سرکاری ملازمین کو قائدؒ کی نصیحت
شیئر کریں
شہزاد احمد
درحقیقت سرکاری ملازمین کا یہ تصور ہی عین اسلامی ہے کسی سرکاری اہلکار کو جانبداری کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا بلکہ قابل تعزیر جرم تصورکیا جاتاہے۔حکومت ان ملازمین کو عوام کی خدمت کے لیے بھرتی کرتی ہے اور جس معاشرے میں یہ سرکاری ملازم حکمران بن جاتے ہیں۔
کراچی میں سول و فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا ’’ میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح اسلام میں حضرت محمدؒ جو عظیم قانون دان تھے کے مرتب کردہ سنہری اصولوں کو اپنانے میں پنہاں ہے۔ آئیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں‘‘
25مارچ1948 کو حکومت کے افسران سے چٹاگانگ کو ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا’’آپ کو ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں آپ کا سیا ست اور سیاسی جماعتوں سے کوی سروکار نہیں۔یہ آپ کا کام نہیں ہے یہ سیاستدانوں کا ذمہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور مستقبل کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتے ہیں ۔ جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو گی وہی حکومت بنائے گی۔ آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہئیے۔ آپ صرف قومی ملازم ہیں۔ حکومت کی خدمت ایک خادم کی حیثیت سے کرنی چاہئیے۔ آپ کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں بلکہ ملازمین کے طبقے سے ہے ‘‘
14اپریل1948کو گورنر ہاوس پشاور میں اعلیٰ سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’آپ کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہیں۔یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ کسی سیاسی جماعت کی اعانت کریں۔ آئین کے تحت قائم کردہ کوئی بھی حکومت ہو بلا تفریق کہ کون وزیراعظم ہے اور کون وزیر ہے آپ کی ذمہ داری نہ صرف مکمل وفاداری کے ساتھ ان کی خدمت کرنی ہے بلکہ بے خوف ہو کر خدمت کرنی ہے‘‘۔
قائد اعظمؒ نے سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ سیاسی یا گروہی وابستگی سے بلند ہوکر عوام کے خادمین کی حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیں۔اس طرح عوام کی نظروں میں ان کا مقام بلند ہوگا۔لیکن آج کے ملازمین ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ خادم ہیں یا افسران۔
تاریخ اسلامی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب جانبداری کے جرم میں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی تعزیر کی گئی۔کسی سرکاری ملازم کو خواہ اسکا تعلق گریڈایک سے ہو یا گرید بائیس سے یہ صوابدیدی اختیار کسی صورت میں حاصل نہیں کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کرے۔ کسی بھی صورت میں کسی سرکاری اہلکارکاحکومت سازی کیلیے کسی فریق کی اعانت کرنا ،سازشیں کرنا، نہ صرف غداری جیسا مکروہ فعل ہے بلکہ غیر اسلامی،غیرآئینی اور غیر اخلاقی جرم ہے۔
قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ناجائز مراعات حاصل کرنے،ناجائز طور پر عہدوں اور مرتبوں کے حصول کے لیے ذاتی خودی اور قومی حمیت کو قربان کر دیتے ہیں تو وہ قوموں کا ایک ایسا ناسور ہوتے ہیں جس کا اثر زائل ہونے کے لیے کئی دہائیاں چاہئیں ۔ بظاہر وہ اپنے آپ کو عظیم لوگوں کی صف میں شمار کرتے ہیں مگر در حقیقت وہ اپنے منافقانہ رویوں کے باعث پستی کی اتھاہ گہرئیوں میں گر چکے ہوتے ہیں۔ ان کوتاہ اندیش اور کج بینوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا کہ منافق کبھی عظیم انسان نہیں بن سکتا۔وہ صرف اور صرف منافق ہی رہتا ہے۔تاریخ انسانی ایسے منافقوں کے انجاموں سے بھری ہوئی ہے۔قائداعظمؒ کو اس مفادپرست ٹولے کے عزائم کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے اپنی تقاریر میں بار ہا انہیں متنبہ کیا۔اسی مقصد کے لیے انہوں نے آئین ،جمہوری تصور اور سرکاری ملازمین کی آئینی حیثیت کو واضح کیا۔
بیسویں صدی میں عالمی سیاست کے فلک پر نامور رہنماؤں کی ایک کہکشاں جگمگارہی تھی اتاترک،چرچل،مہاتما گاندھی، گوربچوف، نیلسن مینڈیلا ،جمال عبدالناصر، روزویلٹ،ماؤزے تنگ نامی گرامی رہنما تھے۔مگر ان سب میں ہمارے قائد اعظمؒ ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔سٹینلے ولپرٹ ’ جناح ان پاکستان‘ میں رقمطراز ہیں ’’چندنمایاں شخصیات نے تاریخ کا دھارا بدلا۔چند نے دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں کیں۔معدودے چند نے قومی ریاست تشکیل دی جبکہ محمد علی جناحؒ نے تینوں کام سرانجام دئیے۔‘‘
قائد اعظمؒ کی کامیابی کا رازان کی سچائی اور اخلاص میں پنہاں تھا قائد اعظمؒ کی زندگی کے کسی پہلو سے بھی ان کے منافقانہ کردار کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنے نظریات اور عقیدے کونہیں بدلا کرتے تھے انکی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انکے شدید مخالفین بھی کوئی واقعہ پیش نہیں کرسکتے جہاں انہوں نے مصلحت کی آڑ میں اصولوں سے انحراف کیا ہو۔یہی ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان کی شناخت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی جان اور محنت سے حاصل کی ہوئی دولت اپنی قوم پر قربان کردی۔ انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بتا دیا تھا کہ پاکستان قائم ہوگا اور ضرور قائم ہو گا کیونکہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔قائداعظمؒ اپنے زخمی پھیپھڑوں کے ساتھ آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اسی جدو جہد کی خاطر وہ علاج کے لیے وقت نہ نکال سکے۔انہیں اپنی قسمت میں لکھی گئی ذمہ د اری پورا کرنا تھی آزادی کا عظیم مقصد پورا ہوتے ہی انہوں نے بیماری کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے۔اب بہت وقت گزر چکا تھا۔بیماری اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔قائداعظمؒ کو اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اب جینے کا کوئی مقصد نظر نہیں آرہا تھا نہ انہیں اقتدار کا لالچ تھانہ کبھی ایسی خواہش کی۔