فیض آباد دھرنا اورپولیس کارروائی
شیئر کریں
ختمنبوت کی شک جو آئین ِپاکستان میں شامل تھی ۔ اس کو نواز شریف کے حکم اور امریکا کی اشیر آباد پر ختم کرنے کی کوشش کے خلاف، لبیک یا رسولؐ اللہ پارٹی کے رہنمائوں نے کئی ہفتے پہلے فیض آباد پر احتجاجی دھرنا شروع کیاتھا۔ پر امن دھرنے کے شرکاء کا جائز مطالبہ ہے کہ وزیر قانون، جس نے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا اس کو وزارات قانون سے فارغ کیا جائے۔ تاکہ آیندہ کوئی بھی اس طے شدہ مسئلہ کو دوبارہ چھیڑنے کی کوشش نہ کرے۔ اس میں شک نہیں کہ دھرنے سے روالپنڈی اسلام آباد لوگوں کو اس تکلیف پہنچ رہی تھی۔ مگر اتنے بڑے مذہبی معاملے پر اگر کچھ دن لوگ تکلیف برادشت نہ کر سکیں تو یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ایک نیک مقصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے والوں کی طرف سے نازیبا اور گالیوں والی زبان استعمال کی گئی۔حکومت کو اس مسئلے کا ادراک کر کے مسئلہ دو دن میں حل کر سکتی تھی۔ مگر حکومت نے اس مسئلے کو جان بوجھ کر حل نہیں کیا۔ بلکہ حکومت کے وزیروں کی طرف سے بیانات داغے گئے کہ وزیر قانون استیفیٰ کیوں دے۔ نواز شریف کے داماد صفدر صاحب نے بیان دیا کہ دھرنے سے تو ایک تھانے دار بھی استعفی نہیں دینا وزیر قانون کیوں استعفیٰ دے۔
کیا ن لیگ حکومت اس سے قبل ملک کی مسلح افواج کے خلاف اپنے غلط کاموں کی پادائش میں اپنی پارٹی کے ایک سینیٹر اور دوسری بار فوج کے خلاف ڈان لیک کیس میں وزیر اطلاعات اور دو افراد کو فارغ نہیں کر چکی۔تازہ غلطی ختم نبوت کی شق تبدیل کرنے پر بھی وزیر قانون کو فارغ کر سکتی تھی۔ خاص کر فیض آباد دھرنے اور ملک میں دوسری جگہوں پر احتجاج پر تو فوراً وزیر قانون کو فارغ کر کے ملک میں ان وامان قائم کر سکتی تھی۔ مگر کچھ حلقوں کے مطابق حکومت جان بوجھ کر اس معاملے کو الجھانا چاہتی تھی۔ کوئی مانے نہ مانے مگر نوازشریف کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان میں اب اس کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ بلکہ اس کو ملک کا لوٹا ہوا پیسہ بھی واپس غریب عوام کے خزانے میں داخل کرنا پڑے گا۔ اس پر نواز شریف ملک کی فوج اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے کر رہا ہے۔ اس کا یجنڈا ہے کہ میں نہیں تو ملک نہیں۔ اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے کہ ملک میں افراتفری پیدا ہو اور وہ اپنے مخصوص مقاصد حاصل کر سکے۔ یہ معاملہ خاص کر نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ایک طرف پارلیمنٹ میں ختم نبوت شک ختم کرنے کے لیے پیش کی گئی جس پر لے دے شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے ممبر نے اس بل کے خلاف پانچ ترمیمیں پیش کیں۔ مگر اس کو اکژیت کی بنیاد پر بلڈوز کر دیا گیا اور ایک نہ سنی گئی۔ سینیٹ میں اس ترمیم کو جے یو آئی کے سینیٹر نے ٹیبل کیا۔ اپنی مخصوص پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملک کے حساس معاملے پرپہلے نواز شریف نے اپنے دامادسے پارلیمنٹ میں یہ بیان دلوایاکہ فوج اور سول ملازمتوں میں سے قادیانیوں کو نکالا جائے۔ اس کے بعد پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ جو ماڈل ٹائون میں14؍ افراد کے قتل کے الزام کاسامنا کرنے والوں میں شامل ہے سے بیان دلوایا گیا کہ قادیانی مسلمان اور ہمارے بھائی ہیں بس صرف علماء کو کچھ اختلاف ہے۔ راناء ثنا اللہ ایک قانون دان ہیں اور اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں کہ1974۱ء کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے پھر بھی انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا؟ان کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوا۔
کئی دنوں سے حکومت کے بیان آرہے تھے کہ ہم دھرنے والوں پر کسی قسم کا تشدد کرنے کے قائل نہیں۔ اسی قسم کے سپریم کورٹ نے بھی ریمارکس دیے تھے۔ بلا آخر حکومت نے عدالت کے حکم پر فیض آباد دھرنے والوں کو اُٹھانے کے لیے آپریشن کلین اپ شروع کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دھرنے والوں کا جائز مطالبہ، جس کو ملک کی ساری دینی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی مان لیا جاتا اور وزیر قانون کو فارغ کر دیا جا تا۔مگر ن لیگ کی حکومت جو پل پل میں نواز شریف سے ہدایا ت لی رہی ہے جس نے جان بوجھ کر معاملہ خراب کیا۔ دھرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا۔ اخباری اطلاع کے مطابق کریک دائون میں8500 سیکورٹی اہلکار شریک ہوئے۔اس کارروائی میں اسلام آباد، پنجاب، آزاد کشمیر پولیس اور ایف سی والے شامل تھے۔ موبائل سروس کئی دنوں سے بند کی تھی ۔ ایک دن پہلے کھانے پینے کی رسد روک دی گئی تھی ۔دھرنے والوں پر آنسوگیس کے شل پھینکے گئے۔ جوابا دھرنے والے انہی آنسو گیس کے شلوں کواٹھا واپس سیکورٹی والوں پر پھینکتی رہے۔ واٹر کین استعمال کی گئی۔ربر کی گولیاں چلائی گئی۔ لاٹھی چارج کیا گیا۔ کئی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دن بھر آنکھ مچولی جاری رہی ۔ دھرنے والے پیچھے ہٹے تو ان کے خیموں کو آگ لگا دی۔ کنٹینرمیں بیٹھے لبیک یا رسولؐ اللہ کے روں دواں علامہ خادم حسین رضوی صاحب تک پولیس گرفتار کرنے کے لیے نہیں پہنچ سکی۔ پہلے پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دکیل دیا۔ پھر کنٹینر سے اعلانات ہوتے رہے کہ واپس اپنی جگہوں پر آجائیں۔ کارکن واپس کنٹینر کے ارد گرد واپس آگئے۔ کنٹینرسے علماء ،دین اپنی تقریوں سے کارکنوں کے حوصلے بڑھاتے رہے۔ آیا آیا دین آیا ،تاج دار ختم نبوت اور لبیک لبیک کے نعرے لگائے جاتے رہے جن کا کارکنوں کی جانب سے بھرپورجواب دیاگیا۔
مری روڈ فیض آباد کے قریب سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے گھر پر بھی پتھرائو کیا گیا۔وفاقی وزیرزاہدحامد کے گھرپربھی حملہ کیاگیا۔ تاہم پیرکے روزحکومت اوردھرناقائدین میں ایک معاہدہ طے پایاجس کے بعد تادم تحریک دھرناختم ہونے اوروفاقی وزیرقانون زاہدحامد کااستعفے منظورکیے جانے کااعلان سامنے آچکاتھا۔