میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بحریہ ٹاؤن اور وفاقی حکومت کا گٹھ جوڑ بے نقاب

بحریہ ٹاؤن اور وفاقی حکومت کا گٹھ جوڑ بے نقاب

ویب ڈیسک
اتوار, ۳۰ جنوری ۲۰۲۲

شیئر کریں

کراچی (رپورٹ: شعیب مختار) برطانوی فراڈیے کو پاکستان میں اسٹیٹ کا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا شہزاد اکبر نے ملک ریاض سے دوستی کا حق ادا کر دیا وفاقی حکومت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے غیر منظورہ شدہ پلاٹوں پر سرمایہ کاری کے لیے میدان میں آ گئی بحریہ ٹاؤن کراچی میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت 100 کینال اراضی پر تین ہزار گھر تعمیر کیے جائیں گے معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہو گیا وفاقی حکومت کا سربراہ بحریہ ٹاؤن سے گٹھ جوڑ سامنے آ گیا ۔تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان کی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت کراچی سپر ہائی وے پر موجود بحریہ گرین کے برابر میں 100 کینال زمین پر 3ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس ضمن میں حکومت پاکستان کے جاری کردہ لیٹر کے مطابق ایک گھر کی کم سے کم قیمت 26 لاکھ مقرر کرنے اور ماہانہ آسان اقساط پر مذکورہ گھروں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے مذکورہ پراجیکٹ سے متعلق تفصیلات بحریہ ٹاؤن کی جنرل مینیجر مدیحہ عروج کو الائیڈ بینک شاہراہ فیصل میں جمع کروانے کی ہدایت دی گئی ہے جس کے تحت حکومت کی جانب سے اس پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے جلد بحریہ ٹاؤن کو بڑے پیمانے پر فنڈز جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حال میں میں استعفیٰ دینے والے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کے قریبی ساتھی بھی بتائے جاتے ہیں دسمبر 2019 میں برطانوی نیشنل ایجنسی کی جانب سے اوور سیز پاکستانیوں سے بحریہ ٹاؤن کی آڑ میں فراڈ کرنے پر ملک ریاض کیخلاف تحقیقات کو یقینی بنایا گیا تھا جس میں ان کی جانب سے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا گیا تھا اس سلسلے میں 190 ملین پاؤنڈز کے انکے اثاثے بھی ضبط کیے گئے تھے جس میں لندن کے علاقے میں ون ہائیڈ پارک پیلس نامی عمارت بھی شامل تھی ضبط کی گئی تمام رقم پاکستانی خزانے میں منتقل کی جانی تھیں لیکن وفاقی حکومت کی بھرپور معاونت کے سبب برطانوی حکام کی جانب سے حاصل کردہ 190 ملین پاؤنڈز کی خطیر رقم سیدھی سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں بھیجی گئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے کی ایک معاہدے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔یعنی جو رقم ریاست پاکستان کی ملکیت تھی وہ ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ ہوئی ہے۔ ملک ریاض کی جانب سے سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا گیا ہے اس کی تفصیلات رازداری میں رکھی گئی ہیں اور این سی اے کے بعد حکومت پاکستان بھی یہ تفصیلات دینے سے گریزاں ہے کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا ہے۔ ملک ریاض کے برطانیہ میں اب بھی 5 سے زائد بینک اکاؤنٹس این سی اے کی تحویل میں ہیں. واضح رہے این سی اے سے معاہدہ کرنے اور پاکستان کو منی لانڈرنگ کی گئی رقم واپس دینے پر ملک ریاض اور انکے بیٹے علی ریاض کے 10 سال کے لیے حاصل کیے گئے ملٹی انٹریز ویزے  برطانوی وزارت داخلہ کی جانب سے منسوخ کر دیے گئے تھے اس سلسلے میں ان کی جانب سے فیصلہ اپر ٹریبونل کے سامنے چیلنج کیا گیا تھا مگر وہاں سے بھی فیصلہ ان کے خلاف آیا ہے جس کے بعد ان کی جانب سے اپر ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف کورٹ آف اپیل سے رجوع کیا گیا تھا جس نے اپر ٹریبونل کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے.


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں