احتجاجی مراسلہ
شیئر کریں
افغانستان کی جانب سے سرحد پا ر دہشت گردی اور بھارت کی جانب سے بین اقوامی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی روز مرہ کا معمول بن چکا ہے افغان دہشت گردی کا نشانہ قومی سلامتی کے ادارے ہوتے ہیں تو بھارت کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے افغان دہشت گردی کے نتیجے میں گذشتہ دنوں فوجی آفسر اور سپاہی نشانہ بنا تو بھارت فائرنگ کی زد میں آکر عمر رسیدہ خاتون جام شہادت نوش کر گئی۔ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کو بھی بھارتی پشت پناہی حاصل ہے۔ گذشتہ دنوں ایک جانب تربت کے قریب 20نوجوانوں کو گولیاں ما ر کر شہید کردیا گیا تو دوسری جانب کوئٹہ میں ایس پی سطح کا پولیس آفیسر دہشت گردوں کا نشانہ بنا اور نوجوان سال بیٹے پوتے اور اہلیہ سمیت جان کی بازی ہار گیا ۔ تربت واقعہ کے کھرے ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف کی جانب جاتے ہیں اور بی ایل ایف کو افغان اور بھارتی سرپرستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
وزارت خارجہ میں بیٹھے بابو مراسلہ نویسی کو اپنا کل وقتی فرض منصبی جانتے ہیں اور سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ممالک کو سفارتی اہلکاروں کو احتجاجی مراسلہ حوالہ کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ گویا ملکی دفاعی ادارے کے آفسران اور پاکستانوں کے جانوں کے تحفظ کے لیے احتجاجی مراسلہ ہی کافی ہے اور دہشت گردی میں ملوث یہ ممالک اتنے ذمہ دارہیں کہ ایک مراسلہ کے بعد اپنی دہشت گردنہ سرگرمیاں سے بازآجائیں گے۔
وزارت خارجہ میں موجود بابو تو پھر بھی بابو ہیں نواز شریف کی نااہلی سے یہ توہوا کہ ملک کو ایک مکمل وزیر خارجہ مل گیا ورنہ بین اقوامی تعلقات کو ملکی مفادات کے تابع لانے کی ذمہ داری جن کاندھوں پر تھی ان کندھوں کو بھی سہارے کی ضرورت تھی مشیر خارجہ اپنی پیرانہ سالی کے باعث اس قدر نحیف ہوچکے تھے کہ شنیدہے کہ دو افراد کے سہارے اپنی کرسی تک پہنچتے تھے یہ تھے سرتاج عزیز اور دوسرے مشیر خارجہ کا حال یہ تھا کہ ان کا پورا خاندان امریکامیں رہائش پذیر ہے اور وہ خود بھی دوہری شہریت کے حامل تھے ۔ گویا کہ کمانہ پاکستان میں اورخرچ کرنا امریکا میں ۔باوثوق ذرائع تو یہ کہانی بھی سناتے ہیں کہ موصوف کے فرزند ارجمند امریکاکے جس ادارے میں ملازم ہے وہ فرم امریکا میں پاکستان کے ازلی دشمن کے لیے لابنگ کرنے والی سب سے بڑی فرم ہے۔
23اکتوبر 2014کو پروفیسر غلام اعظم نے ڈھاکہ میں اس حالت داعی اجل کو لبیک کہاکہ وہ اس وقت پاکستان سے محبت اور 1971 کے سانحہ کے دوران دفاع پاکستان کی جدوجہد کے” ـ؎ جرم” کی سزا بھگت رہے تھے بتانے والے بتاتے ہیں کہ پر وفیسر صاحب کے جیل جانے سے قبل ان کے پاس دو گھڑیاں ہوا کرتی تھیں ایک میں بنگلادیش کا ٹائم اور دوسری میں پاکستان کا ٹائم جب جیل روانہ کیے گئے تو اس وقت بھی ان کے پاس دو گھڑیاں تھیںجو جیل قواعدکے مطابق تحویل میں لے لی گئی پروفیسر صاحب کے انتقال کی اطلاع پاکستان میں 9:20شب پہنچ چکی تھی اور پروفیسر صاحب کا جماعت اسلامی سے طویل تعلق تھا وہ قیام بنگلادیش سے قبل جماعت اسلامی کے نائب امیر رہے تھے اور قیام بنگلادیش اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو سرگرمیوں کی اجازت ملنے کے بعد جماعت اسلامی بنگلادیش کے پہلے امیر منتخب ہوئے تھے۔ یوں تو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سرگرمیاں کبھی معطل نہیں ہوتی تھیں لیکن اس وقت تک نظم قائم نہ تھا۔
پروفیسر غلام اعظم کا جماعت اسلامی کے بانی سے گہرا تعلق تھا ان حالات میں جماعت اسلامی پاکستان کے ذمے داران کی جانب سے ان کی آخری رسم میں شرکت کی خواہش فطری تھی مرکز جماعت سے اس اطلاع کے بعد دفتر خارجہ سے فوری رابطہ کیا گیا لیکن اس وقت مشیر خارجہ سرتاج عزیز دستیاب نہیں تھے جب موٖصوف دستیاب ہوئے تو انہیں تفصیل سے بتانا پڑا کہ پروفیسر غلام اعظم کون تھے کیا تھے ان کا پاکستان کے لیے کیا کردار ہے ان کی قربانیاں کیا ہیں اس وقت تک پروفیسر غلام اعظم کی آخری رسومات ادا کی جا چکی تھیں ،یوں جماعت اسلامی پاکستان کا وفد شدید خواہش کے بعد بھی پروفیسر صاحب کی آخری رسومات میں شریک نہ ہوسکا یہ تو یوں بھی ایک فرد کی آخری رسومات میں چند افراد کی شرکت کا معاملہ تھا، لیکن پاکستان وزارت خارجہ کے ذمے داران تو عبدالقادر ملا مطیع الرحمان نظامی سمیت دفاع پاکستان کی جنگ میں حصہ لینے والوں کی پھانسیوں کے معاملہ کو بھی بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے چکے تھے جبکہ دفتر خارجہ کی کسی فائل میں وہ معاہدہ اب بھی موجود ہوگا جو پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کیے جانے کے وقت ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کے مابین طے پایا تھا کہ دونوںممالک 1971 کے واقعات میں "ملوث "افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔البدر اور الشمس سمیت دفاع پاکستان کی جنگ لڑنے والے بنگالیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ جنگی جرائم کا کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا ۔لیکن حسینہ واجد نے بھارت کی خوشنودی کے لیے اپنے باپ کا کیا ہوا معاہدہ بھی ایک طرف رکھ دیا ہے۔
افغانستان میں پہلے روس اور بعدمیں امریکی مداخلت کے بعد افغانستان کی سرحدوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت افغانستان خطہ میں دہشت گردی کے فروغ کا مرکزبن گیا ہے ۔ اس میں بھارت کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا پاکستانی سرحدوں سے متصل افغان علاقوں میں بھارتیقونصل خانہ جن کی تعداد 2 درجن سے زائدہے افغانستان اور بھارت کے مابین نہ تو تجارتی حجم اتنا بڑا ہے اور نہ ہی افراد کی نقل وحمل اتنی بڑی تعداد میں ہے کہ اس بڑی تعداد میں قونصل خانوں کی وزارت ہوئے پر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے تو بھارتی نقاب نوچ دیا ہے ۔