عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں
شیئر کریں
نواز شریف کی سندھ یاترا، آصف زرداری اور بلاول زرداری کے پنجاب میں جلسے ، لفظوں کی جنگ میں شدت
عمران خان کی سندھ وپنجاب میںسرگرمیاں ،سیاسی ملاقاتیں، الیکشن سے پہلے انتخابی ماحول تیار ہونے لگا
الیاس احمد
ملک بھر میں ایسا ماحول تیار ہونا شروع ہوگیا ہے کہ جیسے لگتا ہے کہ عام انتخابات کی ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ تبھی تو تینوں صوبوں سندھ‘ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں سیاسی جلسے جلوس شروع ہوگئے ہیں البتہ بلوچستان میں ابھی انتخابات کا ٹیمپو نہیں بن سکا ہے۔ نواز شریف نے ٹھٹھہ کے بعد اب حیدرآباد کا رخ کیا ، اس کے بعد ان کا رخ سکھر اور لاڑکانہ کی جانب ہوگا۔ لگتا ہے کہ نواز شریف کو کسی نے سمجھایا ہے کہ اگر ملک میں پاپولر لیڈر بننا ہے تو پھر سندھ اور خیبرپختونخوا کا رخ کرنا ہوگا اور وہاں توجہ دینا ہوگی۔ وہاں کے عوام کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا اور پھر جب اکثریت ملے گی تب یہ تاثر پیدا ہوگا کہ اب مسلم لیگ (ن) حقیقی معنوں میں قومی پارٹی بن گئی ہے اور تمام صوبوں کو نمائندگی ملی ہے کیونکہ اس وقت صرف دو وفاقی وزراءکا تعلق سندھ سے ہے جبکہ ایک وفاقی وزیر حکیم بلوچ مستعفی ہوکرپی پی کے پلیٹ فارم سے دوبارہ ضمنی الیکشن لڑکر رکن قومی اسمبلی بن چکے ہیں۔ لیاقت جتوئی اور غوث علی شاہ پہلے ہی مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہوکر بیٹھ گئے ہیں اس لیے اب ان کو سندھ پر توجہ دینا ہوگی ان کے سندھ بھر میں جلسے سیاسی ماحول میں مثبت تبدیلی قرار دی جارہی ہے، اگر ان کے جلسے جلوس اس طرح برقرار رہے تو 2018 ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سندھ اور خیبرپختونخوا سے اچھی خاصی تعداد میں نشستیں لے سکتی ہے۔
دوسری جانب آصف علی زرداری نے پنجاب کا رخ کرلیاہے۔ وہ لاہور‘ ملتان میں جاکر پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں سے ملے ہیں اور پھر وہاں جو خطاب کیا ہے اس سے مسلم لیگ (ن) مشتعل ہوگئی ہے ۔آصف زرداری کا یہ کہنا ایک لطیفہ ہوگا کہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت ٹھیکوں میں کمیشن لیتی ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو آصف زرداری نے سندھ میں کمیشن کلچر کو اب ختم کردیا ہے،کیونکہ اب تو پورا ٹھیکہ ہی فروخت ہوجاتا ہے۔ اِدھر ٹھیکے کا اعلان ہوا اُدھر حکومت نے ٹھیکے کی رقم جاری کردی اور ادھر ٹھیکیدار اور حکومت سندھ نے مل بانٹ کر پیسے لے لیے اور ٹھیکہ جائے بھاڑ میں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تو آصف زرداری نے طنزیہ کہا کہ دیکھو پاگلوں کو؟ اب بھی ٹھیکوں پر کمیشن لیتے ہیں ،ہم کو دیکھو ہم ٹھیکہ ہی ہائی جیک کرلیتے ہیں، نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے برجستہ جواب دیا کہ ہم پر تنقید کرنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں، ان کو سوائے ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھی پنجاب کے دورے کیے ہیں۔ لاہور سے فیصل آباد تک ریلی نکالی مگر اس کے باوجود بھی وہ مزید جلسے جلوسوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ دوسری جانب یوسف رضا گیلانی بھی پنجاب میں سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ اس وقت ملتان ڈویژن‘ بہاولپور ڈویژن میں پارٹی کارکنوں‘ رہنماﺅں کو سرگرم کرنے میں مصروف ہیں۔ پی پی نے اگر پنجاب میں زیادہ جلسے جلوس کیے تو اس کو سرائیکی بیلٹ میں کچھ کامیابی مل سکتی ہے مگر جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب میں مقبولیت کم ملے گی۔
ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی سندھ‘ پنجاب کے دورے شروع کردیے ہیں۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ وہ سندھ اور پنجاب میں اپنی پارٹی کو مضبوط کریں لیکن عمران خان کی سندھ کے حوالے سے پالیسی کمزور ہے، ان کے پاس نادر اکمل لغاری جیسا بردبار رہنما تھا جو پڑھا لکھا اور سنجیدہ تھا مگر عمران خان نے ان کو گنوا دیا اور نادر اکمل لغاری نے تحریک انصاف کو چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ یوں ایک اچھے رہنما سے تحریک انصاف محروم ہوگئی لیکن وہ سندھ اور پنجاب کے دورے کریں گے تو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں مگر اس کے لیے بھی عمران خان کو ہوم ورک کرنا پڑے گا، مو¿ثر پالیسی بنانا ہوگی۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر ان کو سندھ سے کم ہی نشستیں مل سکیں گی۔ عام انتخابات میں کم از کم ڈیڑھ سال باقی ہے لیکن ابھی سے الیکشن کی تیاریاں بتا رہی ہیں کہ تینوں مقبول لیڈر الیکشن کی قبل از وقت تیاری کرچکے ہیں۔ دیکھا جائے تو آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا تحریک انصاف سے ہی مقابلہ ہوگا۔ پی پی کے لیے ایک بڑا امتحان سر پر آگیا ہے کیونکہ پورے سندھ کے سیاسی مخالفین کو پی پی میں لایا گیا ہے اب الیکشن میں سندھ میں کرپشن‘ بیڈ گورننس اور رہنماﺅں پر الزامات کے باعث کئی لیڈر پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور آصف زرداری چاہے کتنی باتیں کیوں نہ کریں عام الیکشن میں ان کو 2013 ءسے بھی کم سیٹیں ملیں گی۔