میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۹ نومبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔ ۔ عدالت نے حکومت کو 6 میں قانون سازی کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت میں وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے اور نئی دستاویز پیش کیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتظار پر معذرت خواہ ہیں، جس کے بعد ججز نے دستاویز کا جائزہ لیا، بعد ازاں مختصر فیصلہ سنایا گیا۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی یا توسیع چیلنج کی گئی، حکومت ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی، کبھی دوبارہ تعیناتی کبھی دوبارہ توسیع کا کہا جاتا رہا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ آئین کے مطابق صدر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ 6 ماہ میں قانون سازی تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہی رہیں گے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ آج عدالت کو نئی سمری نوٹیفکیشن پیش کیے گئے ، نوٹیکفیشن کے مطابق جنرل باجوہ کو آرمی چیف تعینات کیا گیا، حکومت نے جنرل باجوہ کی نئی تعیناتی 28 نومبر سے دی۔عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کو قانون سازی سے مشروط 6 ماہ کی توسیع دی گئی کیونکہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا قانون میں ذکر نہیں،آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا بھی کہیں ذکر نہیں۔فیصلے کے مطابق حکومت، عدالت میں آرٹیکل 243 بی پر انحصار کر رہی ہے اور عدالت نے 243بی، آرمی ایکٹ اور اس کے رول کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جاسکتی ہے یا نہیں، عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی سوالوں کا جواب دیا، جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق پاک آرمی کا کنٹرول وفاقی حکومت سنبھالتی ہے جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے ۔فیصلے کے متن میں درج ہے کہ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے قانون خاموش ہے ۔ حکومت نے مسلح افواج کے قوانین میں ترامیم کیلئے 6 ماہ کا وقت مانگا۔تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہم معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑتے ہیں اور اس وقت آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کے لئے ہوگی۔ چھ ماہ بعد عدالت آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے متعلق قوانین کا دوبارہ جائزہ لے گی۔فیصلے کے مطابق موجودہ آرمی چیف کو 28 نومبر 2019 سے توسیع دی جارہی ہے اور حکومت آئندہ 6 ماہ میں قانون سازی کرے ۔اور چھ ماہ بعد قوانین کو دوبارہ دیکھا جائیگا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریاض حنیف راہی کی آرمی چیف کی مدت ملازمت کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس مظرعالم میاں خیل بھی بینچ میں شامل تھے ۔حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصورعلی خان اور سابق وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے دلائل دیے ۔جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالہ سے جمعرات کے روزکیس کی عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ موجودہ تقرری پہلے والی تقرریوں سے مختلف کیسے ہے ۔ دستاویزات میں عدالت کو کیوں لاتے ہیں؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئیتعیناتی کیسے درست ہے اٹارنی جنرل کو عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے ۔ آپ ادھر اُدھر گھومتے رہے ، ہم نے کسی کو ایڈوائس نہیں کرنا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243ون بی کے تحت کی گئی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمری میں تو عدالتی کاروائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ۔آپ اپنا بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیںاپنا کام خود کریں ، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیںچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئی سمری میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا ذکر کیوں ہے ؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا سمری سے عدالت کا نام نکالیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عہدے کو آئین اور قانون کے مطابق پُر کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 28نومبر سے آرمی چیف کی تقرری کر دی ہے ، آج تو آرمی چیف کا عہدہ خالی ہی نہیں ہے ، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں ہے اس پرتعیناتی کیسے ہو سکتی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمری سے عدالت ایڈوائس والا حصہ نکالیں، اگر صدر مملکت ہم سے ایڈوائس مانگیں تو الگ بات ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانونی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لے گی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی، تین سال کی مدت کا ذکر کہیں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری قانون کے مطابق ہونی چاہیے ۔ جو سمری پیش کی گئی ،اس میں تنخواہ اور مراعات کا ذکر نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243میں تین سال کی مدت کا تعین نہیں، آپ تین سال کی توسیع دے رہے ہیں۔ تین سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی۔نوٹیفیکیشن میں مدت تین سال لکھی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ذبردست آرمی چیف مل گیا تو شائد مدت 30سال لکھ دی جائے ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ایک واضح نظام ہونا چاہیئے جس کا سب کو علم ہونا چاہیے ۔ لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آرمی چیف کا عہدہ خالی ہے ؟۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین و قانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈا شروع ہو گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف مہم شروع کر دی گئی اور کہا گیا کہ ہم بھارتی ایجنٹ ہیں۔ کہا گیا یہ ففتھ جنریشن وار ہے ۔ ہمیں یہ پوچھنا پڑا کہ ففتھ جنریشن وار ہوتی کیا ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھارتی چینلز پر چلایا جارہا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہہ دیا گیا کہ یہ تینوں جج سی آئی اے اور را کے ایجنٹ ہیں، الزام لگایا گیا کہ ہم بھارت کی ایماء پر کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا نے سے معاملہ کو غلط انداز میں پیش کیا، ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہونا چاہیئے کہ آرمی جنرل کو پنشن ملتی ہے کہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی۔ اس پر اٹارنی جنر ل کا کہنا تھا کہ اگر مدت مقرر نہ کریں تو تا حکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب سینے سے لگا رکھی ہے ۔ا ن کا کہنا تھا کہ واضح ہونا چاہیئے کہ جنرل کو پنشن ملتی ہے یانہیں؟اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائرڈ ہو جاتا ہے ۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ گزشتہ روز کہہ رہے تھے کہ آرمی چیف ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپ ڈیٹ کر ے تو نئے رولز بنیں گے ۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین میں 18مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ غلطیوں کے باوجود ہمیں آئین محترم ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے ، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہماتھ بندھ جاتے ہیں۔عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں۔آئندہ کے لئے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہو گا۔آرٹیکل 243میں تین سال تعیناتی کا ذکر نہیں، تین سال تعیناتی کی مثال ہو گی لیکن یہ قانونی نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے توسیع کر دی تو یہ مثال بن جائے گی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل243میں اضافہ کر دیا۔اٹارنی جنرل انور منصور خان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے متعلق الگ قانون بنایاجائے گا۔ جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کا کہنا تھا کہ یہ بھی طے کر لیا جائے کہ آئندہ توسیع ہو گی یا نئی تعیناتی؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آرٹیکل 243کے تحت تقرری کرنی ہے تو مدت نکلا ل دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روائت نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی دو کو نہیں۔ان تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جارہی ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243کے تحت تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں۔جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کم از کم آرٹیکل 243پر تو مکمل عمل کریں۔یف جسٹس کا کہنا تھا پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لئے مقرر کیا گیا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہیںنہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو کس نے توسیع دی۔،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا اتنے اہم عہدے کے لئے تو ابہام ہو نا ہی نہیں چاہیئے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا جنرل راحیل شریف کو پنشن مل رہی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا رولز میں جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا تین ماہ میں قوانین تیار کر لیںگے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تین ماہ میں قوانین تیار ہو گئے تو پھر آرمی چیف کو تین ماہ کی توسیع مل جائے گی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کی بات لکھ دیں کہ تین ماہ میں قوانین بنا دیں گے ۔اٹارنی جنرل کا اس پر کہنا تھا کہ فیصلے میں مدت کا تعین نہ لکھیں ،وہ کام ہم کر لیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ قوا نین بنانے کے لیے انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جا کر قانون بنائیں، جو قانون 72سال میںنہیں بن سکا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس معاملہ پر کوئی قانون بنائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قانون بنانے کے لئے تین ماہ کا وقت چاہیئے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ریاض حنیف راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے ہمیں جانا نہ پڑے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا جنہوں نے ملک کی خدمت کی ان کا بہت احترام ہے ۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سمری تیار کر کے لائیں جس میں آرمی چیف کی مدت درج نہ کی جائے ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ تین روز کے اندر بیان حلفی دیں کہ چھ ماہ میں قانون میں ترمیم کر دیں گے ۔ قانون میں ترمیم آرمی چیف کی تقرری، دوبارہ تعیناتی اور توسیع سے متعلق ہو گی۔عدالت کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ،تعیناتی ، توسیع ، الائونس اور مراعات واضح کی جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چھ ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیر قانونی ہو جائے گی، چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کروالیں ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے جو تبدیلیاں کرنی ہیں کر لیں۔ 10رکنی فل کورٹ بیٹھے گا، تب تک سمری تیار کر کے لے آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر تاخیر کریں گے تو ذمہ دار آپ ہوںگے ۔ان کو کہنا تھا کہ جو کچھ کاروائی میں ہوا ہم وہ ریکارڈ کا حصہ بنا دیں گے ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل اور مستعفی وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ آرٹیکل 243میں بہتری کر لیں گے ۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243میں تنخواہ ، الائونس اور دیگر چیزیں شامل کریں گے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا سمری میں جس آئین کا ذکر ہونا چاہیئے ۔ وہ ہے ہی نہیں۔آپ سمری سے تین سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں گے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ قانون میں بہت زیادہ ابہام ہے اور آرمی چیف کے عہدے کے تقرر کے حوالہ سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیئے اور واضح طور پر قانون ہونا چاہیئے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک سمری بنا کر لائیں اور اگر یہ قانون کے مطابق نہ ہوئی (کیونکہ ہم کورٹ آف لاء ہیں)تو پھر کوئی بھی ڈیزاسٹر ہو سکتا ہے ، کیونکہ رات 12بجے تک کا وقت ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خبروں کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف خود آئے اور انہوں نے سمریز درست کروائیں، یہ کام چیف آف آرمی اسٹاف کا نہیں ہے ان کو ملکی دفاع پر توجہ دینی چاہیئے اور یہ جن کا کام ہے انہیں احسن انداز میں انجام دینا چاہیئے ۔عدالت نے اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم سے 4 نکات پر مشتمل بیان حلفی طلب کرلیا اور جنرل قمرجاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضامندی ظاہرکردی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم 3 ماہ میں متعلقہ قانون سازی کا بیان حلفی دیں گے ، آرمی چیف کے نوٹی فکیشن میں ان کی مدت ملازمت درج نہیں ہوگی، سمری میں سے 3 سال کی مدت بھی نکال دیں گے ، تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری سے نکال دیں، یہ کہ 6 ماہ میں قانون سازی کرلیں گے ، ہم چاہتے ہیں یہ تمام رکارڈ کا حصہ ہو اور قانون درست ہونا چاہیے ۔بعد ازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوپہر کو اس حوالے سے شارٹ آرڈر جاری کریں گے ۔چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد جب فیصلہ سنانے کے لیے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی نئی سمری سپریم کورٹ میں پیش کی۔عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔عدالتی فیصلے کے بعد صحافی نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے سوال کیا کہ کیا فیصلہ توقعات کے مطابق ہے ، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ الحمداللہ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کردیا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں