوگی کہ وہ اپنے ہی حریفوں کے حق میں سازگار لگنے لگے۔ اسی نکتے کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو کسی اپوزیشن کی ناکامی بھی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ وہ اپنی نااہل ، ناکام اور نامراد حریف کو بھی گرانے میں ناکام رہے۔ پی ڈی ایم کی ناکامی یہی ہے، اس لیے یہ ناکامی زیادہ منحوس اور زیادہ گہری ہے۔ درحقیقت حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی ناکامیوںکے باعث ایک دوسرے کے خلاف کامیاب ہونے میں ناکام ہے۔ عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ اُنہیں حکومت تو کبھی اچھی میسر نہیں آئی مگر اب اُن کے حصے میں اپوزیشن بھی کوئی اچھی نہیں آتی۔

پی ڈی ایم کی بُنت اور بناوٹ میں ہی ناکامی کے تمام اسباب چھپے تھے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ نظر انداز کیے گئے۔ پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی اور اہم جماعتیں نوازلیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی تھیں۔ ماضی میں جے یو آئی اتحادی حکومتوں میں سہارے کا کردار ادا کرتی تھی۔ وہ کبھی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ حالات نے مولانا فضل الرحمان کو اس اتحاد کی قیادت مہیا کی تو یہ کوئی حقیقی صورت حال نہیں تھی۔ بلکہ محض بناوٹی اور نمائشی اقدام کی نوعیت رکھتی تھی۔ مولانا فضل الرحمان اس قیادت کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔ اُنہوں نے تاثر تو یہ دیا کہ وہ آہستہ آہستہ اور بتدریج دو بڑی جماعتوں کو عمران خان کے خلاف ایک حل پر متفق کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر عملاً ایسا نہیں ہوسکا۔ کسی بھی انسان کی طاقت کا راز اُس کے اندر ہونا چاہئے ، بیرون پر انحصار سے حاصل طاقت بھی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے جو کچھ کیا وہ کوئلوں کی دلالی کے سوا کچھ نہ تھا۔ پاکستان کے سنگین سیاسی حقائق یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ الگ الگ ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بالکل الگ ہے۔ یہ ووٹرز ایک دوسرے کے خلاف سیاسی تناظر رکھتے ہیں۔ ان کے پاس سنانے کے لیے اپنی اپنی تاریخ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بروئے کار آنے کا ماضی رکھتی ہیں۔ تاریخی طور پر یہ حریف جماعتیں حلیف ہونے کے لیے جو ایجنڈا یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک فروغ دینا چاہتی تھیں، وہ عوام میں سیاسی تشریح اور تفہیم کے لیے اُن کے کردار کی گواہی کی طالب تھی۔ مگر یہ جماعتیں خود اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے لیے کوشاں تھیں۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت بھی دراصل حمایت حاصل کرنے کی ایک تدبیر تھی۔ ایسی خطرناک منافقت کے ساتھ یہ جماعتیں اپنا کوئی نقش کیسے جماسکتی تھی؟ جناب زرتشت کا قول یاد کرلیجیے! سیاست دان کھٹی قے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کی پی ڈی ایم میں طاقت دوسری جماعتوں کی مددگار بن کر ظاہر ہوئی۔ وہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سے اپنی مرضی کی سیاسی کمک نہیں پاسکے۔ اُنہوں نے صبر کے ساتھ ان جماعتوں کا ساتھ دیا تو یہ امکان اُن کے پیش نظر تھا کہ کسی دن اُن کا سیاسی موقف دونوں جماعتیں یکساں طور پر قبول کرلیںگی۔ مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کے طرزِ سیاست نے مولانا فضل الرحمان اور نواز لیگ کے عقابی رہنماؤں کو یکساں طور پر مایوس کیا۔ نواز لیگ کے لیے یہ مایوسی کوئی بڑی نہیں۔ اس لیے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کودھوکا اور دھکا دینے کی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ لہذا یہ آپس میں کتنی ہی بار اکٹھے ہو، عملاً وہی نتیجہ نکلتا ہے جو یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد نکلا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بھی ایک دوسرے کی تاک میں ہوتے ہیں۔ لہذا پیپلزپارٹی نے جو کچھ نواز لیگ کے ساتھ کیا وہی کچھ نوازلیگ متعدد مرتبہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کرچکی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سردو گرم زمانہ چشیدہ مولانا فضل الرحمان نے کیونکر یہ جھوٹی امید باندھ لی تھی کہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ اپنی تاریخ سے کوئی مختلف کردار میں پی ڈی ایم کو رونق دینگیں۔ پھر خود مولانا فضل الرحمان کی سیاست بھی اپنی تاریخ میںکوئی مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ مولانا فضل الرحمان نے ماضی میں یہی کچھ کیا ہے جس کا وہ اب سامنا کررہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے دورِ سیاست میں اُن کا کردار وہی تھا جو آج پیپلزپارٹی کاہے۔ سفاک تاریخ اپنا دائرہ پورا کررہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح نوازلیگ اور پیپلزپارٹی اُن کے ساتھ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کو تیار ہوجائے۔ مولانا یہ سمجھتے تھے کہ عمران مخالف تحریک اُسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب طارق بن زیاد کی طرح جبرالٹر پر کشتیاں جلادی جائیں۔ استعفے وہی کشتیاں تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح پیپلزپارٹی اور نواز لیگ عملاً عمران خان کے خلاف دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے کمربستہ ہوجائیںگی اور اُنہیں اپنے پہلے دھرنے کی ناکامی کی طرح ایک بار پھر بے نتیجہ دھرنے کا سامنا نہیں ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان یہ بجاطور پر سمجھتے تھے کہ ستم ظریفی ٔ حالات میںنواز لیگ اُن کے موقف کے زیادہ قریب ہے، چنانچہ اُنہوں نے نواز شریف اور مریم نوا ز کی حمایت کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے کے ساتھ بھی خود کو وابستہ رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ اس بیانئے میں اُن کا اصل ہدف ہر گز اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی بلکہ وہ درحقیقت نواز لیگ کے عقابی رہنماؤں کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ مگر مولانایہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ پیپلزپارٹی تو بہت دور کی بات ہے وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ مخالف نواز لیگ سے بھی استعفے حاصل نہیں کرسکتے۔ نواز لیگ اچھی طرح جانتی تھی کہ پیپلزپارٹی کبھی بھی استعفے نہیںدے گی ۔ چنانچہ وہ استعفوں کی سیاست میں خود کو اُصول پسند دکھانے اور مولانا فضل الرحمان کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے یہ تاثر دیتی رہی کہ وہ استعفے دینے کو تیار ہے۔ نوازلیگ نے استعفوں کی سیاست میں زبانی جمع خرچ مولانا فضل الرحمان والا مگر عملی اقدام پیپلزپارٹی والا رکھا۔ نواز لیگ کے لیے استعفے دینا ایسا ہی جیسے پیپلزپارٹی والے استعفے دے دیں۔ دونوں جماعتیں اس اقدام سے اپنا دامن بچائے رکھنا چاہتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے غم وغصے اور غیض وغضب کے بجائے وہ سیاسی طور پر اپنا اقدام حاصل وصول کے گوشوارے بنا کر اُٹھاتی ہیں۔ یہ سب کچھ چیئرمین سینیٹ اور پھر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب سے تقریباً بے نقاب ہو چکا۔ پی ڈی ایم نے وہی سیاست کی جس کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ خواہاں تھی۔ نظام پر عدم اعتماد پیدا کرنے کا سب سے سنہری موقع یہ تھا کہ سینیٹ کا انتخاب نہ ہونے دیا جاتا۔ مگر مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی سمیت تمام پی ڈی ایم جماعتیں اس انتخاب میں شریک ہوئیںاور ناکامی کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔پی ڈی ایم جماعتیں سینیٹ انتخاب کے بعد اب ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور نوازشریف سمیت اکثر سیاسی جماعتیں اس کھیل کو اب پیپلزپارٹی کے خلاف ایک بیانئے کی شکل دینا چاہتی ہیں ، مگر پیپلزپارٹی نے وہی کیا جس کی اُن سے توقع تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود نوازلیگ اور مولانا فضل الرحمان بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ پیپلزپارٹی وہی کرے گی جو اُس نے کیاہے۔ بلاول بھٹو نے مریم نواز کو ٹھنڈا پانی پینے کا مشورہ دیا ہے۔ یہی ٹھنڈا پانی بہت مرتبہ نوازلیگ نے بھی پی پی قیادت کو پلایا ہے۔ اس ارزل مفادات کے مکروہ کھیل سے جو پاکستان میں انقلاب کی بشارتیں سناتے تھے، اُن کے جعلی تناظر قابلِ رحم ہیں۔ پی ڈی ایم کی مصنوعی لڑائیوں سے جو اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک کی آرزو پالتے تھے، اُن کی سیاسی بصیرت پر تُف ہے۔ دوہزاز سال قبل از مسیح میں بھی جناب زرتشت کا تجربہ سیاست دانوں کے معاملے میں یہی تھا، ایک بار پھر دُہرا لیجیے! سیاست دان کھٹی قے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں