میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاست برائے دولت

سیاست برائے دولت

منتظم
پیر, ۳۰ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے ارب پتی خاندانوں کی تاریخ ملاحظہ فرمائیں۔ اکثر کی کہانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خاندان سے مختلف نہیں ہوگی۔ 1970ءمیں اہم ذرائع پیدا وار جن خاندانوں کی ملکیت تھے‘ ان کی مجموعی تعداد 22تھی۔ ان خاندانوں نے بڑی شہرت حاصل کی‘ اس سے قبل قیام پاکستان سے پہلے چند ایک ہی بڑے خاندان تھے جو متحدہ ہندوستان میں کاروباری حوالے سے مشہور تھے۔ چھوٹے کاروباری خاندانوں کو تشکیل پاکستان کے بعد پہنچنے کا موقع ملا اور ان کے لیے پاکستان سونے کی چڑیا ثابت ہوا۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں سے پلنے اور قومی خزانہ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے والے ان خاندانوں کی عزت‘ حیثیت اور شہرت صرف پاکستان کی بدولت قائم ہوئی ہے۔ جنرل ایوب خان نے 8اکتوبر 1958ءکو صدر اسکندر مرزا کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ 1966ءمیں برطانیہ میں فوجی ٹینکوں اور اسلحہ کی خریداری کے دوران ایوب خان کی کوشش تھی کہ اس سودے سے ان کے صاحبزادے گوہر ایوب کو کیا مل سکتا ہے۔ گوہر ایوب اس وقت فوج میں ملازم تھے۔ وزیر خزانہ شعیب مرحوم نے جو خود بھی بدعنوانیوں میں ملوث تھے‘ ایوب خان کو اس بات پر رضا مند کیا کہ اپنے بیٹوں کو کاروبار میں لے آئیں۔ خود ایوب خان نے بھی امریکی سی آئی اے سے خفیہ معاہدوں میں 9لاکھ 60ہزار ڈالر کی رقم بطور سیاسی رشوت قبول کی۔ اس معاملے میں مرحوم وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی پیچھے نہیں تھے جن کے خفیہ اکاو¿نٹ میں امریکی سی آئی اے مسٹر ڈیوڈ کے نام سے باقاعدہ رقم جمع کراتی تھی۔ (یہ بات مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم) نے خود راقم الحروف کو بتائی تھی۔ بعد ازاں 1968ءتک گوھر ایوب کئی صنعتی اور سرکاری اداروں کے چیئرمین‘ ایم ڈی اور ڈائریکٹر بن گئے جن میں عروسہ انویسٹمنٹ لمیٹڈ عروسہ انڈسٹریز‘ ہاشمی کین کمپنی‘ گندھارا انڈسٹریز گوھر حبیب لمیٹڈ‘ گندھارا منرل اینڈ ٹریڈنگ کمپنی جانا نہ ڈی سالو چوٹیکسٹائل ملز وغیرہ شامل ہیں۔ اس زمانہ میں ان کے سرمائے کی مجموعی مالیت 4ملین ڈالر کے قریب تھی۔ ایوب خان کی نوازشات کا سلسلہ ان کے دامادوں تک دراز تھا۔ 1964ءکے صدارتی الیکشن کے وقت کروڑوں کے حساب سے انتخابی فنڈ جمع کیا گیا۔ حتیٰ کہ تاجروں اور صنعتکاروں کو درآمدی لائسنسوں پر مقررہ شرح سے انتخابی فنڈ دینا ہوتا تھا۔ کچھ لائسنس فرضی ناموں سے جاری کرکے مہنگے داموں فروخت کیے جاتے تھے۔ پٹ سن کے کارخانوں اور سوتی وادنی ملوں سے بھی بھاری چندے وصول کیے گئے۔ اسی دوران یہ خبر بھی عام ہوئی کہ ایوب خان نے بیرونی ملکوں کے بینکوں میں 54کروڑ ڈالر کی رقم جمع کر رکھی ہے۔ یہ اس دور کا ذکر ہے جب پاکستان میں چپراسی کی تنخواہ 28روپے اور کلرک کی تنخواہ 60روپے ماہانہ تھی۔ بعد ازاں یہی گوھر ایوب میاں نواز شریف کی پچھلی حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے۔ جنرل ضیاءالحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کے بارے میں جنرل اختر عبدالرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر کا یہ جملہ ایک انگریزی اخبار کی زینت بناکر ”اعجاز الحق کے پاس میرے مقابلے میں کیا ہے‘ صرف مونگ پھلی کا دانہ“ بعد ازاں صدر پاکستان آصف علی زرداری کے دور میں یہ مشہور ہوا کہ اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کو دفاعی سازو سامان کی خریداری کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں ۔ یہ معاملات اب نیب کے زیر تفتیش ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے تایا میاں برکت 1936ءمیں جاتی امراو¿ (امر تسر) سے لاہور آئے تھے جہاں انہوں نے ایک روپیہ روزانہ پر مزدوری کی اور لوہے کی بھٹی پر لوھا پگھلانے کے کام سے شریف خاندان کے کاروبار کا آغاز کیا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ ارب پتی خاندانوں نے حکومتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا‘ ٹیکسوں کی چھوٹ‘ بینکوں کے قرضے اور دوسری مراعات ان خاندانوں کے ارب پتی بننے میں معاون ثابت ہوئیں‘ 1970ءکے 22بڑے خاندانوں میں کراچی کے داو¿د گروپ کا پہلا نمبر تھا۔ سیٹھ احمد داو¿د نے ممبئی میں اپنے نانا کی پرچون کی دکان سے اپنی کاروباری زندگی کا آغاز کیا تھا۔
