اور اب کھیل میں بھی قطر
شیئر کریں
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کا معاملہ کیا زیرغور آیا ہے کہ ہر سماعت پر ایک نیا ڈرامہ سامنے آتا ہے کبھی لندن فلیٹس کی ملکیت مانگی جاتی ہے کبھی اسے ٹرسٹ کی پراپرٹی ظاہرکیا جاتا ہے اور پھر ملکیت تسلیم کر لی جاتی ہے مالک خود لندن میں موجود ہے لیکن ان فلیٹس کے انتظام اور انصرام کے لیے اپنے پاکستان میں موجود بہن کو ٹرسٹی بناتے ہیں ایک عجب قصہ ہے جو سمجھ جائے تو وہ افلاطون قرار پائے اسی دوران یہ بھی ہوا کہ ایک قطری شہزادے کاخط سپریم کورٹ میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش کر دیا کہ یہ میاں صاحب کے لیے کلین چٹ ہے اور پھر اس کلین چٹ کا بھونپواتنا بجا کہ یہ چٹ خود ہی کلین ہو گئی جب اس خط سے کام نہ چلا تو ایک نیا شہزادہ تلاش کیا گیا اور اس سے بھی ایک خط لکھوا لیا گیا کہ میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ میرے بڑوں کے تعلقات میاں نواز شریف کے بڑوں سے بڑے ہی اچھے تھے اتنے اچھے تعلقات تھے کہ 12 ملین درہم کی رقم کاروبار میں لگا دی گئی اور یہ کاروبار 2006-07 تک چلا بھی لیکن تحریر اس کاروبار کے ضمن میں کلین چٹ کی طرح سے کلین ہی ہے ،اس نئے شہزادے نے ایک مزید انکشافات کیا ہے کہ یہ©” 12 ملین درہم کی معمولی رقم ” کسی ذریعے سے نہیں بلکہ نقد کاروبار میں لگائی گئی تھی ایسے ہی جیسے فٹ پاتھ کنارے چھولے بیچنے والے سے چھولے کی پلیٹ لی چھولے پیٹ میں پلٹے خالی پلیٹ اور پلیٹ کے پیسے نقد ادا کیے اور اپنی راہ چل دیے، بات دوسری طرف نکل گئی کالم سنجیدہ سے فکایہہ ہو گیا کرپشن دنیا کا مسئلہ ہے، لیکن پوری دنیا میں اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیاگیا، کہیں اعلیٰ عہدیداراوں نے استعفیٰ دیے ہیں تو کہیںعوام نے حکمرانوں کو دھکے دے کر ایوانوں سے باہر کیا ہے، یہاں تک کے اسرائیلی وزیر اعظم بنجومن نیتن یاہو سے اسرائیلی پولیس نے بدعنوانی کے معاملات میں تفتیش کا تیسرا دور کیا ہے اور ایسے سخت سوالات کیے ہیں کہ اگر ایسے سوالات ہماری اشرافیہ سے ہوتے تو سوالات کرنے والا نا صرف خود قابل گردن زنی ٹھہرتا بلکہ بادشاہانہ انداز میں ” زن بچوں سمیت” کولھو میں پسوا دیا جاتا کہ اس کو ایسے سوالات کی جرا¿ت کیسے ہوئی لیکن وہ اسرائیل ہے خطہ زمین پر جبر کی ایک علامت ناجائز قبضہ کی پیداوار لیکن وہاں بھی بدعنوانی قابل برداشت نہیں، ایک ہم ہیں پاکستان کو مملکت خداداد قرار دیتے ہیں اسلام کو اپنی منزل بتاتے ہیں اور ریاست مدینہ کورول ماڈل قرار دیتے ہیں اور بدعنوانی پر ایسی ایسی تاویلات لا رہے ہیں کہ بے ساختہ سردھنے کو جی چاہتا ہے ۔
عدالت کا ایک مقام ومرتبہ ہوتا ہے اسی طرح پارلیمنٹ بھی ” مقدس” ہوا کرتی ہے لیکن اس کا تقدس برقرار رکھنا صرف اور صرف حزب اختلاف کی ذمہ داری ہے، حکمران اس” مقدس” ایوان میں جو چاہے کریں انہیں اس کا استحقاق حاصل ہے کہ وہ حکمران ہیں گزشتہ جمعرات ایوان میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ درست ہے کہ شاہ محمود قریشی کی تقریر سخت تھی لیکن کرپشن کا معاملہ ہو اور ملک کا وقار اور مستقبل داو¿ پر لگا ہوا ہو تو ہر محب وطن کی زبان بلا ارادہ تلخ ہو جاتی ہے ” بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات” شاہ محمود قریشی کی تلخی اس سچائی کا اظہارہے جو 20 کروڑ پاکستانیوں کی دل کی آواز ہے، یہ بھی درست ہے کہ شاہ محمود قریشی کو تھوڑا احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا لیکن جب اسپتالوں میں مریض علاج کے لیے انتظار کرتے ہوئے موت کا شکار ہو جاتے ہوںجب نوجوان بے روزگاری کا شکا ر ہوں بچیوں کے سروں میں جہیز کی تیاری میں چاندی آجاتی ہو بچے تعلیم سے محروم ہوں تو پھرسینے میں دل اور دل میں درد رکھنے والوں کے لہجوں میں تلخی آجانا غیر معمولی نہیںہے، لیکن یہ کیا ہوا اب الزام بھی عمران خان پر لگایا جا رہا ہے، کیا وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کوعمران خان یا ان کے پارٹی کے کسی فرد نے ان کی نشست سے اُٹھا کر شہریار آفریدی کے سامنے لا کھڑا کیا تھا اور پھر ان کی آستین بھی شاید سعید مراد نے چڑھا دی تھیں اور شاہد خاقان عباسی کے منہ سے جو کف بہہ رہا تھا وہ بھی شاید کسی پی ٹی آئی کے کسی رکن نے ان کے منہ میں بھر دیا تھا اور ان کے حواس پر بھی ہیپناٹزم کے ذریعے پی ٹی آئی والوں نے قبضہ کر لیا تھا کہ وہ شہریارآفریدی پرہاتھ اُٹھا بیٹھے اور یوں ایوان WWF کا اکھاڑا بن گیا جس میں دو پہلوان تو آمنے سامنے ہوتے ہی ہیں لیکن دونوں کے بہت سے حمایتی کود پڑتے ہیں اور ریفری بیچارہ” مسکین” ایاز صادق کی طرح خاموش تماشائی بن جاتا ہے کہ بزرگ کہتے ہیں کہ جھگڑے میں جو بولے وہ اپنی عزت خود خراب کرائے اور ” محترم ایاز صادق” کو اپنی عزت ایوان کے وقار سے زیادہ پیاری تھی ورنہ وہ یوں خاموش نہ رہتے ۔
سندھ کے وزیر کھیل سردار محمد بخش مہر نے بتایا ہے کہ سندھ کی حکومت میں قطر سے نوجوان بچے اور بچیوں کو جمناسٹک کی تربیت دینے کے لیے ٹرینرز کا اہتمام کیا ہے جو وزیرموصوف کے مطابق سندھ یونیورسٹی میں بچے اور بچیوں کو جمناسٹک کی تربیت دے رہے ہیں، اس طرح سے قطر سے ایل این جی کے معاہدے اور پاناما لیکس میں قطری شہزادوں کے خطوط کے بعد کھیل کے میدانوں میں بھی تعاون کا سلسلہ بھی دراز ہوا ہے اب یہ سلسلہ کہاں تک جاتا ہے ،یہ یا تو پاناما لیکس کے پاکستان میں مرکزی کردار بتا سکتے ہیں یا سندھ کے وزیر کھیل ۔
٭٭