مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم اور عالمی برادری کی ذمہ داری
شیئر کریں
یہ حقیقت ہے کہ کشمیر جنت نظیر ہے جو آج آگ و خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ انگریز نے بددیانتی سے جو تقسیم کی اور جس طرح گورداسپور کو بددیانتی سے پاکستان سے چھین کر بھارت کو دیا گیا۔ اسی طرح کشمیر کو بھی پاکستان سے کاٹ دیا اور بھارت نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا ۔ بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد یوں تو اٹوٹ انگ کی رٹ لگاتا ہے لیکن کشمیریوں پر مظالم کے لیے اس نے مقبوضہ کشمیر میں8سے10لاکھ تک کی نفری پر مشتمل فوج رکھی ہوئی ہے۔ کشمیری آج بھی اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ پرست بھارتی حکومت اور مقبوضہ علاقے میں اسکی کٹھ پتلی انتظامیہ کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کو حریت رہنمائوں ، کارکنوں اور عام کشمیریوں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے بھارتی ظالمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور نزاکت کو نظرانداز کر کے مقبوضہ علاقے میں بپا حالات کو محض امن و امان کا مسئلہ قر ار دے کرسنگین غلطی کر رہا ہے۔ پتھرائو کی پاداش میں گرفتار نوجوانوں کے لیے عام معافی کا نام نہاد اعلان محض دکھاوا ہے۔ اس وقت بھی حریت رہنمائوں اور کارکنوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں کشمیری تھانوں ، جیلوں اور تفتیشی مراکز میں بند ہیںجنہیں عدالتی احکامات کے باوجود رہا نہیں کیا جا رہا اور ان پر بار بار کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے مطالبہ ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کی ابتر صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنی ٹیمیں مقبوضہ علاقے میں بھیجیں۔
کٹھ پتلی انتظامیہ ایک طرف پتھرائو کی پاداش میں گرفتار نوجوانوں کو عام معافی دینے کا اعلان کر رہی ہے اوردوسری طرف بے گناہ نوجوانو ں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مقبوضہ علاقے کو مکمل طور پر پولیس سٹیٹ میں تبدیل میں کردیا گیا ہے جہاں آئین اور قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ بھارت کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ جبر و استبداد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں کامیاب ہو گا۔
مقبوضہ کشمیر میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مقبوضہ علاقے اور بھارت کی جیلوں میں نظربند کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں نظربند کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے جیل حکام پر زور دیا گیا کہ وہ ہرقیمت پر کشمیری نظربندوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔45سے زائد کشمیری نظربندوں کو عمرقید کی سزا سنائی گئی اوران میں سے زیادہ ترنے جیل میں 20سال سے زائد کا عرصہ گزارچکے لیکن انہیں رہا نہیں کیا جارہا جبکہ کشمیر میں عمر قید کی مدت صرف 20 سال ہے۔
یمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ظالمانہ قوانین کی تنسیخ کرے جو انہی سکیورٹی فورسز کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جن پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیم نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات پر بھی زور دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالا قانون ”افسپا’’کشمیر جنت نظیر کی ہے، جو آج آگ و خون میں نہلا دیا گیا ہے، انگریز نے بددیانتی سے جو تقسیم کی اور جس طرح گورداسپور کو بددیانتی سے پاکستان سے چھین کر (پہلے فارمولے میں یہ ضلع پاکستان میں تھا) بھارت کو دیا گیا۔ اس نے ایک اور تقسیم کر دی اور بھارت نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا یہ تو بھلا ہو، مجاہدین کا کہ جنہوں نے اس دور میں جہاد کر کے کشمیر کا معتدبہ حصہ آزاد کرایا، جو آج آزاد جموں و کشمیر کے نام سے موجود ہے اور جس کی اپنی شناخت ہے تاہم کشمیری خاندان تقسیم ہو گئے، ہمارے ملنے والوں میں بے شمار ایسے دوست ہیں، جن کے آدھے آدھے خاندان مقبوضہ کشمیر میں ہیں اور ایک دوسرے کو ملنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ بھارت یوں تو اٹوٹ انگ کی رٹ لگاتا ہے، لیکن کشمیریوں پر مظالم کے لیے اس نے مقبوضہ کشمیر میں 8 سے 10 لاکھ تک کی نفری پر مشتمل فوج رکھی ہوئی ہے۔ کشمیری آج بھی اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ کالا قانون افسپا1990 میں حریت پسند گروپوں کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے لاگو کیا گیا تھا یہ قانون لوگوں کو مزید دور کرنے کا باعث بنا ہے رپورٹ میں متاثرہ خاندانوں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں 17 سالہ جاوید جسے فوج نے شہید کردیا کے ماموں امین نے بتایا افسپا بے گناہوں کو قتل کرنے کا لائسنس ہے۔ اگر فوجیوں کو کارروائی کا خدشہ ہو تو گولی چلانے سے قبل 10 بار سوچیں گے آرمڈ فورسز سپیشنل پاورز ایکٹ کے تحت فوجیوں کو مشتبہ شدت پسندوں کو گولی مارنے اور انھیں بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان وسیع اختیارات کی وجہ سے اس غیر مستحکم خطے میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات میں ایک بھی فوجی پر سول عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے۔ ایمنسٹی کے گلوبل ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں۔ فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے کی جانے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے بھارت نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اپنے آئین کی پاسداری بھی نہیں کر پایا ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو درج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے ان خلاف ورزیوں پر حکومتی رد عمل نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری، اراضی واگزار کرانے کے نام پر غریب مسلم آبادی کو بے گھر کیا جا رہا ہے۔ گائے وغیرہ ذبح کے لیے فروخت کرنے کے نام پر انہیں تنگ کیا جا رہا ہے اور جھوٹے اور بے بنیاد کیسوں میں پھنسانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق نے بھارتی فوج کی جانب سے لوگوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کرنے کے مذموم منصوبوں کو نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ کیا گیا تو کشمیری مسلمان اس کے خلاف خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرینگے۔