1970ءتک داو¿د خاندان کے پاس 55کروڑ 78لاکھ روپے کا سرمایہ موجود تھا۔ دوسرے نمبر پر سہگل تیسرے پر آدم جی اور چوتھے نمبر پر جلیل خاندان تھا جبکہ نشاط گروپ کا 24واں نمبر تھا جس کے اثاثے 12کروڑ 89لاکھ روپے تھے لیکن آج یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی گروپ ہے جس کے اثاثوں کی مالیت کھربوں روپے ہے۔ نشاط گروپ کی یہ ترقی میاں نواز شریف کی بدولت ہے۔ جنہوں نے اس گروپ کے سربراہ میاں منشاءپر شفقت کا ہاتھ رکھا اور انہیں کروڑ پتی سے کھرب پتی بنادیا‘ سابق صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور صدارت میں تجویز دی تھی کہ اگر ملک کے تاجر اور صنعتکار دولاکھ ڈالر ادا کریں اور 30ہزار افراد اس میں حصہ لیں تو نہ صرف غیر ملکی قرضہ ادا ہوجائے گا، بلکہ بجٹ خسارے میں بھی بڑی حد تک کمی آجائے گی۔ ان صنعت کاروں اور تاجروں کو حکومتی سطح پر خصوصی اہمیت دی جائے گی۔ ان کی گاڑیوں پر”پاکستان ون اور پاکستان ٹو“ کی نمبرز پلیٹیں لگیں گی۔سرکاری تقریبات میں ان کو خصوصی اہمیت دی جائے گی وغیرہ، لیکن اس تجویز پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے ہی اقتدار سنبھالنے کے 5دن بعد 17اکتوبر 1999ءکو سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا جس میں کرپشن کے ذریعے قومی خزانہ لوٹنے والوں اور عادی نادھندگان سے قرضوں کی وصولیابی کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی تھی اور اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ 17نومبر 1999ءکے بعد ان قومی لٹیروں کا سخت احتساب شروع ہوگا اور لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے گی۔ قومی احتساب بیورو کی ری اسٹرکچرنگ بھی کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے اس مقصد کے لیے فوجی حکومت کو تین سال کا عرصہ بھی دیا لیکن نہ لوٹی ہوئی دولت واپس ہوئی اور نہ ہی قرض نادھندگان نے رقم ادا کی اس کا سب سے بڑا سبب تو یہی ہے کہ ملکی سیاست پر دولت کا قبضہ ہوچکا ہے۔ بڑے بڑے کارٹیل اور مافیاز وجود میں آچکے ہیں جن کے آگے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی بے بس ہوگئے اور دولت کے بل پر حکومت کرنے والوں نے انہیں مدت ملازمت پوری ہونے پر رخصت کردیا۔ اب مختلف افواہوں اور خبروں کے ذریعے ان کی عوامی مقبولیت کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے کتنی زمین ملی جناب راحیل شریف کو؟ 90ایکڑ۔ آپ کو کئی پنجابی کاشت کار بتائیں گے یہ بھی کوئی رقبہ ہوا چار مربعے بھی پورے نہیں بنتے۔ اسی پنجاب میں ایک پولیس افسر کے صاحبزادے ہیں جن کا نام ہے جہانگیر ترین ان کے کتنے مربعے ہیں‘ صبح گھوڑا دوڑانا شروع کرو‘ شام ہوجائے گی ان کے مربعے ختم نہیں ہوں گے۔ کوئی یہ ثابت کردے کہ کسی قانون‘ کسی ضابطے کی خلاف وزری ہوئی ہو۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جہاں پر درختوں کے تنوں پر سفیدی کب اور کیسے ہونی ہے اور بوٹ پالش کرنے کے بعد برش رکھنا کہاں ہے اس کے بارے میں بھی قانون موجود ہیں تو اس ادارے میں کیا زمین بغیر کسی قانون کے الاٹ ہوگئی؟ کہاں ملک کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں ایکڑ زمینوں کے مالکان وڈیروں اور جاگیر داروں سے کبھی کسی نے پوچھا ہے کہ تمہارے پاس اتنی زمین کہاں سے آگئی؟ جنرل راحیل شریف نے تو پاکستان کے لیے دہشت گردوں سے جنگ لڑی اور انہیں شکست دی ہے جس کا اعتراف آج پوری دنیا کررہی ہے۔ حالیہ ڈیووس کانفرنس میں انہیں دنیا کا بہترین جرنیل قرار دیا گیا ہے اور ان کی خدمات کی تعریف کی گئی ہے۔ دراصل”پاناما لیکس“ کے جال میں پھڑ پھڑاتے پرندوں کو یہ خدشا ہے کہ کہیں جنرل راحیل شریف اپنی عالمگیر شہرت کے باعث مستقبل میں ان کی لیڈر شپ کے لیے چیلنج نہ بن جائیں‘ جاگیر داروں اور صنعتکاروں کے پروردہ یہ گروہ اب اسمبلیوں میں دست و گریباں ہیں اور پارلیمنٹ کو اکھاڑہ بنادیا ہے۔ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی یہ جنگ اب اسمبلیوں میں لڑی جارہی ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں