انسداد تجاوزات سیل کے افسران و اہلکار باوردی وصولیوں میں مصروف
شیئر کریں
( رپورٹ :جوہر مجید شاہ) اینٹی انکروچمنٹ سیل ایسٹ زون ون کے افسران و اہلکاروں نے اپنے عہدے فرائض اختیارات کو شارٹ ٹرم اغواء برائے تاوان کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا باوردی وصولیوں و سرکاری تھانے تاوان وصولیوں میں مگن، واضح رہے کہ مزکورہ محکمہ لگ بھگ 2010/11ء میں سابق صدر آصف علی زرداری کی ایماء پر قائم کیا گیا تھا جسکا مقصد شہر و سندھ بھر میں سرکاری و غیر سرکاری اراضی کو لینڈ گریبرز قبضہ مافیا کے چنگل سے آزاد کرانا تھا اور مزکورہ تھانوں کی سربراہی کا تاج مشہور زمانہ شہید پولیس افسر بہادر علی کے بیٹے موجودہ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے سر رہا، مگر آج مزکورہ تھانے حیران کن طور پر سندھ حکومت کے مرکزی کرداروں کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ آج انکا کردار سرکاری سرپرستی میں قبضے کرنا اور سرکار کی ہی مرضی سے زمین واگزار کرانا رہ گیا ہے، مطلب صاف مزکورہ تھانے و اہلکار حکام بالا کی ذاتی ملکیت و میراث میں تبدیل ہو گئے، تنخواہ سرکار سے یعنی شہریوں کے ٹیکس سے مگر خدمات و نوکری سندھ کی اعلیٰ شخصیات کی کررہے ہیں۔ اس لیے قانون و ریاستی رٹ کا ڈر نہیں بلکہ وقت گزرنے کیساتھ مزکورہ تھانے غیرقانونی تعمیرات کے دھندوں میں بھی گھس گئے اور انکروچمنٹ کے نام پر اندھیر مچا رکھی ہے، وصولیوں/ بھتہ خوری رشوت بازاری کا کوئی در چھوڑا نہیں جبکہ واضح رہے کہ مزکورہ تھانے قانوناً بورڈ آف ریونیو کے مجاز افسران و اہلکاروںکے ماتحت کام کرنے کے پابند تھے اور ہیں مگر خلاف ضابطہ مزکورہ تھانے اور انکی انتظامیہ مادر پدرآزاد ہونے کیساتھ شہر بھر میں غیرقانونی/ خلاف ضابطہ تعمیرات کی آڑ لیکر شہریوں کیلئے عذاب بن گئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مزکورہ تھانے کارروائی کا اختیار سرکاری محکموں جن میں قابل ذکربورڈ آف ریونیو متعلقہ ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنرز ادارہ ترقیات کراچی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مجاز افسران کے ماتحت انجام دے سکتے ہیں، جبکہ غیرقانونی اقدام سے متعلق مقدمے کا اندراج بھی مزکورہ اداروں کی مدعیت میں درج کیا جاتا ہے، مزکورہ تھانے از خود مقدمہ درج کرنے کا قانونی اختیار بھی نہیں رکھتے، مگر انتہائی حیرت انگیز طور پر اینٹی انکروچمنٹ سیل ون کا تھانہ اسکے افسران و اہلکار آپے سے باہر ہوگئے ہیں ایسٹ زون روزانہ کی بنیاد پر ضلع بھر میں ہونے والی تعمیرات کی آڑ لیکر موقع پر موجود کام کرنے یا کرانے والے مالکان مزدوروں مستریوں کو غیرقانونی طور پر اٹھاکر تھانے میں لاکر حبس بے جامیں رکھتے ہوئے شارٹ ٹرم اغواء برائے تاوان کا دھندا چلا رہے ہیں اور روزانہ ہفتہ ماہانہ سالانہ کی بنیاد پر شہر اور شہریوں کی جیبوں سے لاکھوں کروڑوں ڈکار رہے ہیں، مزکورہ تھانہ اینٹی انکروچمنٹ سیل ون تھانہ اسکی سفید رنگ کی موبائلیں شہر اور شہریوں کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن گئیں ہیں۔ واضح رہے کہ مزکورہ تھانے کے افسران و اہلکاروں نے اپنے ہمراہ غیرقانونی طور پر درجنوں پرائیویٹ بیٹر و ایجنٹوں کی فوج بھی پال رکھی ہے، مزکورہ تھانے سے متعلق ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بے گناہ شہری کو بغرض تاوان وصولی ایسٹ زون ون کے راشی و کرپٹ افسران و اہلکار تھانے لائے جس پر شہری کے گھر والوں نے بیلف کے ذریعے چھاپہ مار کارروائی کی مگر تھانے والے شہری کو مخبری ہونے کے سبب رہا کر چکے تھے۔ ادھر انتہائی تکلیف دہ بات یہ کہ مزکورہ تھانے والے رشوت بھتہ خوری میں اس قدر مست و مگن ہیں کہ افسران بالا و دیگر تحقیقاتی اداروں کا خوف تو بالکل نہیں مگر انھیں ذرہ برابر بھی خوف خدا نہیں، اینٹی انکروچمنٹ سیل ون متصل ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ ایسٹ تھانے کے گیٹ پر مامور دو کانسٹیبل محسن اور نسیم حدود میں گاڑیاں دھونے والے بچوں سے روزانہ 50 روپے رشوت وصول کرتے ہیں رشوت و لوٹ مار میں بدمست متعلقہ تھانہ و اہلکاروں نے محکمہ پولیس کے وقار کیساتھ اسکی ساکھ کو بھی بری طرح مجروح کر رکھا ہے۔ اگلی اشاعت میں بھتہ وصولی کا ایک کیس جس کا راقم خود گواہ ہے شامل اشاعت کیا جائیگا اور اس کے مکروہ کرداروں کو بے نقاب کیا جائیگا۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر داخلہ سندھ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ڈی جی رینجرز سندھ انسپکٹر جنرل آف سندھ پولیس چیئرمین محکمہ انسداد رشوت ستانی ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس ڈی آئی جی ایسٹ ایس ایس پی سمیت تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